چھ دوست جو گھر سے گھومنے اور انجوائے کرنے کے ارادے سے نکلے تھے، مگر انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ زندگی ان کے لیے کیا منظر دکھانے والی ہے۔ چھ میں سے تین دوست ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے جا چکے تھے، یا یوں کہا جائے کہ وہ اس کتاب کی سازش کا شکار ہو چکے تھے۔ باقی بچے تھے: کبیر، آرینا اور رونی۔
رونی باہر ہی سو رہا تھا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے کسی کی دبی دبی چیخیں سنائی دیں۔ وہ اندر کمرے میں آیا تو جو کچھ اس نے دیکھا، اسے دیکھ کر وہ بری طرح گھبرا گیا۔ ودیشا، آرینا کے سینے پر سوار ہو کر اسے مارنے کے لیے پوری طاقت سے اس کا گلا دبا رہی تھی۔ رونی کو کچھ سمجھ نہیں آیا، تو پاس پڑی لوہے کی راڈ سے اس نے زور دار وار ودیشا کے سر پر کر دیا۔ نہ جانے کیوں اس کے ہاتھ خود ہی اس راڈ کی طرف بڑھ گئے تھے۔
وہ حیرانی کے عالم میں آرینا سے سوال کر رہا تھا۔ اسی کے پاس عائشہ کی لاش پڑی تھی، جبکہ ہیمنت اور کبیر کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔ وہ شدید صدمے میں تھا۔ پھر جیسے اچانک اسے ہوش آیا تو اس نے سب سے پہلے ودیشا کی سانسیں چیک کیں۔ وار اتنا زوردار تھا کہ ودیشا کی سانسیں رک چکی تھیں۔ رونی نے آرینا کو چیک کیا، وہ ہوش میں آ رہی تھی۔
سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کہ وہ سمجھ ہی نہیں سکا کہ آخر ہو کیا رہا ہے اور کیوں۔ عائشہ کی لاش دیکھ کر تو اسے واقعی چکر سا آ گیا۔ یہاں کیا ہوا تھا؟ وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ہم سب تو یہاں گھومنے کے لیے آئے تھے۔ رونی کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ گھومنے لگا۔ سب صبح سے کتنے خوش تھے، ایک ساتھ انجوائے کر رہے تھے، ہنسی مذاق۔ آج کا دن کبھی نہ بھلانے والا لگ رہا تھا، ایک اچھی یاد اور خوشی کی تلاش میں سب نکلے تھے۔ یہ سب اچانک کیسے اور کیوں ہوا، وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
رونی رونے لگا۔
"ودیشا، پلیز اٹھو، میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا، آئی ایم سوری ودیشا، پلیز اٹھو۔"
رونی ودیشا کی لاش کے پاس بیٹھ کر اسے جھنجھوڑنے لگا۔ رونی کے ہاتھوں سے یہ کیا ہو گیا تھا؟ وہ صدمے کی کیفیت میں تھا، پھر اچانک اسے آرینا کا خیال آیا۔ اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔ وہ اسے اٹھا کر اس منحوس کمرے سے باہر لے آیا۔ آرینا کی سانسیں چل تو رہی تھیں مگر بہت مدھم۔
رونی نے اس کے ہاتھوں کو آہستہ آہستہ ملنا شروع کیا تاکہ اسے کچھ راحت ملے اور وہ جاگ جائے، مگر وہ بے ہوش ہی پڑی رہی۔ رونی تھک کر وہیں بیٹھ گیا۔ دماغ میں نہ جانے کتنی سوچیں اسے کھائے جا رہی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے کہ تب ہی اس کی نظر سامنے پڑی ایک چمکتی ہوئی چیز پر پڑی۔
اس نے چونک کر دیکھا۔ یہ کیا تھا جو اندھیرے میں ایسے چمک رہا تھا؟ رونی اس کی چمک دیکھ کر جیسے سب کچھ بھول گیا اور اس نے وہ چمکتی ہوئی چیز اٹھا لی۔ یہ اور کچھ نہیں، وہی منحوس کتاب تھی جس نے ان کی زندگی میں اتنی تباہی مچا دی تھی۔ ایک ہی رات میں اس نے اتنا کچھ کر دیا تھا۔ اس کے دوستوں کی جان لے چکی تھی وہ کتاب۔
رونی کے ہاتھ میں آتے ہی اس کتاب نے چمکنا بند کر دیا۔ ابھی وہ اسے کھولنے ہی والا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی:
"رونی، اس کتاب کو مت کھولنا، پلیز اسے فوراً پھینک دو، جہاں سے اٹھائی ہے وہیں پھینک دو، پلیز اسے مت کھولنا۔"
اس کے پیچھے کبیر کھڑا تھا۔ خون میں لت پت، اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے، سر پر بھی چوٹ لگی تھی۔ وہ بڑی مشکل سے چل پا رہا تھا۔ کبیر لڑکھڑاتا ہوا اس کی طرف آیا اور اس کے ہاتھ سے وہ کتاب لے کر دور پھینک دی۔
"یہ کتاب نہیں، موت کا کھیل ہے۔ اچھا ہوا تم نے اسے کھولا نہیں۔ یہ کتاب نہیں، ایک شیطانی سایہ ہے۔"
کبیر نے رونی کو شروع سے آخر تک سب کچھ بتایا جو اس کے ساتھ ہوا تھا، اور رونی نے بتایا کہ یہاں کیا کچھ ہوا۔ اس نے بتایا کہ اس کے ہاتھوں ودیشا کا قتل ہو گیا اور عائشہ بھی اس دنیا میں نہیں رہی۔ سامنے آرینا بھی آدھی مردہ حالت میں پڑی تھی۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگے اور وہیں بیٹھ گئے۔ پھر کبیر نے اٹھ کر آرینا کو چیک کیا تو اس کی سانسیں بھی بند ہو چکی تھیں۔ کبیر اور رونی کی حالت اور بھی خراب ہو گئی۔
"یہ سب اس کتاب کی وجہ سے ہوا ہے۔ میں اس کتاب کو نہیں چھوڑوں گا، پھاڑ ڈالوں گا اسے۔"
رونی چیختے ہوئے اس کتاب کو ڈھونڈنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
"نہیں رونی، ایسا مت کرو، ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا، جلدی سے اس جگہ کو چھوڑ دیتے ہیں، ورنہ پتہ نہیں اور کیا برا دیکھنا پڑ جائے۔ اپنے آپ کو سنبھالو۔"
کبیر نے بڑی مشکل سے رونی کو سمجھا کر اپنے ساتھ لگا لیا، مگر رونی پر جیسے جنون سوار تھا۔ اس نے خود کو چھڑایا اور کچھ دور پڑی کتاب اٹھا لی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اسے پھاڑنے ہی والا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی:
"ایسی غلطی مت کرنا، رک جاؤ، اس کتاب کو پھاڑنے کی کوشش مت کرنا، ورنہ تم دونوں یہیں جل کر راکھ ہو جاؤ گے۔"
دونوں نے مڑ کر دیکھا۔ وہاں تقریباً ستر پچھتر سال کا ایک بوڑھا آدمی کھڑا تھا۔ سانولا چولا، گلے میں مالائیں، انگلیوں میں پتھر جڑی انگوٹھیاں، ہاتھ میں لاٹھی۔ وہ کسی پنڈت جیسا لگ رہا تھا۔
"کون ہو تم لوگ، اور یہاں کیوں آئے ہو؟"
وہ گرجدار آواز میں بولتا ہوا قریب آیا اور ان کے ہاتھ سے وہ کتاب لے لی۔ اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے۔
رونی اور کبیر نے باری باری اسے سب کچھ بتایا۔ پنڈت نے غور سے سنا اور کہا:
"یہ ایک شاپت کتاب ہے۔ ہر اماوس کی رات یہ کتاب نہ جانے کتنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارتی ہے۔ کل بھی اماوس کی رات تھی۔ تمہارا یہاں آنا اتفاق نہیں تھا، یہ سب اسی کتاب کا رچا ہوا کھیل تھا۔"
"آپ کون ہیں بابا؟" کبیر نے پوچھا۔
"میں اس کتاب کا رکھوالا ہوں۔ یہ کٹیا میری ہے۔ میں یہاں رہتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ لوگ ادھر نہ آئیں۔ جو آ جاتے ہیں، میں انہیں محفوظ راستہ دکھاتا ہوں۔"
پھر اس نے چندرگپت کی کہانی سنائی—ایک جنونی مصنف، اس کا قتل، تانترک، خون سے لکھی گئی ادھوری کتاب، بددعا، اور وہ لعنت جو آج تک لوگوں کی جان لے رہی تھی۔
آخر میں بابا نے کہا:
"میں چندرگپت کا بیٹا ہوں۔"
کبیر اور رونی ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
"ڈرو مت، جو ہونا تھا ہو چکا۔ تم خوش قسمت ہو کہ اماوس کی رات گزر گئی۔ اب دن نکل آیا ہے، یہ کتاب کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہاں سے چلے جاؤ اور دوبارہ کبھی اس طرف مت آنا۔"
صبح کی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔ پنڈت کتاب اٹھا کر اپنی جھونپڑی کی طرف چل دیا۔ کبیر اور رونی آنسوؤں بھری آنکھوں سے ایک بار چاروں طرف دیکھ کر سڑک کی طرف چل پڑے۔
وہ لوٹ تو گئے، مگر ان کے دل سوالوں سے بھرے تھے—
کیا وہ واقعی چندرگپت کا بیٹا تھا؟
1500 سال بعد بھی وہ زندہ کیسے تھا؟
اور وہ کتاب اب بھی وہاں کیوں موجود تھی؟
ایسے سوال، جن کے جواب انہیں کبھی نہیں ملنے تھے۔