دکھوں کی سرگوشیاں
تحریر شے امین
فون کے الارم کی کرخت اور چبھتی ہوئی آواز نے گلناز کی نیند چیر کر رکھ دی۔ اس نے جھٹ سے گھڑی پر نظر دوڑائی — صبح کے چار بج چکے تھے۔ دل میں ایک عجیب سا بوجھ لیے وہ بستر سے نکلی اور کپکپاتے ہاتھوں سے کھڑکی کے پردے ہٹائے۔ مگر باہر دیکھنے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں، کیونکہ رات بھر ہونے والی اس سال کی پہلی برفباری نے کھڑکی کے شیشوں کو برف کی موٹی، سفاک تہہ سے ڈھانپ رکھا تھا — جیسے قدرت نے باہر کی دنیا کو اس سے چھین لیا ہو۔
گلناز نے سردی میں کانپتے ہوئے جلدی سے خود کو تیار کیا اور روزمرہ کی طرح کام پر نکل کھڑی ہوئی۔ مگر جیسے ہی قدم باہر رکھا، اس کی سانسیں لمحے بھر کو تھم گئیں۔ برف زمین پر ایسے بچھی تھی جیسے سفید کفن، ہر طرف سناٹا اور برف کی سفیدی کا بے رحم راج تھا۔ گلیاں اب تک برف میں دفن تھیں، اور چلنے کا ایک ایک قدم جیسے اس کے وجود سے طاقت نچوڑ رہا تھا۔
بیکری پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ اس کی ساتھی، شیول، دروازے کے قریب کھڑی، سرد ہوا کے تھپیڑوں میں برف ہٹانے میں جُتی ہوئی تھی۔ گلناز نے ہونٹوں پر زبردستی مسکراہٹ سجا کر جرمن میں مدھم آواز میں کہا، "ہیلو"، اور بغیر کسی توقف کے شیول کے ساتھ برف ہٹانے میں لگ گئی۔ دونوں نے مل کر راستہ صاف کیا اور بیکری کا دروازہ کھولا۔ اب انہیں فوراً ناشتے کی تیاری کرنا تھی — وہی روزمرہ کے گاہک، جو قریبی فیکٹری میں کام کرتے تھے، کسی بھی لمحے ناشتے کے لیے پہنچ سکتے تھے۔ گلناز جانتی تھی کہ یہ لمحے کی تاخیر بھی پوری صبح کا توازن بگاڑ سکتی ہے۔
بیکری دوپہر دو بجے بند ہوتی تھی، اور اس کے بعد کا وقت جیسے گلناز کے لیے ایک کھلا خلا ہوتا تھا۔ ایک ایسا خلا جس میں وہ خود سے باتیں کرتی، اپنے زخموں کو سہلاتی، اور کبھی کبھی صرف خاموشی میں سانس لینے کی کوشش کرتی۔ صرف 25 سال کی عمر تھی، مگر اس کا چہرہ، اس کی جھکی ہوئی کمر، اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اس کی عمر کو 35 سے بھی آگے دکھاتے تھے۔ یہ قبل از وقت بڑھاپا کسی بیماری کا شاخسانہ نہیں تھا، بلکہ برسوں کی جدوجہد، تنہا جنگوں اور زندگی کے ہاتھوں کھائے گئے گھاؤ تھے۔ گلناز کے لیے ہر نیا دن کسی معرکے سے کم نہ تھا — وہ جانتی تھی کہ زندگی اسے گھسیٹ کر اندھیروں میں دھکیلتی رہے گی، اور اسے ہر روز اپنے زخموں کے ساتھ مسکرانا ہوگا، کیونکہ رک جانا اس کی قسمت میں کبھی لکھا ہی نہیں گیا تھا۔
گلناز کی عمر محض ۱۳ برس تھی — بچپن کی اس نازک دہلیز پر جہاں خواب رنگین ہوتے ہیں اور فکر کا کوئی بوجھ کندھوں پر نہیں ہوتا۔ وہ گاؤں کے دوسرے بچوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے زندگی کا ہر لمحہ جیتی تھی۔ اس دن بھی وہ گھر کے باہر کچے زمیں میں دھول اڑاتے کھیل رہی تھی کہ اچانک اس کی ماں نے تیز ہاتھوں سے اس کا بازو پکڑا اور بغیر کوئی بات کیے اندر کھینچ لیا۔ گلناز حیران تھی، ڈری ہوئی تھی، مگر ماں کے چہرے کی سختی دیکھ کر سوال لبوں تک نہ لا سکی۔
ماں نے خاموشی سے اسے نہلایا، اس کے چھوٹے سے جسم پر صاف ستھرے کپڑے پہنائے، اور ایک کونے میں بٹھا دیا۔ وہ آنکھوں میں سوال لیے کبھی ماں کو دیکھتی اور کبھی دروازے کو — جہاں باہر اس کے دوست اب بھی کھیل رہے تھے۔ اس کا دل مچل رہا تھا کہ ایک بار پھر باہر بھاگ جائے، مگر ماں کی سخت نظریں اس کے ننھے قدموں کو جکڑ چکی تھیں۔
شام ڈھلی تو گاؤں کی عورتیں آ گئیں۔ قہقہے، رسمیں، اور مہندی کی خوشبو نے کمرے کو بھر دیا۔ گلناز کی ناسمجھ آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے سوچا شاید کوئی تہوار ہے، کوئی خوشی کا موقع، کوئی کھیل کا نیا بہانہ۔ عورتوں نے اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں پر مہندی سجا دی۔ اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھا — اس کے ہاتھ رنگین ہو رہے تھے، جیسے کسی خواب کو حقیقت کا رنگ مل گیا ہو۔
مگر رات جب سب مہمان چلے گئے اور خاموشی گہری ہو گئی، تو گلناز نے اپنی ماں کا ہاتھ تھام کر معصومیت سے پوچھا، "اماں، یہ سب کیا تھا؟"
ماں نے ایک سرد سانس لی، جیسے کوئی بہت بھاری بوجھ اپنے سینے سے اتارنا ہو۔ "بیٹی، یہ تمہاری شادی ہے۔"
"شادی؟" گلناز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ "مگر اماں کیوں؟ میں تو ابھی بچی ہوں۔" اس کے لہجے میں وہی بے ساختہ سچائی تھی جو صرف بچوں کے پاس ہوتی ہے۔
ماں نے نظریں چرائیں، جیسے حقیقت کی تیز دھار آنکھوں میں جھانکنے سے ڈرتی ہو۔ "نہیں بیٹی، اب تم بڑی ہو گئی ہو۔"
گلناز کو یہ جواب کسی قید خانے کی دیوار کی طرح لگا، جس نے اس کا بچپن، اس کی معصومیت اور اس کے سارے خواب ایک لمحے میں قید کر لیے تھے۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا، جیسے کسی اندھیرے کنویں میں دھکیل دیا گیا ہو جہاں کوئی روشنی نہیں تھی۔ وہ کچھ نہ بول سکی، صرف اپنے ہاتھوں پر سجی مہندی کو دیکھتی رہی — جو چند گھنٹے پہلے خوشی کا نشان تھی، مگر اب وہی مہندی اس کے لیے زنجیر بن چکی تھی، جو اس کے ہاتھوں میں چھپے خوابوں کو جکڑ رہی تھی۔
اگلے ہی دن، گلناز کو ایک ایسے شخص کے نکاح میں دے دیا گیا جو عمر میں اس سے پورے دس سال بڑا تھا — نہ کوئی پوچھا، نہ کوئی سمجھایا۔ اسے بس ایک فیصلہ سنا دیا گیا، جیسے وہ انسان نہیں، کوئی بوجھ تھی جسے جلد از جلد اتارنا ضروری تھا۔ شادی کے فوراً بعد اسے سسرال بھیج دیا گیا، جہاں نہ کوئی مانوس چہرہ اس کا منتظر تھا، نہ کوئی محبت بھری آواز اسے خوش آمدید کہنے آئی۔ اس چھوٹی سی بچی کے لیے یہ نیا گھر، اجنبی لوگ اور سر پر پڑنے والی ذمہ داریوں کا پہاڑ کسی اندھیرے کنویں سے کم نہ تھا۔
جس عمر میں اس کے ہاتھوں میں گڑیائیں ہونی چاہیے تھیں، اس عمر میں اس کے نازک ہاتھ چولہے کی آگ میں جلنے لگے۔ جس دوپہر میں اسے دھوپ میں کھیلتے ہوئے پسینہ آنا چاہیے تھا، اس دوپہر میں وہ کھیتوں میں گھاس کاٹتی اور بھینسوں کو چارہ ڈالتی۔ وہ جو کل تک معصوم قہقہوں کے ساتھ کچی گلیوں میں بھاگا کرتی تھی، آج اس کا بچپن گھاس کی سوکھی پتیاں اور بھینسوں کی بدبو میں دفن ہو گیا تھا۔ زندگی کا ہر دن، ہر لمحہ اس کے ننھے وجود پر بوجھ بن کر برستا رہا۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور ایک سال بعد اس کے ننھے وجود نے ایک اور بوجھ اٹھا لیا — ماں بننے کا بوجھ۔ وہ جسم جو خود ابھی بڑھ رہا تھا، اس پر زندگی تخلیق کرنے کا حکم صادر کر دیا گیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکر نے بار بار خبردار کیا کہ اس کم عمر اور کمزور جسم کے لیے یہ حمل جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر کون سنتا؟ اس کے اپنے وجود سے زیادہ اس بچے کی اہمیت تھی جس کا آنا طے تھا — جیسے وہ گلناز نہیں، صرف ایک ذریعہ تھی۔
اور پھر وہ دن آیا جس کا خوف اس کے دل میں صبح شام دستک دیتا تھا۔ زندگی اور موت کی جنگ لڑ کر گلناز نے ایک مردہ بچی کو جنم دیا۔ وہ ننھی جان، جو اس کی کوکھ میں پل رہی تھی، دنیا کا چہرہ دیکھنے سے پہلے ہی مٹی کی مہمان بن گئی۔ گلناز کی اپنی سانسیں تو بحال ہو گئیں، مگر اس کا دل، اس کی روح، سب کچھ جیسے اس مردہ بچی کے ساتھ دفن ہو گیا۔
مگر دکھ کا یہ اختتام نہیں تھا — یہ تو محض ایک اور زخم کا آغاز تھا۔ اس کے شوہر نے، بغیر ایک پل کا توقف کیے، اسے طلاق دے دی۔ جیسے وہ عورت نہیں، کوئی بیکار چیز ہو جو اپنا کام نہ کر سکی ہو۔ گلناز، جس نے اس گھر کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کیا تھا، جس نے اپنی خوشیاں، اپنے خواب سب اس دہلیز پر وار دیے تھے، آج اسی دہلیز سے ٹھوکر کھا کر نکال دی گئی۔
اور یوں، وہ لڑکی جو کبھی خوشیوں کے خواب آنکھوں میں سجائے رخصت ہوئی تھی، آج اپنی ہی ماں کے در پر شکستہ دل، ٹوٹے خوابوں اور زخمی روح کے ساتھ واپس آئی۔ اس گھر میں قدم رکھتے ہی اسے لگا جیسے وہ اپنی لاش خود اپنے کندھوں پر اٹھا کر لائی ہو۔ مگر قسمت کا قلم ابھی رکا نہیں تھا۔ گلناز کی آزمائشیں ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں — یہ تو صرف پہلی فصل تھی اس کرب کی، جو اس کے نصیب میں مسلسل بویا جانا تھا۔
گلناز کے اپنے ماں باپ کے گھر میں قدم رکھتے ہی، یوں لگا جیسے وہ کسی زندہ قبر میں داخل ہو گئی ہو۔ ہر سانس کے ساتھ ایک نیا طعنہ اس کے دل میں اترتا، اور ہر لمحہ ایک نیا تیر بن کر اس کی روح چھلنی کرتا۔ ماں کی زبان کسی زہریلے خنجر سے کم نہ تھی، اور باپ کی خاموش نظریں اس کے وجود کو کچلتی رہتیں۔ یہ وہی گھر تھا جہاں اس نے کبھی خواب دیکھے تھے، قہقہے لگائے تھے، اور زندگی کو معصومیت سے چھوا تھا — مگر اب یہ گھر اس کے لیے قید خانہ تھا، جہاں دیواروں پر بس لعنتیں لکھی تھیں، اور چھت سے مسلسل ملامتیں ٹپکتی تھیں۔
ماں کی ساری فکر کا مرکز اب یہی تھا کہ اس منحوس لڑکی کو جلدی سے کسی کے گلے میں ڈال کر اس بوجھ سے جان چھڑائے۔ گلناز ایک گناہ تھی، ایک داغ تھی، جو اس گھر کی تین اور بیٹیوں کے نصیبوں کو بھی سیاہ کر رہا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ لڑکی اپنی کوکھ میں موت لے کر آئی تھی۔ ماں باپ کے لیے وہ اب صرف ایک کلنک تھی — ایک دھبہ، جسے کسی اور دروازے پر دھکیل دینا ہی واحد حل تھا۔
گلناز راتوں کو چھت تکتے ہوئے خود سے سوال کرتی — کیا میں واقعی منحوس ہوں؟ کیا میری کوکھ کا مردہ بچہ میرے گناہ کی سزا تھا؟ کیا عورت کا بدن اتنا ہی بے قیمت ہے کہ وہ کبھی مرد کی ہوس کا بستر بنتا ہے، کبھی گالی بن کر ماں باپ کے سینے پر جلتا ہے، اور کبھی منحوس بن کر گھر سے باہر پھینک دیا جاتا ہے؟ لیکن یہ سوالات صرف اس کے دل میں ہلچل مچاتے تھے، زبان سے وہ ایک لفظ بھی نہ کہہ پاتی۔ اس کی زبان بھی اس کی تقدیر کی طرح بند تھی۔
پھر ایک دن، محلے کی مسجد کے مولوی نے گویا اس قید کا دروازہ کھول دیا — لیکن اس دروازے کے پیچھے روشنی نہیں، بلکہ اندھیرا تھا۔ ایک ۷۰ سالہ بوڑھے کا رشتہ لے کر آیا، جس کے ہاتھوں میں رعشہ تھا اور آنکھوں میں زندگی سے بیزاری۔ بیوی مر چکی تھی، بچے اپنے اپنے گھروں میں مگن تھے، اور اس جھریوں بھرے ہاتھ کو بس ایک جھاڑو دینے والی عورت چاہیے تھی — جو اس کے بستر کو بھی گرم رکھے اور قبر تک بھی چھوڑ آئے۔ ماں باپ نے سکون کا سانس لیا، جیسے کسی پھٹے ہوئے کپڑے کو کچرے میں ڈال کر جان چھڑا لی ہو۔
دوسری بار گلناز ایک بےجان چیز کی طرح بیاہی گئی۔ نہ سیج سجی، نہ دعا ملی۔ بس رخصتی کے نام پر اسے اس جھونپڑی میں پھینک دیا گیا، جہاں محبت کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا۔ وہاں صرف ویرانی تھی، بوڑھے کا کانپتا ہوا ہاتھ تھا، اور ایک بکری اور چند مرغے۔ گلناز خود کو سنبھالنے لگی، مگر دل کی زمین بنجر ہو چکی تھی — خوابوں کے بیج اب وہاں اگتے ہی نہیں تھے۔
پھر وہ دن آیا، جب نہر کنارے بوڑھے کا پیر پھسلا اور پانی نے اسے نگل لیا۔ گلناز نے آنکھیں بند کر کے خود سے کہا، "اب شاید میری آزمائش ختم ہو جائے۔" مگر وہ غلط تھی۔ بوڑھے کے بچوں نے دروازے پر کھڑے ہو کر اسے منحوس قرار دے دیا — جیسے وہ کوئی سایہ ہو، جو جس گھر میں قدم رکھے، اسے نگل جاتا ہے۔ وہی منحوس لفظ جو پہلی بار سنا تھا، اب تقدیر کا پتھر بن کر اس کے گلے میں لٹک گیا۔
وہ پھر اسی دروازے پر واپس آئی، جہاں سے کبھی خواب لے کر نکلی تھی — ماں کے گھر۔ مگر اس بار ماں کی آنکھوں میں صرف نفرت تھی، اور باپ کا چہرہ ایک بند دروازہ بن چکا تھا۔ گلناز راتوں کو کروٹیں بدلتی اور اپنی سانسیں گنتی رہتی — سوچتی کہ اس کا جرم کیا تھا؟ اس کا وجود کیوں ایک گالی بن گیا تھا؟ وہ خود کو آئینے میں دیکھتی، تو لگتا جیسے وہ اب صرف گوشت اور ہڈیوں کا ڈھیر ہے، جس میں نہ خواب زندہ ہیں، نہ امید، نہ عورت ہونے کا کوئی احساس۔
وہ کبھی اپنے ہاتھوں کو دیکھتی، جہاں بچپن میں لگائی گئی مہندی کی خوشبو اب تک اس کی یادوں میں بسی تھی۔ آج ان ہی ہاتھوں پر صرف محنت کی دراڑیں اور زندگی کے زخم تھے۔ وہ ہاتھ جو کبھی گڑیاؤں کے بال سنوارتے تھے، اب بکریوں کا گوبر صاف کرتے تھے۔ وہ آنکھیں جو کبھی ستارے گنا کرتی تھیں، اب صرف زمین پر جمی رہتی تھیں — جیسے خواب دیکھنے کا حق بھی اس سے چھین لیا گیا ہو۔
گلناز کی زندگی اب اس کے لیے ایک اجنبی کہانی بن چکی تھی — ایک ایسی کہانی، جس کا ہر باب دکھوں سے لکھا گیا، ہر سطر ملامت سے بھری گئی، اور جس کا ہر حرف چیخ چیخ کر کہتا تھا کہ عورت کا خواب دیکھنا، خوش رہنا اور سانس لینا بھی گناہ ہے۔
اگلے دو سال، گلناز کے لیے وقت نہیں تھا — ایک نہ ختم ہونے والی سزا تھی، جو ہر صبح نئے زخم کے ساتھ اس کی روح پر کندہ ہو جاتی۔ وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں تو تھی، مگر گھر جیسا کچھ محسوس نہ ہوتا تھا۔ وہ اب اس دیوار کی طرح ہو چکی تھی، جس پر سب کا ہاتھ پڑتا ہے، جسے سب مارتے ہیں، لیکن کوئی اس کی دراڑوں میں جھانک کر نہیں دیکھتا۔
ماں کا رویہ تو یوں تھا جیسے اس کی کوکھ سے کوئی منحوس پتھر پیدا ہوا ہو، جسے اب گلی گلی گھسیٹنا اس کا نصیب بن چکا تھا۔ ہر نوالہ کھاتے ہوئے گلناز محسوس کرتی کہ یہ روٹی نہیں ہے — یہ قرض ہے، جس کی قیمت ہر طعنے، ہر کوسنے اور ہر ذلت سے چکانی ہے۔ باپ کی خاموشی سب سے زیادہ خوفناک تھی — جیسے وہ بیٹی نہیں، صرف ایک بوجھ ہے، جسے زمین پر گھسیٹ کر بس کسی اور دروازے پر رکھ دینا ہے۔
لیکن گلناز نے جلد ہی سمجھ لیا تھا کہ سانس لینا کافی نہیں — زندہ رہنے کے لیے خود کو کسی نہ کسی کام میں جھونکنا ہوگا۔ اور پھر محلے کی ایک عورت کے کہنے پر گلناز اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے جانے لگی۔ صبح سورج نکلنے سے پہلے، جب کہ دھند بھی پوری طرح نہ چھٹتی تھی، گلناز کا بدن مٹی میں لت پت ہو چکا ہوتا تھا۔ نرم ہاتھوں نے گڑیاؤں سے کھیلنا چھوڑا، اور اب ان ہاتھوں میں گیلی مٹی تھی — جو اس کے خوابوں کی طرح ٹھنڈی اور بےجان تھی۔
اینٹیں اٹھاتے، مٹی گوندھتے اور بھٹے کی دہکتی آگ میں ہاتھ جھونکتے ہوئے گلناز ہر روز سوچتی — کیا یہی میری زندگی کا انجام تھا؟ کیا یہی میرا مقدر تھا؟ اس کے آنچل سے بار بار پسینہ پونچھتے ہوئے وہ آسمان کی طرف دیکھتی، جیسے خدا سے کوئی جواب مانگ رہی ہو۔ مگر آسمان خاموش تھا، بالکل اس کے باپ کی طرح۔
بھٹے کی وہ آگ، جو اینٹوں کو سخت کرتی تھی، وہی آگ گلناز کے اندر بھی جلتی تھی۔ اس کی ہڈیوں میں، اس کی سانسوں میں، اس کے دل کے اندر ایک الاؤ بھڑک رہا تھا — لیکن وہ آگ کسی بغاوت کی نہیں تھی، وہ آگ اس کی اپنی سسکیوں سے بھڑکی تھی۔ اینٹیں بناتے ہوئے کبھی کبھی اس کا دل چاہتا کہ وہ خود کو بھی اس گرم مٹی میں دفن کر دے — تاکہ جسم بھی اسی مٹی کا ہو جائے، جسے سب پاؤں سے روندتے ہیں۔
دوپہر کی دھوپ میں جب بھٹے کے قریب سے گرم ہوا کے تھپیڑے اس کے چہرے پر پڑتے، تو اسے اپنی پہلی شادی کی رات یاد آتی — وہ رات جب اس کی ہتھیلیوں پر مہندی تھی، مگر دل میں خوف۔ یہ دھوپ بھی تو ویسی ہی تھی — دکھ بھری، بےرحم اور اس کی معصومیت کو جھلسا دینے والی۔
شام کو جب وہ واپس گھر لوٹتی، تو ماں کے طعنے اس کے کپڑوں کی مٹی اور پسینے سے بھی زیادہ بوجھل ہوتے۔ "یہ منحوس ہاتھ کیا کما کر لاتی ہے؟" "تمہارے نصیب کی نحوست نے تو اینٹوں کو بھی کالا کر دیا ہوگا!" وہ سب سنتی، اور خاموشی سے اپنے زخموں کو اندر چھپا لیتی — کیونکہ اب اسے رونا بھی آتا، تو آنکھیں سوکھی رہتیں۔ آنسو بھی جیسے روٹھ گئے تھے۔
ان دو برسوں میں گلناز کا جسم کمزور ہوتا گیا، کمر جھکتی گئی، مگر اس کا دل؟ وہ ایک اینٹ بن چکا تھا — بےحس، سخت اور خاموش۔ اس کے خواب، خواہشیں اور امیدیں، سب اس بھٹے کی مٹی میں دب چکی تھیں۔
اس رات پہلی بار اس کے دل میں یہ خواہش جاگی — میں یہاں سے بھاگ جاؤں، کہیں دور، جہاں میرا کوئی ماضی نہ ہو، جہاں کوئی مجھے منحوس نہ کہے، جہاں میں اینٹ نہیں، انسان بن کر جی سکوں۔ مگر جائے کہاں؟ گلناز نے اپنی ساری زندگی صرف دو گاؤں کے بیچ گزاری تھی — ایک وہ جہاں وہ پیدا ہوئی تھی، اور دوسرا وہ جہاں اس کا پہلا شوہر اسے بیاہ کر لے گیا تھا۔ ان دو گاؤں کے باہر کی دنیا اس کے لیے کسی تصور سے زیادہ نہیں تھی۔
یہ دو سال گلناز کے لیے ایک قبر کی طرح تھے — جس میں وہ زندہ دفن رہی۔ مگر اسی اندھیرے میں ایک چھوٹی سی چنگاری بھی جاگ اٹھی تھی — اپنی تقدیر کو خود بدلنے کی خواہش۔ یہ چنگاری ابھی بہت مدھم تھی، لیکن گلناز جانتی تھی کہ اگر ہوا کا ایک جھونکا اسے چھو جائے، تو شاید وہ چنگاری آگ بن جائے — ایسی آگ جو اس کے ماضی کے سارے بھٹے جلا کر خاک کر دے
ایک دن، گلناز کے ماں باپ کے لیے ایک امید کا دروازہ کھلا، جب کسی رشتہ دار نے خبر دی کہ شہر سے ایک میاں بیوی اپنے بیٹے کے لیے دلہن ڈھونڈ رہے ہیں۔ لیکن شرط یہ تھی کہ شادی سادگی سے ہوگی — نہ کوئی دھوم دھڑکا، نہ کوئی جہیز، نہ کوئی مہمان۔ گلناز کے والدین کو لگا جیسے برسوں سے جھکا ہوا ان کا سر، آخرکار تھوڑا سا سیدھا ہونے کا موقع پا گیا ہو۔
مگر دل کے کسی کونے میں یہ خوف بھی چھپا ہوا تھا — جب انہیں بتایا جائے گا کہ گلناز طلاق یافتہ بھی ہے اور بیوہ بھی، تب کیا ہوگا؟ رشتہ دار نے انہیں تسلی دی، "وہ سب جانتے ہیں، اور انہیں کوئی اعتراض نہیں۔" یہ سن کر گلناز کی ماں نے شکر کا سانس لیا، مگر گلناز کے دل میں ایک اور سوال جنم لے رہا تھا — کیا واقعی کوئی اسے اس کے ماضی سمیت قبول کر سکتا ہے؟ یا یہ صرف وقت کا ایک اور تھپڑ ہوگا؟
اگلی صبح، گلناز کی تیسری بار ڈولی اٹھ گئی۔ صرف ایک نکاح، چند گواہ، اور ایک خاموشی، جو گلناز کے دل کی آواز سے بھی گہری تھی۔
اس کا نیا شوہر اس کا ہم عمر تھا — ایک عام سا، سادہ سا نوجوان۔ شاید پہلی بار گلناز کو کسی ایسے شخص کا ساتھ ملا تھا جس کی آنکھوں میں غرور یا ہوس کی جگہ صرف ایک ساتھی کی تلاش تھی۔
نکاح کے بعد، وہ تانگے میں بیٹھے، جیسے کوئی پرانا خواب نئے راستے پر نکل پڑا ہو۔ تانگے سے وہ بس اسٹاپ پہنچے، اور پھر وہاں سے ریلوے اسٹیشن۔ گلناز کا دل ہر موڑ پر حیرت اور خوشی کے بیچ جھولتا رہا۔ یہ سب اس کے لیے نیا تھا — اتنا نیا کہ اس کا دل بار بار خود کو چٹکی کاٹ رہا تھا۔
اس کے شوہر اور ساس نے اس کا ہر قدم پر خیال رکھا۔ ساس کا نرم لہجہ، ہاتھ تھامنے کا انداز، اور راستے بھر اس کا دھیان رکھنا — یہ سب گلناز کے لیے کسی خواب جیسا تھا۔ شاید پہلی بار کسی نے اسے بیٹی یا بہو کے بجائے ایک انسان سمجھا تھا۔
ٹرین جانے میں وقت تھا، تو اس کا شوہر قریب کے ہوٹل سے کھانے کے لیے چکن لے آیا۔ گلناز نے زندگی میں پہلی بار اتنی محبت سے منگوایا ہوا کھانا کھایا تھا۔ وہ پہلا نوالہ اس نے آنکھیں بند کر کے چکھا — اور ایک لمحے کے لیے وہ سب تلخ ذائقے بھول گئی جو زندگی نے اسے اب تک چکھائے تھے۔ وہ چکن کا ذائقہ نہیں تھا، وہ محبت کا ذائقہ تھا، جسے گلناز نے پہلی بار محسوس کیا تھا۔
شام کے سائے دھیرے دھیرے گہرے ہو رہے تھے۔ اس کی ساس نے نکاح میں بانٹی گئی میٹھائی کا ذکر چھیڑ دیا — "بچی تھی تو کسی نے کھائی یا نہیں؟" گلناز نے جھجک کر کہا، "میں کھاؤں گی اماں!" ساس نے دو لڈو گلناز کے ہاتھ میں رکھ دیے۔ گلناز نے جلدی سے وہ لڈو کھا لیے، جیسے ڈر ہو کہ کہیں اس کا شوہر مذاق میں نہ چھین لے۔ اس چھوٹے سے لمحے میں، گلناز کا دل پہلی بار بچپن کی معصوم خوشی سے بھر گیا۔
رات کے سائے گہرے ہوتے گئے، اور گلناز آنکھوں میں خواب اور دل میں امید کے دیے جلائے نیند کے دروازے پر جا بیٹھی۔ شاید اس بار زندگی اسے محض ایک نئی آزمائش کے لیے نہیں، بلکہ ایک نئی سانس، ایک نیا حق دینے والی تھی۔ شاید اس بار، قسمت اس کے دروازے پر سچ میں مسکرا کر آئی تھی۔
اگلی صبح جب گلناز کی آنکھ کھلی، تو سامنے نہ کوئی ساس تھی، نہ شوہر، نہ وہ چمکتی ہوئی ٹرین کا پلیٹ فارم۔ اس کے سامنے بس ایک اندھیرا کمرہ تھا — دیواروں سے پپڑی ہوئی نمی جھانک رہی تھی، چھت پر مکڑی کے جالے لرز رہے تھے، اور فرش پر مٹی کی ایک موٹی تہہ بچھی ہوئی تھی، جیسے برسوں سے کسی نے یہاں قدم نہ رکھا ہو۔
گلناز نے خود کو ایک بوسیدہ چارپائی پر پایا۔ اس کا بدن ٹوٹ رہا تھا اور سر بھاری تھا، جیسے کسی نے اس کے خوابوں پر پتھر رکھ دیے ہوں۔ آنکھوں میں نیند کی جگہ خوف جم گیا تھا۔ وہ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی کہ یہ سب کیسے ہوا۔ نکاح، اسٹیشن کا ہجوم، ٹرین کا شور، شوہر کا چکن لے کر آنا، میٹھے لڈو… اور پھر نیند۔ اور اب یہ جگہ؟ یہ کون سا گھر ہے؟ اس کا اپنا گھر؟ شوہر کا؟ یا کسی اور کا؟
اس نے اٹھ کر دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔ جیسے جیسے دروازے کے قریب گئی، اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں۔ دروازہ زور لگا کر کھولا، مگر وہ باہر سے بند تھا — جیسے کوئی قیدیوں کا دروازہ مقفل کر جاتا ہے۔ گلناز کے اندر ایک چیخ اٹھی، جو اس کے ہونٹوں تک آتے آتے خاموشی میں دفن ہو گئی۔
اس نے دروازہ پیٹنا شروع کیا۔ "کوئی ہے؟ دروازہ کھولو! اماں! کوئی تو ہو!" لیکن جواب میں صرف خاموشی تھی — اتنی گہری خاموشی کہ اس میں اس کے دل کی دھڑکنیں بھی گونجنے لگیں۔
گلناز تھک ہار کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنے گھٹنے سمیٹے اور سر جھکا کر بچوں کی طرح رونا شروع کر دیا۔ آنسو اس کی گرد آلود ہتھیلی پر گرنے لگے، جیسے وہ اپنے ہی نصیب پر ماتم کر رہی ہو۔
یہ سب کیا تھا؟ خواب تھا یا حقیقت؟ اسے لگا شاید وہ کسی خواب میں قید ہو گئی ہے، جہاں نہ دن نکلتا ہے، نہ رات گزرتی ہے۔
اس نے آنکھیں بند کیں، ہاتھ اٹھائے اور آہستہ آہستہ دعا مانگنے لگی، "اللہ جی، میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ مجھے اس اندھیری کوٹھری سے نکال دو۔ مجھے ایک بار پھر وہ دن واپس دے دو جب میں کھیتوں میں بھاگتی تھی، جب میں بھٹے پر کام کرتی تھی، جب میں خواب دیکھ سکتی تھی۔ بس ایک بار رحم کر دو!"
لیکن جب آنکھیں کھولیں، تو سامنے پھر وہی بند دروازہ تھا، وہی دیواریں، وہی سناٹا۔ گلناز نے اس سناٹے میں اپنے دل کی دھڑکن سنی — اور اس میں چھپی ہوئی وہ چیخ بھی جو باہر نکلنے سے پہلے ہی اس کی روح میں کہیں دفن ہو چکی تھی۔
دروازہ چرچراتے ہوئے کھلا تو گلناز کے دل میں امید کی ایک ننھی سی لو جاگی۔ شاید وہ اس کی ساس ہو، یا وہ نوجوان شوہر، جس کی آنکھوں میں کل تک نرم لہجے کا خواب دیکھا تھا۔ مگر جیسے ہی دروازے کے اس پار کھڑے چہروں پر نظر پڑی، اس کا دل جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا۔
سامنے ایک وحشت زدہ، درندگی سے بھرا ہوا چہرہ تھا۔ آنکھیں ایسے جیسے شکاری ہو، اور شکار سامنے بیٹھا ہو۔ وہ آدمی دروازے میں کھڑا اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے قصائی بکرا دیکھتا ہے۔ گلناز کا دل حلق میں آ گیا۔ اس آدمی کے پیچھے مزید تین مرد کھڑے تھے، اور ایک عورت — جس کے چہرے پر نہ رحم تھا، نہ شرم۔
گلناز نے چارپائی کو مضبوطی سے پکڑ لیا، جیسے یہ بوسیدہ چارپائی ہی اب اس کی آخری پناہ گاہ ہو۔ اس کے کان سن ہو رہے تھے، دل چیخ رہا تھا، مگر زبان بند تھی۔ اس عورت نے آگے بڑھ کر گلناز کے گال کو سختی سے پکڑا، چہرہ ادھر ادھر گھمایا، اور پھر ایک گندی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
"چہرہ ٹھیک ہے۔ رنگت بھی ٹھیک ہے۔ پر ذرا دبلی ہے۔ خیر، ٹھیک کر لیں گے۔"
پھر اس عورت نے اپنا ہاتھ بے دردی سے گلناز کی قمیض میں ڈال دیا، جیسے وہ کسی جانور کو پرکھ رہی ہو۔ گلناز کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ اس کا جسم کانپنے لگا، لیکن مزاحمت کرنے کی ہمت نہ تھی۔ عورت نے ایک طرف منہ کر کے کہا:
"پانچ لاکھ کا مال اتنا خاص نہیں نکلا۔ مگر کوئی بات نہیں، گاہک سے وصول کرنا ہمیں آتا ہے۔"
یہ جملہ گلناز کے دل پر ایسا وار تھا کہ سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔ اس کا دل چاہا وہیں چیخ مار کر مر جائے۔ مگر آواز گلے میں اٹک گئی۔ یہ سب کیا تھا؟ کیا وہ خواب میں ہے؟ نہیں، یہ خواب نہیں تھا۔ یہ اس کی زندگی تھی — اس کی بکھرتی ہوئی، روندی ہوئی، بیچی ہوئی زندگی۔
وہ نکاح، وہ وعدے، وہ محبت بھرے انداز — سب جھوٹ تھے۔ ایک منصوبہ، ایک دھوکہ، ایک گھناؤنی تجارت۔ گلناز کو لگا جیسے کسی نے اس کی روح کو نوچ کر باہر نکال دیا ہو۔ اس کی آنکھوں میں سوال ہی سوال تھے —
"کیوں؟"
"میرے ساتھ ہی کیوں؟"
"میں تو بس جینا چاہتی تھی — ایک چھوٹا سا گھر، ایک چھوٹی سی خوشی، ایک پیار بھری مسکراہٹ۔ کیا یہ سب مانگنا جرم ہے؟"
مگر اس کمرے میں ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ صرف ایک سناٹا تھا، جو اس کی بے بسی کا مذاق اڑا رہا تھا۔
گلناز کی زندگی ایک نہ ختم ہونے والا جہنم بن چکی تھی، جہاں ہر لمحہ ایک نئے عذاب کے ساتھ نمودار ہوتا، اس کے خوابوں کو مسلتا، اس کی عزت کو تار تار کرتا اور اس کی روح کو نوچتا رہا۔ یہ صرف مصائب کا تسلسل نہیں تھا، بلکہ ہر گزرتا دن اس کے وجود کو ایک نئی ذلت میں ڈھال دیتا۔ وہ ایک بے کس اور مظلوم پیکر تھی، جس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، جس کی چیخیں صدیوں پرانی خاموشی میں دفن ہو چکی تھیں، جس کی عزت کو بار بار نیلام کیا جاتا رہا۔
اس نے بارہا اپنے آپ کو اس وحشت سے آزاد کرنے کی کوشش کی — کبھی کسی سے رحم کی بھیک مانگ کر، کبھی خود اپنی سانسوں کا گلا گھونٹ کر۔ لیکن ہر بار تقدیر اسے مزید بے رحمی سے اسی اندھیرے کنویں میں دھکیل دیتی۔ ہر ناکامی کے بعد اس کے جبر کا بوجھ دوچند ہو جاتا، یہاں تک کہ اس کی امیدیں مٹی ہو گئیں اور اس نے اپنی بے بسی کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیا۔
اسے خبر بھی نہ ہوئی کہ کب گلناز، نازلی بن گئی — وہ نازلی جو اب اس کا نام نہیں، بلکہ اس کی لٹی ہوئی عزت، چھینی گئی شناخت اور برباد وجود کا دوسرا نام تھا۔
اب اس کا جسم اس کا اپنا نہ رہا تھا۔ یہ ایک بازار کی چیز بن چکا تھا، جسے ہر شب نئے سوداگر خریدتے اور اپنی وحشی ہوس سے تاراج کرتے۔ اسے ایک دل لبھانے والی رقاصہ میں ڈھال دیا گیا تھا — اس کے جسم کی ہر جنبش، ہر ادا، گاہکوں کی ہوس کو بھڑکانے اور ان کی جیبیں خالی کرنے کے لیے ترتیب دی گئی تھی۔ مگر یہ صرف رقص نہ تھا، یہ اس کی ذلت کی اسٹیج تھی، جہاں ہر قدم پر اس کی عزت پامال ہوتی رہی۔
رقص کے بعد اسے اور باقی لڑکیوں کو ان نجی محفلوں میں دھکیل دیا جاتا، جہاں نہ کوئی رحم تھا نہ انسانیت۔ ان کی حیثیت ان کھلونوں سے زیادہ نہ تھی جنہیں چند گھنٹوں کے لیے استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔ ہر حکم بجا لانے کے باوجود انہیں مارا جاتا، کچلا جاتا، اور اپنی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا۔ صبح ہونے تک وہ ٹوٹے ہوئے جسم اور بکھری ہوئی روح لیے اپنی قید میں واپس پہنچ جاتیں — ایسی قید جہاں ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہ تھا، جہاں ان کی چیخوں کو سننے والا کوئی نہ تھا، اور جہاں ہر دن ایک نیا عذاب لے کر آتا تھا۔
یہ وحشت اور درندگی کا سلسلہ اپنی پوری شدت کے ساتھ جاری تھا کہ ایک رات تقدیر نے اپنا رنگ بدلا۔ ایک خفیہ نجی محفل میں، جہاں نازلی اور اس کی ساتھی لڑکیوں کو نیم عریاں رقص پر مجبور کیا جا رہا تھا — ان کی عزت کو ایک بار پھر تماش بینوں کے قدموں میں اچھالا جا رہا تھا — اچانک دروازہ دھڑ دھڑاتے ہوئے پولیس اندر گھس آئی۔ ایک لمحے کے لیے کمرے میں خوف کی چادر تن گئی۔ سستے شراب کے نشے میں دھت مرد، جو لمحہ بھر پہلے ان لڑکیوں کو نوچنے کے لیے بےتاب تھے، یکدم بکریوں کی طرح سہمنے لگے۔
پولیس نے پورے ہجوم کو گھیرے میں لے لیا، لیکن یہ دنیا تھی — اس دنیا کے اپنے اصول تھے۔ لڑکوں نے لمحوں میں نوٹوں کی بارش کر کے اپنی رہائی خرید لی، اور قانون ہمیشہ کی طرح اندھا ہو گیا۔ مگر نازلی اور اس کی ساتھی لڑکی پر کوئی نوٹ خرچ کرنے والا نہ تھا۔ ان کی قسمت میں رہائی نہیں، حوالات کی سلاخیں لکھی تھیں۔
انہیں بے رحمی سے دھکیل کر پولیس وین میں بٹھایا گیا — نہ ان کے زخموں کا لحاظ کیا گیا، نہ ان کی لرزتی چیخوں کا۔ ان کی آنکھوں میں امید کے آخری قطرے تک روند دیے گئے۔ حوالات میں پھینک دی جانے والی یہ لڑکیاں اب مجرم تھیں، معاشرے کی نظر میں گناہگار تھیں — جبکہ ان کے اصل مجرم وہی تھے جو یا تو رشوت دے کر چھوٹ گئے تھے، یا وہ جنہوں نے برسوں سے ان کے جسموں کو بازار کی جنس بنا رکھا تھا۔
اگلی صبح، نازلی اور اس کی ساتھی لڑکی کو ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان کی آنکھوں میں خوف تھا، مگر اس خوف کے پیچھے ایک عجیب سی تھکن چھپی تھی — وہ تھکن جو مسلسل بے حرمتی سہنے سے دل اور روح پر جم جاتی ہے۔ کمرہ عدالت میں، پولیس نے روایتی انداز میں ان کے خلاف ریمانڈ کی درخواست پیش کی، جیسے یہ دو لڑکیاں ہی اصل مجرم ہوں، جیسے یہ ہی اس گندگی کی جڑ ہوں۔
مگر اس دن قسمت نے نازلی پر ذرا سی مہربانی کی۔ عدالت نے پولیس کی درخواست مسترد کر دی اور حکم دیا کہ انہیں ریمانڈ کے بجائے جیل منتقل کیا جائے۔ ساتھ ہی پولیس کو حکم ملا کہ اس گھناؤنے نیٹ ورک کی گہرائی تک جا کر تفتیش کی جائے — وہ تفتیش جو شاید کبھی مکمل نہ ہوتی، مگر نازلی کے لیے یہ فیصلہ کسی معجزے سے کم نہ تھا۔
جب جیل کا بھاری دروازہ اس کے پیچھے بند ہوا، تو پہلی بار نازلی نے اپنے اندر ایک سکون سا محسوس کیا — وہ سکون جو نہ جانے کتنے برسوں سے اس کی زندگی سے غائب تھا۔ اگرچہ وہ قیدی بن چکی تھی، مگر وہ اس قید کو آزادی سمجھ رہی تھی۔ ان سلاخوں کے پیچھے نہ کوئی وحشی نظریں تھیں، نہ رات کے اندھیرے میں کوئی دروازہ دھڑدھڑاتا تھا، نہ کسی کا گھناونا لمس اس کے جسم کو روندتا تھا۔
یہ چار دیواری، یہ سلاخیں، نازلی کے لیے پہلی بار ایک محفوظ پناہ گاہ بن گئی تھیں۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں اسے پہلی بار گناہ کے بازار سے باہر سانس لینے کا موقع ملا — جہاں اس کا جسم کسی کا مال نہیں تھا، اور اس کی عزت نیلام ہونے سے بچ گئی تھی۔ یہ قید اس کے لیے سزا نہیں، پناہ تھی۔
اگلی چند پیشیوں میں، پولیس نے اپنی تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ یہ رپورٹ حقیقت کا جنازہ تھی — ایک ایسا پلندہ جس میں سچائی کا گلا گھونٹ کر سارا الزام نازلی اور اس کی ساتھی لڑکی پر ڈال دیا گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ یہ دونوں لڑکیاں اپنی مرضی سے اس دھندے میں آئی تھیں، کہ وہ خود فحاشی اور جسم فروشی میں ملوث تھیں، اور انہیں پکڑ کر معاشرے پر احسان کیا گیا ہے۔
وہ عدالت جہاں انصاف کا بول بالا ہونا تھا، وہاں کاغذی ثبوتوں اور جھوٹے بیانات کے پہاڑ تلے سچائی دفن ہو گئی۔ عدالت نے اسی جھوٹی رپورٹ کو بنیاد بنا کر دونوں لڑکیوں کو مجرم قرار دے دیا اور چھ چھ ماہ قید کی سزا سنا دی — ایک سزا جو نازلی کے لیے اذیت کا اعلان نہیں، بلکہ راحت کا پیغام تھی۔
اسے یہ چھ ماہ کسی قید خانے میں نہیں، بلکہ پناہ میں گزارنے تھے۔ یہ سزا ان لاتعداد راتوں سے کہیں ہلکی تھی جو اس نے رقص گاہوں، حوس بھرے کمروں اور تماش بینوں کی نظریں سہتے ہوئے کاٹی تھیں۔ برسوں بعد، اسے پہلی بار سلاخوں کے پیچھے ایک ایسی رات نصیب ہوئی، جس میں نہ کسی دروازے پر دستک تھی، نہ کسی بے رحم ہاتھ کا لمس، نہ کسی تماش بین کی آواز۔ وہ رات اس کے لیے پہلی حقیقی نیند لے کر آئی، ایک ایسی نیند جس میں خواب تو پھر بھی زخموں کے تھے، مگر حقیقت کا وہ عذاب عارضی طور پر ختم ہو گیا تھا۔
چند دن بعد، جیل کی پتھریلی اور سرد دیواروں کے درمیان، ایک شام گلناز کی ملاقات بی بی جان سے ہوئی۔ بی بی جان — جن کا اصل نام بی بی گل تھا — ان کے نام کے ساتھ "جان" کا احترام جیل میں موجود ہر عورت کے دل سے نکلتا تھا۔ ان کی آنکھوں میں وقت کی جمی ہوئی برف تھی، اور لہجے میں صبر کے ان گنت زخموں کا درد۔ مگر ان کا سکون، ان کی نرم مسکراہٹ، اور ان کے وجود سے چھلکتا وقار — یہ سب ان کی مضبوطی کی گواہی دیتے تھے۔
بی بی گل کی کہانی بھی ایک چیخ تھی، ایک ایسا زخم جو لفظوں میں ڈھل کر بھی مکمل نہ ہو سکتا تھا۔
وہ دن، جب بی بی گل شام کے سائے میں گھر لوٹی، تو اس کے کانوں میں اپنی 14 سالہ بیٹی کی چیخیں گونجنے لگیں۔ وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئی، اس نے وہ منظر دیکھا، جسے دیکھنے سے پہلے شاید موت آ جاتی تو بہتر تھا۔ اس کی بیٹی اپنے ماموں زاد بھائی سے اپنی عزت بچانے کے لیے فرش پر گرتی پڑتی لڑ رہی تھی — آنکھوں میں خوف، بدن پر تار تار لباس، اور روح پر ناقابلِ بیان زخم۔
بی بی گل پر گویا جنون سوار ہو گیا۔ وہ بھاگ کر آئی اور اس درندے کو گردن سے پکڑ کر پوری قوت سے پیچھے دھکیلا۔ لڑکے کا سر دیوار سے ٹکرایا، اور وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔ بی بی گل کی نظریں دوبارہ اپنی بیٹی پر گئیں، جس کا معصوم جسم برہنہ پڑا تھا، اور اس کے چہرے پر وہ وحشت تھی جو کسی بھی ماں کا سینہ چیر سکتی ہے۔
بی بی گل نے فوراً اپنا دوپٹہ اتارا اور لرزتے ہاتھوں سے بیٹی کے وجود کو ڈھانپا۔ قریب ہی ایک ٹین کے ڈبے میں رکھے کپڑے نکالے اور بیٹی کو پہنائے۔ پھر کانپتی آواز میں کہا، "یہ پھٹے ہوئے کپڑے بھینسوں کے آگے ڈال دینا، اور بارڈ میں جا کر چھپ جانا۔"
بیٹی کو چھپا کر، بی بی گل نے باہر نکل کر شور مچا دیا۔ لوگ جمع ہو گئے، اور وہ بے ہوش لڑکا، جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا، اسے ڈسپنسری لے جایا گیا۔ مگر وہ زخم صرف جسمانی نہیں تھے — وہ گناہ کے بوجھ تلے دب کر مر گیا۔
بی بی گل کے سگے بھائی نے اسی لمحے اپنی بہن کو قاتل ٹھہرا دیا۔ خون کا رشتہ وہیں دم توڑ گیا۔ بی بی گل کو گرفتار کر لیا گیا، مگر گرفتاری سے پہلے وہ اپنی بیٹی کو قسم دے چکی تھی — "کبھی کسی کو اصل سچ نہ بتانا۔ یہ دنیا ماں اور بیٹی دونوں کو زندہ دفن کر دے گی۔"
تفتیش میں بی بی گل نے بار بار کہا، "یہ حادثہ تھا، میں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا۔" پولیس کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ نہ کوئی زمین کا جھگڑا تھا، نہ پیسوں کا تنازع — لہٰذا یہ قتل ذاتی دشمنی کا نتیجہ نہیں تھا۔ عدالت نے چشم دید گواہ نہ ہونے کے باعث بی بی گل کو عمر قید نہیں دی، مگر انصاف کا یہ ترازو صرف 7 سال کی سزا کے پلڑے میں جھک گیا۔
جیل کی زندگی بی بی گل نے اپنی طرح کی نئی عبادت بنا لی۔ ہر دن قرآن ہاتھ میں ہوتا، ہر رات آنکھوں میں دعا کے آنسو۔ جیل میں آئی ہر نئی عورت کی پہلی استاد بی بی جان تھیں — جو قرآن پڑھاتی، نماز سکھاتی، اور دکھ بانٹتی تھیں۔
گلناز بھی ان کے حلقے میں آ بیٹھی۔ بی بی جان کے الفاظ میں ایسا سکون تھا، جیسے ٹوٹی کشتی کو کنارہ مل گیا ہو۔ بی بی جان نے گلناز کو نماز سکھائی، اور پہلی بار گلناز نے اپنے آنسوؤں کے ساتھ سجدے میں گر کر دعا مانگی — "یا اللہ! وہ گناہ معاف کر دے جو میرے جسم سے زبردستی کروائے گئے۔ اور وہ راستہ دکھا، جہاں میں دوبارہ اس دلدل میں نہ گر سکوں۔"
شاید گلناز کی سجدوں میں بہنے والے آنسو آخرکار عرش تک پہنچ گئے تھے۔ شہر کی معروف یونیورسٹی کے جرائم اور سماجی مسائل پر تحقیق کرنے والے شعبے سے چند طالبات جیل کا دورہ کرنے آئیں۔ ان کا تحقیقی منصوبہ تھا — "عورت مجرم کیوں بنتی ہے؟" وہ سمجھنا چاہتی تھیں کہ کون سے حالات ایک عورت کو قانون توڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔
ان لڑکیوں میں سے ایک، شازیہ، ایک حساس دل رکھنے والی نوجوان طالبہ تھی، جس کی آنکھوں میں سچائی جاننے کا تجسس اور دل میں کچھ اچھا کرنے کا خواب تھا۔ جب اس کا سامنا گلناز سے ہوا۔
انٹرویو شروع ہوا، اور گلناز نے سچائی کے سارے دروازے کھول دیے۔ نہ کوئی جھوٹ، نہ کوئی پردہ۔ اس نے بتایا کہ کیسے اس کے جسم کو بازار بنایا گیا، کیسے اس کی عزت نیلام ہوئی، اور کیسے وہ مردوں کے وحشی پن کا شکار بنتی رہی۔ اس نے بتایا کہ کس طرح یہ سماج، جسے عورت کے تحفظ کا ضامن ہونا تھا، خود اس کا سب سے بڑا دشمن بن گیا۔ ہر جملے کے ساتھ گلناز کی آواز ٹوٹتی رہی، اور ہر ٹوٹتی سانس کے ساتھ شازیہ کا دل کسی انجانے بوجھ تلے دبنے لگا۔
گلناز نے ہاتھ جوڑ کر شازیہ سے التجا کی، خدا کے لیے مجھے اس جہنم سے نکالو۔ میں مجرم نہیں ہوں، میں صرف اس سماج کا زندہ لاشہ ہوں جس نے مجھے سانس لینے کے لیے بھی قیمت چکانے پر مجبور کیا۔"
شازیہ نے گلناز سے وعدہ تو کر لیا کہ وہ اس کی آواز بنے گی، مگر اندر کہیں اس کے اپنے سوال زندہ تھے — کیا واقعی گلناز مظلوم ہے؟ یا پھر یہ بھی ویسی ہی کہانی ہے جیسی اکثر مجرم اپنی سزا کم کروانے کے لیے بناتے ہیں؟
جیل سے واپسی پر شازیہ نے اپنی ساری الجھنیں اپنے شعبے کے سربراہ، پروفیسر صاحب، کے سامنے رکھ دیں۔ پروفیسر صاحب، جنہوں نے زندگی بھر انسانی نفسیات اور جرم کے اسباب پر تحقیق کی تھی، ایک گہری سانس لے کر بولے، "بیٹا، ہر کہانی سچ نہیں ہوتی، اور ہر کہانی جھوٹ بھی نہیں ہوتی۔ سچائی جاننے کے لیے جذبات سے زیادہ حقائق اور تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک تم خود گلناز کی زندگی کے نشانات کو نہ دیکھ لو، اس پر یقین نہ کرنا۔ یہ دنیا مظلوم اور ظالم کے بیچ میں کہیں کھڑی ہے۔ تمہیں خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ گلناز کون ہے — ایک معصوم شکار یا ایک چالاک مجرم؟"
شازیہ نے جیل میں ہونے والے اس انٹرویو اور پروفیسر صاحب سے ہوئی گفتگو کا ذکر اپنے منگیتر سے کیا، جو خوش قسمتی سے ایک اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ شازیہ کی آواز میں لرزش اور آنکھوں میں بےبسی تھی، جیسے گلناز کا دکھ اس کے دل پر نقش ہو چکا ہو۔ شازیہ کے منگیتر نے بغیر کسی جھجھک کے اس وعدے پر مہر لگا دی کہ وہ گلناز کے لیے انصاف کی راہ نکالے گا — وہ انصاف، جو برسوں سے اس کے نصیب میں لکھا ہی نہیں گیا تھا۔
اگلے ہی دن، اس نے اپنے ہم منصب سے رابطہ کیا، جو اسی علاقے میں تعینات تھا جہاں سے گلناز کی کہانی کا خون آلود باب شروع ہوا تھا۔ کاغذات کی گرد جھاڑی گئی، پرانی فائلوں کے زنگ آلود تالے کھولے گئے، اور یوں گلناز کے زخموں پر لگے جھوٹے الزامات کے پردے ہٹنے لگے۔ سچائی آہستہ آہستہ منظرِ عام پر آنے لگی — وہ واقعی بےگناہ تھی، مظلوم تھی، اور وہ محض ایک جسم نہیں، بلکہ اس وحشی نظام کا کچلا ہوا ثبوت تھی۔
شازیہ نے یہ تمام معلومات پروفیسر صاحب تک پہنچائیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنے پرانے دوستوں کو آواز دی — وہ دوست، جو برسوں سے عورتوں کے حقوق کے لیے لڑ رہے تھے۔ ان میں ایک جرمن کارکن بھی شامل تھا، جو انسانی حقوق کی عالمی تنظیم سے منسلک تھا۔ اس نے گلناز کے لیے بین الاقوامی پناہ کا دروازہ کھولنے کا وعدہ کیا۔
شازیہ کے منگیتر نے بھی اپنے اختیارات کا سہارا لے کر وہ تمام کاغذی رکاوٹیں دور کر دیں، جو گلناز کی رہائی کی راہ میں حائل تھیں۔ چھ ماہ کی سزا پوری ہونے سے ایک دن پہلے، گلناز کو سرکاری طور پر رہا کیا گیا، مگر اس بار وہ محض قیدی نمبر نہیں تھی — وہ ایک انسان تھی، جسے پہلی بار اس کا کھویا ہوا احترام لوٹایا جا رہا تھا۔
رہائی کے بعد، گلناز کو فوری طور پر ایک محفوظ جگہ منتقل کر دیا گیا، جہاں نہ کوئی سوال تھا، نہ کوئی طنز۔ اس کی شناخت بحال کی گئی، اسے ایک نیا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دیا گیا — ایک ایسا کاغذی ٹکڑا، جس پر اس کا وجود پہلی بار بغیر گناہ کے درج کیا گیا تھا۔
پھر ایک دن، جہاز کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے گلناز نے اس زمین کو چھوڑ دیا، جس نے اسے صرف ذلت اور درد دیا تھا۔ وہ جرمنی پہنچ گئی، جہاں پروفیسر صاحب کے جرمن دوست پہلے ہی اس کے استقبال اور تحفظ کا انتظام کر چکے تھے۔ وہاں، کسی نے اس کے ماضی کو نہیں کریدھا، کسی نے اس کی آنکھوں میں چھپے اندھیرے نہیں ٹٹولے۔ اسے وہ پناہ مل گئی، جس کے لیے وہ برسوں سے ترس رہی تھی۔
کچھ سال بعد، اس نے جرمن زبان سیکھ لی۔ بیکری میں کام سیکھا، اور ہر اس ہنر کو اپنایا جو اسے باعزت روزگار دے سکتا تھا۔ اب وہ صبح سورج کی روشنی میں کھڑکی کھول کر سانس لیتی، تو اس سانس میں نہ کوئی بوجھ ہوتا، نہ کوئی خوف۔ وہ ایک عام عورت بن چکی تھی — ایسی عورت، جس کی عزت اس کے جسم سے نہیں، اس کی محنت سے جُڑی تھی۔
یہ گلناز کا دوسرا جنم تھا — جہاں نہ کوئی گناہ کا بدن تھا، نہ کسی کی ہوس بھری نظریں۔ وہاں صرف محنت کی خوشبو تھی، اور آنکھوں میں سکون کا وہ عکس، جسے صرف آزادی کا نور ہی بھر سکتا ہے۔