Purasra Kitab - 1 in Urdu Spiritual Stories by fiza saifi books and stories PDF | Purasra Kitab - 1

Featured Books
Categories
Share

Purasra Kitab - 1

جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہر انسان کا ایک پَیشن ہوتا ہے کسی کو کہانی سننے کا جنون ہوتا ہے تو کسی کو کہانی لکھنے کا جنون.... پر کیا آپ نے سوچا ہے کہ ایک ورٹر کا جنون اتنا بڑھ جائے کہ وہ دوسروں کے لیے مصیبت بن جائے .... ایسی ہی کچھ آپ کو سنانے جا رہی ہوں اس کہانی میں .....

رات کے 11:00 بجے تھے اور سردی کا موسم ہونے کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک نا کے برابر تھا اور سردی کی وجہ سے ویژن بھی تھوڑا کم تھا کوہلے کی دھندلی سی چادر دور تک تھی جس کی وجہ سے راستہ صاف دیکھنے میں اور گاڑی ڈرائیو کرنے میں کبیر کو تھوڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا پھر بھی وہ سمبھال کر گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا.......

اری یار کتنی دور ہے تمہارا یہ ریزورٹ ، بھوک لگی ہے بہت اور نیند بھی آرہی ہے اب تو بس مزیدار سا کھانا اور بستر مل جائے تو بات بنے....... پیچھلی سیٹ پر بیٹھے رونی نے چللا کر کہا... ٹھیک بول رہا ہے رونی... بہت نند آرہی ہے اور بھوک بھی لگی ہے.. ارینا نے بھی کہا تو کبیر غصے سے بولا' یار تم لوگ اینجوائے نہیں کر سکتے تو خاموش بیٹھو اور مجھے ڈرائیو تو کرنے دو.. عائشہ کبیر کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی وہ بولی... کبیر تم ڈرائیو کرو پلیز میں بیٹھی ہوں نا تمہارے ساتھ ان لوگوں کی بکواس پر دھیان مت دو... تبھی اچانک سے گاڑی لہری اور ایک زوردار طاقت کے ساتھ نیچے کچی سڑک پر ایک پेड़ سے جا ٹکرائی... ٹکر کافی زوردار تھی سب اچانک ہوئی اس آفت سے گھبرا گئے اور کبیر بھی خود حیران تھا کہ اچانک ہوا کیا... شٹ یار ایک تو پہلے ہی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا... رونی نے منہ بنا کر کہا اور ساتھ ہی عائشہ بھی کہنے لگی.... یہ کیا کر رہے ہو کبیر یار سمبھال کے گاڑی چلانا تھا... سب لوگ گاڑی سے نیچے اتر آئے... کبیر چِڑ کر بولا ہاں میرا دل کر رہا تھا کہ گاڑی پنچر ہو اور زور سے اس پेड़ سے ٹکرا جائے... دکھتا نہیں تم لوگوں کو سب اچانک ہوا ہے......

ارینا اری یار تم لوگ لَد کیوں رہے ہو دیکھو رات کا ٹائم ہے سُنسان سڑک ہے آگے کیا کرنا ہے اس کے بارے میں سوچو پلیز .... ارینا نے سب کو چپ کرواتے ہوئے کہا... ہاں یار یہاں تو سڑک کے دونوں طرف صرف گھنا جنگل ہی دکھائی دے رہا ہے یہاں تو کوئی مدد بھی ملنے کی امید نہیں ہے... کوئی نئی مصیبت نا آجائے.... ہیمال جو اتنی دیر سے سب کو سن رہا تھا پہلی بار بولا... ہاں صحیح بول رہا ہے ہیمال... ودیشا بولی ... رونی یار جا دیکھ اگر ٹائر چेंज ہو سکتا ہے تو پلیز ... کبیر نے کہا تو رونی نے ایک زوردار کِک پنچر ہوئے ٹائر پر رسید کرتے ہوئے ..بولا... ابھی پنچر ہونا تھا اسے بھی... اس کی حرکت پر سب ہنسنے لگے... یہ لوگ ٹوٹل 6 لوگ تھے سب کالج ٹائم کے فرینڈز اور آج کے ٹائم میں ایک ہی آفس میں کولِیگ بھی تھے... آفس کی کچھ دنوں کی چھٹیاں لے کر انہوں نے گھومنے کا پلان بنایا اور نکل کھڑے ہوئے تھے ... پر نہیں جانتے تھے یہ واپس گھر بھی جا پائیں گے اس ٹریپ سے یا نہیں.....

شام 4 بجے یہ لوگ نکلے تھے ایشین ریزورٹ کے لیے پر شاید جہاں جانا تھا راستے سے بھٹک گئے تھے جبھی اتنی رات تک بھٹکنے کے بعد ان کو ان کی مطلوبہ لوکیشن نہیں مل پائی تھی اور اب یہ بن بلائی مصیبت گاڑی کا ایسی جگہ پنچر ہو جانا جہاں دور تک کوئی انسان نہیں بس گھنا جنگل ہی تھا...... رونی نے گاڑی کی حالت دیکھی . تو جل ہی گیا گاڑی اس طرح سے پیڑ میں جا لگی تھی کہ نا ٹائر بدلا جا سکتا تھا نا ہی فلحال وہاں سے گاڑی کو ہلایا جا سکتا تھا... سب کے منہ لٹک گئے... یار لگتا نہیں کہ ٹائر چینج کر سکیں گے ہم لوگ... رونی کی بات پر سب نے باری باری چاروں طرف دیکھنا شروع کیا پہلی بار انھیں احساس ہوا کہ کس مصیبت میں ... رات بھی گہریتی جا رہی تھی سردی بھی بڑھ رہی تھی سبھی کو ایسے میں یہ خیال آرہا تھا کہ اب آگے کیا ہوگا.. پوری رات اس بھیا ناک اور سُنسان جنگل میں کیسے کٹے گی...

گائیز مجھے لگتا ہے ہمیں مدد ڈھونڈنی چاہیے ... ودیشا نے سب کو دھیان دلاتے ہوئے کہا ... کیا بات کر رہی ہو ودیشا تم کو لگتا ہے یہاں کوئی مدد ملے گی یا کوئی ہوٹل ہوگا یہاں جہاں جا کے ہم ریسٹ کر لیں گے....... کبیر نے اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا... سب کے لٹکے چہرے اور زیادہ لٹک گئے اس کی بات پر... اس ٹریپ کو لے کر سب جتنے ایکسائیٹڈ تھے اب اتنا ہی پریشان ہو چلے تھے... کبیر پر چلو تو صحیح کچھ تو کرنا ہی پڑے گا... ارینا کی بات پر سب نے ہاں میں گردن ہلائی ... ویسے بھی یہاں کھڑے تو کچھ نہیں کر سکتے تھے اب جو بھی ہو گیا آگے کا بھی تو دیکھنا تھا ... سب نے گاڑی سے اپنا اپنا ضروری سامان اور کھانے پینے کی چیزیں لے کر گاڑی اچھی سے لاک کر دی ..اور اس امید پر کہ شاید انھیں رات گزارنے کے لیے کوئی آسرا مل جائے وہ سب جنگل کی طرف ہی چل پڑے... مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے یہاں اگر کوئی جنگل جانور ہوا تو کہیں ہم ہی اس کا ڈنر نا بن جائیں... عائشہ نے ڈرتے ہوئے کہا... نہیں عائشہ.. جانور بھی زیادہ چربی والا گوشت نہیں کھاتے تم چِیٹا نا کرو... رونی نے ہنستے ہوئے عائشہ کے تھوڑی ہی ہیلدی ہونے پر نشانہ بنایا جو وہ ہمیشہ کرتا رہتا تھا...... سب رونی کی بات پر ہنسنے لگے عائشہ اُسے منہ چِڑا کے رہ گئی... سب باتیں کرتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئے... جنگل بہت گھنا تو نہیں تھا پر اندھیرا ہونے کی وجہ سے ڈراونا لگ رہا تھا اور اُس پر سوکھے ہوئے پتوں کی چرمراہٹ الگ ہی خوف سے آشنا کرا رہی تھی... اری گائیز وہاں دیکھو وہ تھوڑی روشنی دکھائی دے رہی ہے شاید کوئی گھر ہوگا ... مجھے لگتا ہے کوئی تو ہوگا وہاں تھوڑی دور چلنے کے بعد کچھ روشنی سی دکھائی دی تو ہیمال خوشی سے ایک طرف دیکھتے ہوئے بولا ... سب نے دیکھا وہاں سچ مچ روشنی تھی وہ سب اُسی طرف بڑھنے لگے... وہ لوگ جلدی ہی وہاں پہنچ گئے یہ ایک کچا سا مٹی کا مکان تھا اور اس کے باہر آگ جل رہی تھی ..جس کی روشنی دیکھ کر یہ لوگ یہاں کھینچے آئے تھے.. اری ہیلو... کیا کوئی ہے یہاں...ہیمال نے آگے بڑھ کر اُس کچے مکان کا بوسیڈا سا دروازہ کھول کے آواز لائی کہ شاید کوئی اندر ہے تو باہر آجائے ... لٹکا ہوا سا دروازہ عجیب سی آواز کے ساتھ آگے کی طرف جھول گیا ..کبیر اور رونی بھی وہاں آ کر کھڑے ہو گئے پر اندر سے نا کوئی جواب آیا نا کوئی انسانی وجود آتا دکھائی دیا...تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کندھے اٹھائے۔ "اندر جا کے دیکھنا پڑے گا،" کبیر نے کہا۔ "عجیب بات ہے، گھر کے باہر آگ جل رہی ہے پر دور تک کوئی نظر نہیں آرہا… شاید جو بھی یہاں رہتا ہے لِکڑیاں لینے گیا ہو،" اس نے مزید کہا۔

"اوہ شِٹ، یہ گھر تو بہت کریپی ہے،" عائشہ نے اندر آتے ہوئے کہا۔ یہ ایک چھوٹا سا کچا مکان تھا جس میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی تھی اور کچھ کھانے پینے کے برتن ایک کونے میں رکھے تھے۔

"اری یار، کیا یہاں کوئی رہتا بھی ہے؟" ارینا نے اندر آتے ہوئے کہا۔ چھت سے لٹکے ایک لالٹین کی مدھم روشنی اس کمرے کو روشن کر رہی تھی۔

"بس یوں ہی کام چلا لیتے ہیں، ہمیں رات گزارنے کی جگہ چاہیے،" ارینا نے کہا۔ "پر ہم ایسے کسی کے گھر میں کیسے گُس سکتے ہیں؟ کہیں مصیبت میں نا پھنس جائیں،" عائشہ نے پریشانی سے کہا۔

"دیکھو عائشہ، باہر گھنا جنگل ہے، رات کے ایک بجے ہیں، یہ جگہ خطرناک ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہیں اور جانا اچھا خیال ہے،" سب نے ہاں میں سر ہلایا۔

"یہ کرتے ہیں—ہمارے پاس کھانا ہے، باہر آگ بھی جل رہی ہے۔ ہم اکسا تھ بیٹھ کر رات گزار لیں گے، اسے پِکنِک بنا لیتے ہیں۔ اور رہی بات آرام کی، اندر بستر ہیں، باری باری سب آرام کر لیں گے۔ کیا خیال ہے؟" سب نے کبیر کے پلان پر ہاں کر دی، اور کیا کر سکتے تھے؟ وہ سب آگ کے پاس بیٹھ گئے، اپنا سامان رکھا، اور ایسے اِنجوائے کرنے لگے جیسے یہ سب انہوں نے پہلے سے پلان کیا تھا—آگ ان کے لیے ہی جلائی گئی ہو۔ کچھ پلوں کے لیے وہ خطرے کو بھول گئے، بھول گئے کہ وہ ایک انجان جنگل میں، رات کے گہرے پہر میں بیٹھے ہیں جہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے…
ر


تقریباً ایک بجے آرینا اٹھتے ہوئے بولی، 'مجھے تو بہت نیند آرہی ہے... پلیز مجھے کمرے میں جانے دو، میں اندر جا رہی ہوں، مجھے کچھ آرام کرنا ہے... پلیز انجوائے کر لو... آرینا بولتے ہوئے اس مکان کے اندر آ کر لٹ گئی... بس پانچ ہی منٹ ہوئے ہوں گے اسے کمرے میں آئے، اس کی نیند اچانک سے ٹوٹ گئی... آرینا نے چونک کر چاروں طرف نظر ڈالی پر اسے سمجھ نہیں آئی... پھر بہت چاہنے کے بعد بھی وہ سو نہیں سکی... اس نے سوچا چلو واپس ہی سب کے پاس جا کر بیٹھ جاؤں... یہ سوچ کر وہ کمرے سے واپس جانے کے لیے قدم اٹھانے لگی... تبھی اس کمرے کی دیوار میں بنی ایک چھوٹی سی کھڑکی میں اسے کچھ عجیب سی حرکت محسوس ہوئی... وہ خود بخود اس کھڑکی کی طرف مڑ گئی، وہاں ایک کتاب رکھی تھی، عجیب سی... آرینا نے ہاتھ بڑھا کر وہ کتاب اٹھا لی... وہ کتاب دیکھنے میں بہت الگ سی تھی، اس کا پیپر لال رنگ کا تھا اور کवर بھی بہت عجیب سا تھا، براؤن سے رنگ کا، ایسا لگتا تھا جیسے کسی بوڑھے انسان کی جھریوں سے بھری کھال ہو... آرینا کو وہ کتاب بہت عجیب اور پُراسرار لگ رہی تھی، آرینا کا من اسے پڑھنے کا ہوا، اس نے کتاب کا ٹائٹل پڑھا... 'The Story of Your Own Life'... آرینا کو حیرانی ہوئی... آرینا وہیں بستر پر واپس بیٹھ گئی، اس کتاب کو پڑھنے کے ارادے سے... بہت ہی عجیب تھی یہ کتاب، نارمل کتاب کی طرح تو بالکل بھی نہیں تھی... پتہ نہیں کیوں ایک عجیب سی کراہیت اور ٹھنڈا احساس آرینا کے اندر تک اتر گیا، اس کتاب کو اٹھا لینے کے بعد... آرینا نے کتاب کھولی، پر یہ کیا؟ اندر تو کچھ بھی نہیں لکھا تھا، سارے پیجز خالی تھے... آرینا حیرانی سے بولی، "ارے یہ کیا، اس میں تو کچھ لکھا ہی نہیں ہے..." تبھی اس کتاب کے صفحوں میں حرکت سی ہوئی اور ایک تیز روشنی سی جیسے اس کتاب سے نکلی، آرینا نے گھبرا کر کتاب گرا دی... کتاب کے صفحے زور سے پھڑپھڑانے لگے اور پھر وہ ایک دم شانت ہو گئے، آرینا نے گھبراتے ہوئے ہی اسے دوبارہ اٹھا لیا... آرینا کے بس میں جیسے کچھ نہ تھا... وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی، پر جیسے کسی انجان طاقت نے اسے اس کتاب کی طرف کھینچا تھا... اس نے کتاب پھر سے کھولی تو اس میں کچھ الفاظ جگمگانے لگے... جہاں لکھا تھا، "Welcome Arina... یہ کتاب تمہاری اپنی زندگی کے بارے میں ہے، کیا تم جاننا چاہو گی کہ تمہاری زندگی میں کیا ہونے والا ہے؟" آرینا بس ہپناٹائز سی اس کتاب میں اُبھرتے الفاظ کو دیکھ رہی تھی... "تم لوگوں پر بہت جلدی بھروسہ کرتی ہو آرینا... اپنے آس پاس کے لوگوں کو اتنا بھی اپنا نہ سمجھو، وہ اس لِق نہیں ہیں... کوئی تم سے دوستی نہیں کرنا چاہتا، رونی تم سے چِھپ کر رہا ہے... رونی اور عائشہ کا افیئر ہے، آرینا..." آرینا پر جیسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو، کیا دیکھ رہی تھی وہ، رونی اور اس کا پچھلے 10 سال کا ساتھ تھا، اور آگلے سال وہ دونوں شادی کرنے جا رہے تھے... پر یہ کتاب کیا بتا رہی تھی رونی کے بارے میں... آرینا جیسے جیسے کتاب پڑھتی جا رہی تھی، غصے اور نفرت کا اُبال اس کے اندر بڑھتا جا رہا تھا... عائشہ اس کی کالج ٹائم سے بہترین دوست تھی... آرینا نے پیج پلٹا... "یقین نہیں ہے تو باہر جا کر دیکھو، کیسے رونی اور عائشہ ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے ہیں، انہیں تمہاری فکر نہیں... وہ دونوں تم سے نفرت کرتے ہیں... دکھاوا کرتے ہیں محبت کا، ڈھونگ کرتے ہیں وہ بس... یہ لوگ تمہارے قابل نہیں ہیں، آرینا، تمہارے اپنے نہیں ہیں... اور جو اپنا نہیں، اسے تمہاری زندگی میں ہونا بھی نہیں چاہیے... تو جاؤ، ان کے کیے کی سزا دو انہیں... نہ تمہارا پیار تمہارا ہے، نہ تمہاری دوست تم سے وفادار ہے... انہیں جینے کا حق نہیں... آرینا، مار ڈالو ان دونوں کو... اس سے اچھا موقع کہاں ملے گا، ختم کر دو دونوں کو، یہی سزا ہے ان کی..." آرینا کے دماغ میں کوئی چِکھ چِکھ کر کہہ رہا تھا... آرینا اَن دیکھے غصے میں جلنے لگی، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے... اور بس اس کے دماغ نے فیصلہ کر لیا... ایک نفرت اس کی آنکھوں سے بہہ رہی تھی... خون اُتر آیا اس کی آنکھوں میں... "ہاں، سہی کہا، یہ میری دوستی کے لِق نہیں، انہیں تو مر ہی جانا چاہیے..." جیسے آرینا نہیں، کوئی اور بول رہا تھا اس کے اندر سے... اور وہ کتاب ایک طرف رکھ کر باہر کی طرف بڑھ گئی... باہر سب لوگ اس بات سے انجان اپنی مستی میں لگے، ہنستے ہوئے انجوائے کر رہے تھے، نہیں پتہ تھا کیا ہونے جا رہا ہے... آرینا نے رونی اور عائشہ کو گھورا، جو سچ میں ایک دوسرے کے اتنے قریب بیٹھے تھے اور ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے، آرینا کا غصہ اور بڑھ گیا۔


رینا بھول گئی تھی کہ جنہیں وہ اتنے غصے سے گھور رہی ہے، وہ سب اس کے کالج ٹائم سے ہی بہترین دوست تھے، اور رونی ہمیشہ اس کا بہت خیال رکھتا تھا... پر اس وقت وہ کسی اور ہی آگ میں جل رہی تھی۔ آرینا نے وہیں کھڑے کھڑے عائشہ کو آواز دی، "عائشہ، ادھر آؤ... مجھے تم سے کچھ کام ہے۔