Purasra Kitab - 3 in Urdu Spiritual Stories by fiza saifi books and stories PDF | Purasra Kitab - 3

Featured Books
Categories
Share

Purasra Kitab - 3

یہ لسی رات آئی تھی اُن دوستوں کی زندگی میں… شاید کالی رات اسی کو کہتے ہیں۔ وہ دوست جو کبھی زندگی میں ایک دوسرے سے لڑے نہیں تھے اور خود سے زیادہ ایک دوسرے پر بھروسا کرتے تھے۔
کیا چاہتی تھی یہ کتاب اُن سے؟ کیا راز تھا اس کتاب کا؟
پہلے ارینا کے ذریعے عائشہ کو ختم کروا دیا اور اب کبیر کے دل میں ہیمنت کے لیے نفرت کا الاؤ بھڑکا دیا۔
کیا سچ تھا، کیا جھوٹ، سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا یا پھر یہ کتاب سمجھنے ہی نہیں دینا چاہتی تھی۔

کبیر کی آنکھیں اس وقت کسی انگارے کی طرح دہک رہی تھیں۔ اس کے ہاتھوں کی مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں اور کسی بھی لمحے میں بس ہیمنت کو اس کے کیے کی سزا دینے کے لیے تیار تھا۔
غصے میں ابلتا وہ باہر آیا، جہاں وہ سب لوگ بیٹھے تھے اُس آگ کے پاس۔ آگ اب بھی پہلے کی طرح ہی تیزی سے بھڑکی ہوئی تھی جیسے کوئی اُس میں ایندھن ڈال گیا ہو۔
اور کسی کا دھیان بھی اِس طرف گیا ہی نہیں یا شاید کسی انجان طاقت نے اُنہیں بس میں کیا ہوا تھا۔

ماحول پہلے جیسا نہیں تھا۔ شاید نیند اور تھکن سے یہ لوگ بے حال ہو کر وہیں آگ کے پاس لیٹ گئے تھے۔ ودیشا اور ارینا ساتھ ہی سوئی تھیں، رونی تھوڑے فاصلے پر اپنے بیگ سے سر ٹکائے آنکھیں بند کیے لیٹا تھا…
پر ہیمنت وہاں نہیں تھا۔

کبیر سمجھ گیا وہ شاید فریش ہونے جنگل کی طرف تھوڑی دور گیا ہوگا۔
کبیر کی آنکھیں چمک اٹھیں، اس سے بہتر موقع اور کیا ہو سکتا تھا اُس کے لیے۔
اُس نے پلان بنایا، وہ اُس کو ڈھونڈ کر وہیں ختم کر دے گا تاکہ آگے چل کر اُس کے پروموشن کے راستے میں کوئی اور دوبارہ نہ آ سکے۔

وہ کسی بھیڑیے کی طرح غرّاتے ہوئے ایک سامنے کی طرف چل پڑا ہیمنت کو ڈھونڈنے۔
اگر یہ تینوں جاگے ہوئے ہوتے تو کبیر کا چہرہ دیکھ کر ضرور ڈر جاتے، جو اُسے خود بھی نہیں پتا تھا کتنا بھیانک لگ رہا ہے۔
وہ کسی روبوٹ کی طرح چل رہا تھا جیسے اُس کا خود پر کوئی قابو نہیں تھا۔ وہ بس اِدھر اُدھر ہیمنت کو ڈھونڈ رہا تھا۔

اور سچ میں ہی ہیمنت اُسے تھوڑی دور واپس آتا ہوا دکھا۔
“ارے بھائی، کیا تُو بھی فریش ہونے آیا ہے؟ چل اچھا ہے آ جا، میں تو فریش ہو گیا۔ قسم سے بڑا ڈر لگ رہا تھا، اچھا ہوا تُو مل گیا۔”
ہیمنت نے خوشی سے کہا۔

وہ اس بات سے بالکل انجان تھا کہ کیوں کبیر یہاں آیا تھا، اُس کے ارادے کیا ہیں۔
وہ کسی جانور کی طرح غرّاتے ہوئے بولا،
“کمینے انسان! بہت جی لیا تُو، آج یہ تیری زندگی کی آخری رات ہے۔ میں تیرے ارادے جان گیا ہوں، اب اور تجھے اپنے حصے کی زندگی نہیں جینے دوں گا۔”

ہیمنت نے چونکتے ہوئے ذرا پیچھے ہٹتے ہوئے کبیر سے کہا۔ اُس نے غور سے کبیر کو دیکھا تو وہ ڈر سا گیا، اُس کے ارادے بڑے خطرناک سے اُس کی آنکھوں سے جھلک رہے تھے۔
“کیا کہہ رہا ہے؟ میں نے کیا کر دیا بھائی؟ کیوں ناراض ہے؟”

“ناراض… ناراض… ہاہاہا…”
کبیر عجیب سی ہنسی ہنسا۔
“ناراضگی کی پرواہ ہے تجھے میری؟ میرے حصے کا پروموشن چھینا تھا جب احساس نہیں ہوا تجھے میری ناراضگی کا؟
تجھے پتا تھا یہ پروموشن میرے لیے کتنا ضروری تھا، پھر بھی تُو نے میری جگہ لے لی۔
تجھے کیوں نہیں سمجھ آیا میں نے اپنا بھائی، اپنا دوست سمجھا… میری سات سال کی محنت چھینتے ہوئے شرم نہیں آئی تجھے؟”

“کبیر، یہ کون سا وقت ہے ان سب چیزوں کو ڈسکس کرنے کا؟ اور میری اس میں کیا غلطی ہے؟ سارا فیصلہ تو کمپنی کا تھا یار، تُو جانتا ہے…”
ہیمنت نے اُسے کنونس کرنے کی کوشش کی۔

پر کبیر اچانک سے ہیمنت پر جھپٹ پڑا اور ہیمنت اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا۔
ہیمنت نیچے گر پڑا۔ اُس نے آنکھیں پھاڑ کے کبیر کو دیکھا۔ کیا ہو گیا تھا اُسے، اُس کے تیور وہ نہیں تھے۔ اُس کے خطرناک ارادے ہیمنت کو چونکا رہے تھے۔
اُس نے زمین پر پڑے ہی پیچھے کی طرف گھسیٹنا شروع کر دیا۔

“کبیر ہوش میں آؤ، کیا ہوا ہے یار؟ تُو ٹھیک ہے نا؟ ہوش میں آ میرے بھائی…”
لیکن کبیر پر خون سوار تھا۔
اُس نے پہلے پاس پڑا ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور زور سے ہیمنت کے پیروں پر دے مارا۔

ہیمنت تڑپ ہی تو اٹھا، ایک دل دہلا دینے والی چیخ اُس کے ہونٹوں سے نکلی۔
لیکن کبیر ہوش میں نہ آ سکا۔
ہیمنت کو لگا تھا کبیر کسی بات پر ناراض ہے، پر یہ تو ناراضگی نہیں، کچھ اور ہی تھا جو بہت بھیانک تھا۔

“بھائی، کیا ہوا بھائی؟ مجھے ہوش میں چھوڑ، مجھے کیا کر رہا ہے تُو؟”
ہیمنت اپنے زخمی پیروں کو ہاتھوں سے چھوتے ہوئے رو ہی پڑا تھا کبیر کے آگے۔

“تجھے کیسے چھوڑ دوں؟ تیرے جیسے خرامخور کو چھوڑ دوں؟
دوست کہتا ہے اپنے آپ کو، پیٹھ میں خنجر گھونپتا ہے۔
تیرے جیسے غدار کو زندہ چھوڑ دوں تاکہ پھر سے تُو مجھے جیتے جی مارنے میں کامیاب ہو سکے؟”

کبیر بے قابو ہو گیا تھا۔
“لے، میں بتاتا ہوں تجھے۔ ختم ہو گئی تیری میری یاری آج سے، اور اس کے ساتھ ہی ختم ہوگا تیرے جیسا غدار دوست۔”

کبیر نے پھر سے وہی پتھر اٹھایا اور اس بار زور سے اُس کے سر پر دے مارا۔
ہیمنت ایک ہی منٹ میں خون سے لت پت ہو چکا تھا۔ اُس کے سر سے بے انتہا خون بہہ رہا تھا۔
وہ زمین پر بے جان سا پڑا تھا، اُس کی آنکھیں باہر کو ابل پڑی تھیں جیسے سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اچانک اُس کے یار کو، اُس کے بھائی جیسے دوست کو ہوا کیا تھا۔

وہ یہی سوال دل اور آنکھوں میں لیے دنیا سے جا چکا تھا۔

ہیمنت کی باڈی سامنے پڑی تھی، خون میں لپٹی ہوئی۔
جب کبیر کو جیسے کسی نے جھنجھوڑ کے گہری نیند سے جگایا ہو۔
اُس نے چاروں طرف گھبرا کے دیکھا۔
وہ جنگل میں تھا اور سامنے پڑی تھی ہیمنت کی لاش، خون میں سنی ہوئی۔

“ہیمنت! کیا ہوا بھائی؟ یہ… یہ اتنا خون کیسے نکل رہا ہے؟ اُٹھ بھائی، کیا ہوا؟”
کبیر جیسے پاگل سا ہو گیا۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیسے یہاں پہنچا، ہیمنت کے ساتھ کیا ہوا۔
آخر کیا تھا یہ سب اور باقی سب لوگ کہاں تھے؟
وہ چکر آ کر وہیں گر پڑا۔

رونی اور ودیشا اور ارینا کی آنکھ لگ گئی تھی۔
ارینا جب جاگی تو کبیر اُسے کہیں دکھائی نہیں دیا۔ اُس نے سوچا شاید وہ روم میں سو چکا ہے۔
وہ ڈرتے ہوئے اُس روم کی طرف گئی اور دروازہ کھول کر اندر جھانکا، پر کبیر اُسے کہیں نہیں دکھائی دیا۔

ارینا سمجھ گئی شاید کبیر کو بھی اس کتاب نے… کہیں کبیر کے ساتھ بھی تو کچھ کھیل نہیں کھیل ڈالا۔
اور تبھی اُسے ہیمنت کا بھی خیال آیا۔
ارینا کا بہت برا حال ہو گیا۔ وہ پسینے میں تر ہو گئی۔ انجانے انہونی کے احساس نے اُس کے پیر زمین پر گاڑ دیے اور وہ وہیں زمین پر گرے سوکھے پتے کی طرح کانپنے لگی۔

نہ جانے کتنی ہی دیر وہ ایسے ہی بیٹھی روتی رہی۔
پھر اچانک اُسے اُس کتاب کا خیال آیا اور وہ تیزی سے اٹھی اس سوچ کے ساتھ کہ اُس کتاب کو کہیں دور پھینک آئے گی تاکہ وہ کسی اور کو نقصان نہ پہنچا سکے۔

ارینا پاگلوں کی طرح اُس کتاب کو اُس چھوٹے سے کمرے میں ڈھونڈ رہی تھی، پر وہ اُس کمرے میں کہیں نہیں تھی۔
بس اُس کمرے میں تھی تو چھپی ہوئی عائشہ کی لاش، جس کے بارے میں ارینا کو پتا تھا۔

ارینا تھک کر وہیں پھر سے بیٹھ گئی۔

باہر ودیشا اور رونی اکیلے تھے جو ہر بات سے انجان تھے۔
اچانک سے ودیشا کو نیند میں کچھ عجیب محسوس ہوا اور جھٹکے سے اُس کی آنکھ کھل گئی۔ رونی بھی پاس میں ہی سویا تھا۔
ودیشا نے چاروں طرف دیکھا، وہاں اُن دونوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ اُسے حیرانی ہوئی۔

تبھی اُس کے پیروں میں کوئی چیز ٹکرائی۔
یہ وہی کتاب تھی جو اُس کے دوستوں کی جان لے چکی تھی اور جس کی وجہ سے کبیر اور ارینا مصیبت میں پڑ چکے تھے۔
ایک روشنی سی نکل رہی تھی اُس کتاب سے۔
وہ کتاب جیسے اُسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی، بلا رہی تھی، خود کو اٹھانے کے لیے، پڑھنے کے لیے۔

ودیشا تھوڑا ڈر گئی، پر اگلے ہی پل اُس کے ہاتھ خود بخود اُس کتاب کی طرف بڑھ گئے۔
اُس نے اُس کتاب کو اٹھا کر دیکھا۔ عجیب سی دکھنے والی کتاب، جیسے اُسے میمرائز کر رہی تھی۔

اُس نے پہلا صفحہ پلٹا۔
“کتابوں کی دنیا میں تمہارا ویلکم ہے ودیشا…”

وہ بری طرح چونک گئی۔
“یہ کیسی کتاب ہے؟”
ودیشا کے منہ سے نکلا۔

“The Book of Your Own Life”

یہ تمہاری اپنی زندگی کی کتاب ہے، ودیشا۔

کتاب کے صفحے چمکنے لگے۔ اُس کے سوالوں کے جواب شاید اُس کتاب کے پاس تھے۔
تمہارا نام کتنا خوبصورت ہے ودیشا… اور تم اپنے نام کی طرح ہی خوبصورت ہو… بہت خوبصورت…
جیسے کسی فنکار کی تراشی گئی مورت…
الفاظ تھے یا جادو جو اُس کتاب کے ذریعے ودیشا کے دل اور آنکھوں میں اترتا جا رہا تھا۔

ودیشا جیسے آسمان میں خود کو اُڑتا ہوا محسوس کرنے لگی۔
وہ جیسے پوری طرح اُس کتاب کے سحر میں جکڑ چکی تھی۔

تمہیں تو اس دنیا میں سب سے خوبصورت ہونے کا خطاب ملنا چاہیے…
تمہیں تو لوگوں کے دلوں پر راج کرنا چاہیے…
پھولوں کی طرح نازک، مہکتی ہوئی سی تم…
کیا میں نے کچھ غلط کہا؟

ودیشا، تمہیں اس دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی کا ایوارڈ نہیں ملنا چاہیے تھا؟
پر کیا تمہیں پتا ہے تمہاری اس کامیابی کے راستے میں کون آ رہا ہے؟
جو نہیں چاہتا تم لوگوں کے دلوں پر راج کرو…
جو نہیں چاہتا تم اس دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی کہلاؤ…

کیا تم بھول گئی ہو تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا؟
کون تھا اُس سب کے پیچھے؟
کیا تم جاننا چاہتی ہو، ودیشا؟

یہ الفاظ جیسے چھُری کی طرح ودیشا کے کلیجے میں اتر کر اُسے چیرتے چلے گئے۔
اُس کی آنکھوں میں دھندلا پن چھا گیا۔

لاسٹ ایئر مس یونیورس کے کمپٹیشن سے پہلے کیا ہوا تھا تمہارے ساتھ؟
کمپٹیشن سے ٹھیک پہلے تمہاری ڈریس کس نے کاٹی تھی؟

ودیشا جیسے آسمان سے نیچے گری تھی۔
کیا سب بھول گئی ہو تم؟

ودیشا کا دھیان کچھ سال پہلے کے حادثے کی طرف چلا گیا۔
اُس کے لیے تو حادثہ ہی تھا۔

ماڈلنگ کی دنیا میں نام کمانے کے بعد ودیشا نے مس یونیورس کمپٹیشن میں حصہ لینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔
اُس کا تو جیسے جنون بن گیا تھا وہ کراؤن جیتنا۔
اُس نے اپنی راتوں کی نیند اور چین سب کھو کر، دل و جان سے اس کمپٹیشن کے لیے خود کو تیار کیا تھا اور وہاں تک پہنچی تھی۔

پر کمپٹیشن سے ٹھیک پہلے کسی نے اُس کی ڈریس کاٹ کر چیتھڑے چیتھڑے کر دیے اور لاسٹ مومنٹ پر اُسے کمپٹیشن سے باہر ہونا پڑا۔
ایک بے عزتی جو ہوئی سو الگ، پر اُس کا خواب پورا ہوتے ہوتے رہ گیا۔

اُس کا صدمہ ودیشا کو اتنا لگا کہ اُس نے ماڈلنگ کا پروفیشن ہی چھوڑ دیا اور واپس شہر آ کر یہ نارمل سی جاب جوائن کر لی۔

وہ ایک ایک گزرا پل یاد کرتی گئی اور اُس کا درد پھر سے جاگ گیا۔
اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
وہ جیسے اُسی تکلیف میں پھر سے جا پہنچی جس سے نکلنے میں اُسے سالوں لگے تھے۔

ہاں، مجھے سب یاد ہے۔
میں نہیں بھولی ہوں، نہ ہی بھول سکتی ہوں۔
پلیز بتاؤ کس نے کیا تھا وہ سب میرے ساتھ؟

ودیشا کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا۔
اُس کا چہرہ جیسے پتھر کی طرح سخت ہو گیا تھا۔

بتاؤ مجھے، کون تھا وہ؟
اُس نے جیسے کتاب سے پوچھا۔

ہاں، آج تمہارا ٹائم ہے۔
تم چاہو تو اپنا بدلہ لے سکتی ہو۔
تمہارا دشمن یہی موجود ہے۔
دشمن کہوں یا دوست، یہ تم بہتر سمجھ لینا۔

کتاب جیسے اُس کے زخم کریدنے کے ساتھ مزہ بھی لے رہی تھی۔

ودیشا حیرت سے بھڑک اُٹھی۔
کون ہے؟
جو یہاں میرے ساتھ ہی ہے؟
یہ میرے دوستوں میں سے ہے کوئی؟

وہ کتاب کو پکڑے، اُس کے چمکتے الفاظ پر نظریں گاڑے بیٹھی تھی…
جب اُس میں ایک نام اُبھرا۔

ارینا

ہاں، وہی ارینا جسے تم اپنا سب سے اچھا دوست سمجھتی ہو۔
وہی ہے اُس سب کے پیچھے۔
اُس نے کبھی نہیں چاہا کہ تم دنیا میں اُس سے زیادہ نام کماؤ، یا لوگ تمہیں چاہیں، یا پھر تم اپنی زندگی اچھے سے گزارو۔

وہ ہمیشہ تم سے جلتی رہی، اندر ہی اندر، اور باہر سے اپنا دوست کہتی ہے تمہیں۔

تمہیں نہیں پتا، اُس نے خود بھی اُس کمپٹیشن میں حصہ لیا تھا، پر وہ فائنلسٹ میں شامل نہیں ہو سکی تھی۔
اور اسی کا غصہ اُس نے تمہاری ڈریس کاٹ کر نکالا تھا۔

نتیجہ—تم بھی کانٹیسٹ میں نہیں جا سکیں، ورنہ آج تمہاری زندگی کچھ اور ہوتی۔

یہ کیا تھا یہ سب؟
ودیشا بہت بری طرح شاکڈ تھی یہ سب جان کر۔

آج تمہاری باری ہے، ودیشا۔
جو دوست نہیں، اُسے جینے کا حق نہیں۔
اپنا بدلہ لو اُس سے۔
جاؤ، اُسے مار ڈالو۔
ارینا کو مار ڈالو۔
وہ کبھی تمہاری دوست نہیں تھی۔
جاؤ، مار ڈالو اُسے۔

یہ الفاظ تھے یا جلتے انگارے جو ودیشا کو جلا کر راکھ بنانا چاہتے تھے۔

اُس نے بڑے غصے سے کتاب بند کر کے وہیں پھینک دی،
اور خود ہی اُس کے پیر اُس کچے مکان کی طرف اُٹھ گئے جہاں ارینا بیٹھی تھی۔

اُدھر ارینا وہیں گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔
جب اُسے آہٹ محسوس ہوئی تو سر اُٹھا کر دیکھا۔

سامنے ودیشا کھڑی تھی، آنکھوں میں نفرت کا سیلاب لیے، اُسے بری طرح گھور رہی تھی۔
ارینا کے برابر میں ہی عائشہ کی لاش پڑی تھی۔

تو تم نے عائشہ کو بھی مار ڈالا؟
ودیشا نے ٹھنڈے لہجے میں کہا، جیسے اُسے حیرانی نہیں ہوئی تھی کہ ارینا عائشہ کو بھی مار سکتی ہے۔

ودیشا غصے سے اُس کی طرف بڑھی۔

نہیں، نہیں ودیشا، میری بات سنو…
ارینا نے لڑکھڑاتے لفظوں میں کہنا چاہا۔
وہ سمجھ گئی تھی کتاب نے ودیشا کو بھی اپنے جال میں پھانس لیا ہے۔

ودیشا، دیکھو میری بات سنو۔
یہاں ایک کتاب ہے جو ہم سب پر جادو کرتی ہے، ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کرتی ہے، پلیز سمجھو ودیشا۔

ہاں، جادو تو مجھ پر تھا ارینا…
غلط فہمی کا، کہ تم میری دوست ہو۔
پٹی بندھی تھی آنکھوں پر، لیکن تم تو دشمن ہو۔

میں جان گئی ہوں، میری ہر ناکامی کے پیچھے تمہارا ہاتھ تھا۔
تم نے ہی مجھے کمپٹیشن سے باہر نکلوایا۔

پر آج میرا وقت ہے بدلہ لینے کا،
اور میں اپنا بدلہ تم سے لے کر رہوں گی۔

ودیشا تیزی سے ارینا کی طرف آئی۔

ودیشا کو نہ ارینا کے آنسو دکھائی دے رہے تھے،
نہ اُس کا ڈر سے کانپتا وجود،
نہ اُس کی گڑگڑاہٹ۔

جیسے سوچنے سمجھنے کی طاقت اُس میں رہی ہی نہ ہو۔

ارینا نے جھپٹ کر ودیشا کو روکنے کے لیے دھکا دیا تو وہ عائشہ کی لاش پر جا گری۔

ارینا، تم نے اسے بھی مار ڈالا!
میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی!
ودیشا غرّاتے ہوئے بولی۔

ارینا سمجھ چکی تھی،
وہ جو بول رہی ہے، کتاب کی طاقت اُس سے کروا کے رہے گی۔

ودیشا، میری بات سنو—

ودیشا نے جھپٹ کر ارینا کی گردن پکڑ لی۔
اُس کی گرفت اتنی مضبوط ہوتی جا رہی تھی کہ ارینا کا سانس رکنے لگا۔
اُس کی آنکھیں باہر اُبل پڑیں۔

ارینا نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارے تو پاس ہی پڑی لوہے کی راڈ اُس کے ہاتھ لگ گئی۔
اُس نے وہی راڈ زور سے ودیشا کے سر پر دے ماری۔

وار بہت بھرپور تھا۔
ودیشا پیچھے کی طرف گر پڑی۔

ارینا، ودیشا کے ہاتھ سے چھوٹ کر کمرے سے باہر کی طرف بھاگی،
پر ودیشا نے ہاتھ بڑھا کر اُس کا پاؤں پکڑ لیا۔

ارینا لڑکھڑا کر منہ کے بل زمین پر گر پڑی۔

اُس کے نیچے گرتے ہی ودیشا پھر سے اُس کے سر پر سوار ہو گئی اور دونوں ہاتھوں سے اُس کا گلا دبانے لگی۔

آج تُو کچھ بھی کر لے، میرے ہاتھوں سے نہیں بچے گی!

ودیشا پر خون سوار تھا۔
وہ بس اُسے کسی بھی طرح مار ڈالنا چاہتی تھی۔

ارینا اپنے آپ کو بچانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی،
پر سب بے کار ہو چکا تھا۔
وہ ودیشا کی پکڑ سے نہیں چھوٹ پا رہی تھی۔
اُسے لگا بس اب اُس کی سانسیں بند ہو جائیں گی۔

تبھی اچانک کسی نے ودیشا کے سر پر وار کیا اور وہ نیچے گرتی چلی گئی۔

ارینا، یہ… یہ سب کیا ہے؟
ودیشا تمہیں کیوں مار رہی ہے؟
اور یہ عائشہ کو کیا ہوا ہے؟
کبیر اور ہیمنت کہاں ہیں؟
ارینا، تم ٹھیک ہو؟ بتاؤ پلیز…

گھبرایا سا رونی نہ جانے کتنے سوال کیے جا رہا تھا،
اور ارینا کی آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں…