Beni and Shukro in Urdu Children Stories by Shay Amin books and stories PDF | بےنی اور شکرو

Featured Books
Categories
Share

بےنی اور شکرو

بےنی اور شکرو
 

بےنی، ایک ننھی سی بکری، اپنی ماں سے بچھڑ چکی تھی۔ جنگل کی ویران پگڈنڈیوں پر بھٹکتے ہوئے اس کی نازک ٹانگیں تھک چکی تھیں۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے، اور تنہائی کا خوف اس کے دل میں سرایت کر گیا تھا۔ بھوک کی شدت سے اس کا ننھا پیٹ مچل رہا تھا، مگر وہ اتنی چھوٹی تھی کہ خود سے گھاس بھی نہ کھا سکتی تھی۔ وہ مسلسل "ماں، ماں" پکارتے ہوئے جنگل میں سرگرداں تھی، مگر اس کی نحیف آواز درختوں کے پتوں میں دب کر رہ گئی تھی۔

تھکن سے نڈھال بےنی ایک جھاڑی کے قریب رُکی تو اس کی نظر ایک شیرنی پر پڑی۔ شیرنی گہری نیند میں تھی، اور اس کا بچہ اس کے پہلو سے لگا ہوا دودھ پی رہا تھا۔ بےنی کی نظریں شیرنی کے دودھ پر جم گئیں۔ بھوک کے مارے اس کے قدم خودبخود آگے بڑھنے لگے، مگر خوف نے اس کے دل کو جکڑ لیا۔

شیر کے بچے نے بےنی کو دیکھتے ہی غرانا شروع کر دیا۔ "تم کون ہو، اور یہاں کیا کر رہی ہو؟"

بےنی نے گھبرا کر مگر دھیمی آواز میں جواب دیا، "میرا نام بےنی ہے۔ میں اپنی ماں سے بچھڑ گئی ہوں، اور بہت بھوکی ہوں۔ کیا میں تھوڑا سا دودھ پی سکتی ہوں؟"

شیر کے بچے نے کچھ دیر سوچا، پھر ہلکے سے سر ہلایا۔ "ہاں، لیکن آہستہ سے!"

بےنی دھیرے سے آگے بڑھی اور شیرنی کے قریب بیٹھ کر دودھ پینے لگی۔ دودھ کا ذائقہ مختلف تھا، مگر بھوک نے اسے سب کچھ بھلا دیا۔

اچانک شیرنی کو کوئی غیرمعمولی حرکت محسوس ہوئی۔ اس کی آنکھیں کھلیں تو منظر دیکھ کر وہ چونک گئی۔ اس کا بچہ اور ایک اجنبی بکری کا بچہ دونوں اس کا دودھ پی رہے تھے! وہ فوراً غصے سے غرائی، "تم کون ہو؟"

بےنی نے خوفزدہ ہو کر سر جھکا لیا، "میں بےنی ہوں۔ میں بھوکی تھی..."

شیرنی نے سخت لہجے میں کہا، "جاؤ! اپنی ماں کا دودھ پیو!"

بےنی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولی، "لیکن آپ بھی تو ماں ہیں... اور سب مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ان کا دودھ کسی بھی بھوکے بچے کی بھوک مٹا سکتا ہے۔"

شیرنی کے تنے ہوئے عضلات ڈھیلے پڑ گئے۔ اس کی آنکھوں میں نرمی اتر آئی۔ وہ چند لمحے خاموش رہی، پھر آہستہ سے بولی، "ٹھیک ہے، پی لو... لیکن زیادہ شور مت کرنا، مجھے نیند آ رہی ہے۔"

بےنی نے ممنونیت بھری نظروں سے شیرنی کو دیکھا اور دوبارہ دودھ پینے لگی۔ دودھ کی گرمی اور تحفظ کے احساس نے جلد ہی اس کی آنکھیں موند دیں، اور وہ شیرنی کی نرم آغوش میں گہری نیند سو گئی۔

اگلی صبح بےنی نیند کی نرم وادی میں تھی جب اسے اپنے سر پر کسی کا لمس محسوس ہوا۔ نیند میں ہی اس نے کروٹ لی، مگر جیسے ہی آنکھیں کھولیں، سامنے کھڑے ایک بڑے شیر کو دیکھ کر اس کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ خوف کے مارے اس کا جسم ساکت ہو گیا، مگر جب اس نے غور سے شیر کی آنکھوں میں جھانکا، تو وہاں غصے کی جگہ ایک مانوس سی نرمی تھی۔

یہ وہی شیرنی تھی جس نے رات اسے دودھ پلایا تھا!

بےنی حیرت سے آنکھیں پوری طرح کھول چکی تھی کہ شیرنی نے نرم لہجے میں کہا، "میں اب شکار کے لیے جا رہی ہوں۔ تم دونوں جلدی سے دودھ پی لو۔" پھر وہ تھوڑا سا مسکرائی، "ویسے، میرا نام زبو ہے۔ تم مجھے ماں کہہ سکتی ہو۔ اور یہ میرا بیٹا شکرو ہے۔ آج سے تم دونوں دوست ہو، بلکہ بھائی بہن بھی۔"

بےنی کی آنکھوں میں حیرت اور خوشی ایک ساتھ چمکنے لگی۔ اس کے لیے یہ الفاظ کسی خواب سے کم نہ تھے۔

دودھ پینے کے بعد، زبو شکار کے لیے روانہ ہونے لگی، مگر جانے سے پہلے اس نے دونوں بچوں کو پیار سے تنبیہ کی، "صرف اپنے علاقے کے اندر ہی رہنا، باہر مت جانا۔"

جیسے ہی زبو نظروں سے اوجھل ہوئی، شکرو اور بےنی نے جنگل کو اپنی مستیوں کا میدان بنا لیا۔ بےنی شرارتی اور ذہین تھی، اور شکرو کو بھی نت نئے کھیل سکھانے میں ماہر تھی۔ وہ دونوں چھپن چھپائی کھیلتے، درختوں کے پیچھے چھپ کر ایک دوسرے کو ڈراتے، کبھی دوڑ لگاتے، تو کبھی پتے اُچھالتے۔

شکرو کے لیے یہ سب بالکل نیا تھا۔ اس نے ہمیشہ شیر کی طرح سنجیدگی اور وقار کا درس سنا تھا، مگر آج پہلی بار اسے احساس ہوا کہ زندگی میں ہنسی، مستی اور شرارتوں کے رنگ بھی ہوتے ہیں۔

بےنی کی ہنسی جنگل کی خاموش فضا میں جلترنگ کی طرح بکھرتی، اور شکرو کا دل خوشی سے بھر جاتا۔

جب زبو شکار سے واپس آتی، تو دونوں کو یوں کھیلتا دیکھ کر ایک اطمینان اس کے دل میں اتر جاتا۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے نہ صرف ایک بے سہارا بکری کے بچے کو پناہ دی ہے، بلکہ اپنے بیٹے کو ایک ایسا دوست بھی بخشا ہے جو اس کی زندگی میں خوشی کے نئے رنگ لے آیا ہے۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا، اور بےنی اور شکرو اب جوان ہو چکے تھے۔ جنگل کی ہوائیں، درختوں کی سرگوشیاں، اور دریا کے بہتے پانی کی آوازیں ان دونوں کی زندگی کا حصہ بن چکی تھیں۔

ایک دن، زبو نے بےنی کو غور سے دیکھا اور محبت بھرے لہجے میں پوچھا، "بیٹی، میں نے جنگل میں بہت سی بکریاں دیکھی ہیں، مگر ان سب کے سینگ اوپر کی طرف ہوتے ہیں۔ تمہارے سینگ سامنے کی طرف کیوں ہیں؟"

بےنی کچھ کہنے ہی والی تھی کہ شکرو نے بےساختہ بات کاٹتے ہوئے کہا، "ماں، یہ سینگ تو فضول ہیں، کسی کام کے نہیں!"

بےنی نے نرمی سے مسکرا کر جواب دیا، "نہیں، ایسا نہیں ہے، شکرو۔ اوپر والا کسی کو فضول چیز نہیں دیتا۔ ہو سکتا ہے کہ ہم ابھی نہ جانتے ہوں کہ میرے سینگ ایسے کیوں ہیں، مگر ان کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوگا۔"

زبو نے مسکراتے ہوئے شکرو کی طرف دیکھا اور کہا، "دیکھا، تمہاری بہن تم سے زیادہ سمجھدار ہے"

شکرو نے ہلکی سی ناراضی سے کہا، "لیکن ماں، میں اس سے زیادہ طاقتور ہوں۔"

زبو نے سنجیدگی سے بیٹے کی آنکھوں میں جھانکا اور نرم مگر مضبوط لہجے میں کہا، "ہاں، تم طاقتور ہو، اور اسی لیے تم پر زیادہ ذمہ داری بھی ہے۔ تمہیں اپنی طاقت کا صحیح استعمال کرنا ہوگا، اور اپنی بہن کی حفاظت کرنی ہوگی۔ اور ہاں، اب کچھ دنوں میں تم میرے ساتھ شکار پر چلو گے۔ وقت آ گیا ہے کہ تم اپنا شکار خود کرو۔"

ماں کی بات سن کر شکرو کے دل میں ایک عجیب سی لہر دوڑ گئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس نے واقعی محسوس کیا کہ وہ اب بچہ نہیں رہا۔ زندگی نے اس کے کندھوں پر ایک نئی ذمہ داری ڈال دی تھی۔

اس نے بےنی کی طرف دیکھا، جو اب بھی اپنے سینگوں کے بارے میں گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ شکرو نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، وہ ہمیشہ اپنی بہن کا محافظ بنے گا۔

ماں کے جانے کے بعد، بےنی اور شکرو کھیلتے کھیلتے ندی پار کر گئے۔ شکرو جوش سے آگے آگے دوڑ رہا تھا، اور بےنی اس کے پیچھے ہنستی ہوئی آ رہی تھی۔ مگر اچانک بےنی کے قدم رُک گئے۔ ایک خوف کی لہر اس کے بدن میں دوڑ گئی۔

یہ جگہ اجنبی لگ رہی تھی۔ درختوں کی شاخیں زیادہ گھنی تھیں، ہوا میں ایک عجیب سی وحشت تھی، اور سب سے بڑھ کر—یہ علاقہ زبو کے مقرر کردہ حدود سے باہر تھا!

بےنی کے دل نے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ "شکرو، رُک جاؤ!" اس نے گھبرا کر پکارا، مگر شکرو مستی میں بہت آگے نکل چکا تھا۔

اچانک، بےنی کو محسوس ہوا کہ جھاڑیوں میں کوئی موجود ہے۔ وہ خوف سے پیچھے ہٹی، لیکن اگلے ہی لمحے ایک بھیانک گرج سنائی دی—جھاڑیوں سے ایک قوی الجثہ شیر نمودار ہوا۔

یہ چارک تھا۔

چارک، جو جنگل کا سب سے بے رحم اور ظالم شیر تھا، جو نہ کسی قانون کو مانتا تھا اور نہ کسی رحم کو۔ اس کی آنکھوں میں بھوک اور درندگی کی چمک تھی۔ جیسے ہی وہ بےنی کی طرف لپکا، بےنی گھبرا کر شکرو کی جانب بھاگی، مگر چارک اس کے قریب آ چکا تھا۔

تبھی، ایک دھاڑ سنائی دی—اور ایک جوان شیر بےنی اور چارک کے درمیان آ کھڑا ہوا۔

"تم کون ہو، اور میرے شکار کے بیچ میں کیوں آئے ہو؟" چارک نے غصے سے زمین پر پنجہ مارتے ہوئے گرج کر کہا۔

شکرو نے بغیر کسی خوف کے کہا، "میں شکرو ہوں۔ یہ میری بہن ہے، اور اس کی حفاظت میری ذمہ داری ہے۔"

چارک طنزیہ ہنسا، "اوہ، تو تم زبو کے بیٹے ہو؟ لیکن کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم میرے علاقے میں ہو؟ یہاں میرا حکم چلتا ہے! اگر تمہیں اسے بچانا ہے، تو تمہیں مجھ سے مقابلہ کرنا ہوگا!"

یہ کہتے ہی چارک اور شکرو میں خوفناک جنگ چھڑ گئی۔ دونوں شیر ایک دوسرے پر جھپٹے، پنجوں اور دانتوں کی ٹکر سے جنگل گونج اٹھا، اور گردوغبار ہوا میں بلند ہونے لگا۔ بےنی جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر یہ سب دیکھ رہی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو چکی تھیں، مگر وہ بے بس تھی۔

اچانک، بےنی نے دیکھا کہ چارک نے شکرو کی گردن اپنے مضبوط جبڑوں میں دبوچ لیا ہے۔ شکرو کی سانسیں رکنے لگیں، اور اس کی طاقت کمزور پڑ گئی۔ چارک اس کی گردن توڑنے ہی والا تھا۔

بےنی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ خوف، بے بسی، اور غصے نے اسے جکڑ لیا۔ مگر پھر اچانک اسے اپنے سینگوں کا خیال آیا

"یہ فضول نہیں ہیں!" بےنی کے اندر ایک زبردست قوت جاگی۔

ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر، اس نے پوری قوت سے بھاگ کر اپنے نوکیلے سینگ پوری طاقت سے چارک کے پیٹ میں گھونپ دیے۔

"آااہاہا!" چارک کی بھیانک چیخ جنگل میں گونج اٹھی۔ وہ درد سے بلبلا کر پیچھے ہٹا، اس کے جبڑے ڈھیلے پڑ گئے، اور شکرو آزاد ہو گیا۔ چارک چند لمحے غصے اور تکلیف میں تڑپتا رہا، پھر بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔

جنگل میں خاموشی چھا گئی۔

بےنی کانپ رہی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں ایک نئی روشنی تھی۔ شکرو نے کمزوری سے سر اٹھایا اور حیرت سے اپنی بہن کو دیکھا۔

آج بےنی نے ثابت کر دیا تھا کہ طاقت صرف پنجوں میں نہیں، ہمت اور عقل میں بھی ہوتی ہے۔

چارک کو بے ہوش چھوڑ کر، بےنی اور شکرو واپس اپنے علاقے کی طرف چل پڑے۔ جنگل میں ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی، پرندے اپنی بولیوں میں کچھ سرگوشیاں کر رہے تھے، اور سورج ڈھلنے کو تھا۔

اچانک، بےنی کے قدم رک گئے۔

"کیا ہوا؟ تم کیوں رک گئیں؟" شکرو نے حیرت سے پوچھا۔

بےنی نے گہری سوچ میں ڈوبی آواز میں کہا، "اگر چارک کو مدد نہ ملی، تو وہ مر جائے گا۔"

شکرو نے کندھے اچکائے، "لیکن وہ ہمارا دشمن تھا"

بےنی نے نرمی سے جواب دیا، "ہم نے اس سے جنگ اپنی حفاظت کے لیے کی تھی، انتقام کے لیے نہیں۔ ہمیں اس کی جان بچانی چاہیے۔"

شکرو نے کچھ سوچا، پھر بولا، "تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟"

بےنی نے زمین کو سونگھنا شروع کیا، جیسے کسی خاص چیز کی تلاش میں ہو۔ پھر وہ تیزی سے ایک طرف بڑھی اور جاتے جاتے کہہ گئی، "تم یہیں رکو، میں ابھی آتی ہوں۔"

شکرو نے بےنی کی بات مانی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جب وہ کسی بات کا فیصلہ کر لے، تو اسے روکنا ناممکن ہے۔

کچھ دیر بعد بےنی واپس آئی، تو اس کے منہ میں ایک خاص جڑی بوٹی تھی۔ اس نے اشارے سے شکرو کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ دونوں دوبارہ چارک کے پاس پہنچے، جو ابھی تک بے ہوش پڑا تھا۔

بےنی نے پودا زمین پر رکھا اور کہا، "میں اس پودے کو چبا کر تمہارے پنجے پر رکھوں گی، اور تم اسے چارک کے زخموں پر لگا دینا۔"

شکرو نے ناگواری سے کہا، "یہ تو بہت گندا لگ رہا ہے"

بےنی نے مسکرا کر کہا، "دوستی اور دشمنی کے درمیان ایک فرق ہوتا ہے، شکرو۔ دشمنی میں عقل استعمال نہ کی جائے، تو وہ ظلم بن جاتی ہے۔"

شکرو نے خاموشی سے سر ہلایا اور بےنی کے کہنے پر عمل کیا۔ جیسے ہی اس نے پودے کا لیپ چارک کے زخموں پر لگایا، کچھ ہی دیر میں وہ کراہتے ہوئے ہوش میں آ گیا۔

چارک نے نیم باز آنکھوں سے دیکھا کہ وہی دو بچے، جنہیں وہ اپنا شکار بنانا چاہتا تھا، اس کی جان بچانے میں لگے تھے۔ وہ حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا، پھر آہستہ سے بولا، "تم نے میری مدد کیوں کی؟"

بےنی نے نرمی سے کہا، "زندگی ایک امانت ہے، اور ہمیں ہر امانت کا خیال رکھنا چاہیے۔"

چارک خاموش ہو گیا۔ پھر اس نے قدرے سنجیدگی سے کہا، "آج کے بعد، یہ علاقہ تم دونوں کا بھی ہے۔"

شکرو نے بےنی کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا، "دیکھا، نیکی کا بدلہ نیکی"

بےنی نے ہنستے ہوئے کہا، "اور ہاں، میرے سینگ فضول نہیں ہیں!"

شکرو نے فوراً ہاتھ جوڑ کر کہا، "بس! ماں کو کچھ مت بتانا"

بےنی نے سر ہلا کر کہا، "نہیں، ہمیں سچ بولنا چاہیے۔ اگر ماں سزا دے گی، تو ہمیں قبول کرنا ہوگا۔"

شکرو نے حیرت سے پوچھا، "لیکن تمہیں علاج کا طریقہ کیسے معلوم ہوا؟"

بےنی نے مسکراتے ہوئے کہا، "جب کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، تو اگر وہ لڑکا ہو، تو اوپر والا اسے روح دیتا ہے، لیکن اگر وہ لڑکی ہو، توروح کے ساتھ کچھ علم بھی عطا کرتا ہے۔ اسی لیے لڑکیوں کو بہت سی چیزیں سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ انہیں محسوس کر لیتی ہیں۔"

شام کو جب زبو واپس آئی، تو دونوں نے ساری حقیقت سچ سچ بیان کر دی اور خاموشی سے سزا کے لیے تیار ہو گئے۔ مگر زبو نے انہیں حیرت میں ڈال دیا۔

"تم دونوں نے نہ صرف ایک دوسرے کی حفاظت کی، بلکہ اپنے دشمن کی بھی جان بچائی۔ تم نے ثابت کر دیا کہ طاقت کے ساتھ رحم دلی بھی ضروری ہے۔ میں تم دونوں پر فخر کرتی ہوں۔" زبو نے شفقت بھری نظروں سے کہا۔

بےنی اور شکرو ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دیے۔ آج انہوں نے سیکھا تھا کہ اصل بہادری صرف لڑنے میں نہیں، بلکہ دوسروں کی مدد کرنے میں بھی ہوتی ہے۔

اگلی صبح جب سورج اپنی سنہری کرنیں پہاڑوں پر بکھیر رہا تھا، زبو نے اپنے بچوں، شکرو اور بےنی کو اپنے پاس بلایا۔ زبو نے بڑے فخر سے شکرو کی طرف دیکھا اور کہا، "اب وقت آ گیا ہے کہ تم شکار کرنا سیکھو! آج تم میرے ساتھ جنگل چلو گے، اور میں تمہیں بہادر شکاری بننے کے سب راز سکھاؤں گی!"

یہ سن کر شکرو خوشی سے اچھل پڑا! اس نے فوراً ایک زبردست شکاری والی چالاکی بھری شکل بنائی اور اکڑ کر کھڑا ہو گیا، "میں بالکل تیار ہوں، امی!"

زبو نے بےنی کی طرف دیکھا، جو گھاس پر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی، اور مسکرا کر کہا، "اور تم، میری پیاری، تمہیں یاد رکھنا ہے کہ ہماری حدود سے باہر نہیں جانا۔ یہاں تم بالکل محفوظ ہو۔

بےنی نے فوراً سر ہلا دیا اور سنجیدگی سے کہا، "جی ماں! میں کہیں نہیں جاؤں گی۔" پھر تھوڑی دیر بعد وہ گھاس میں لیٹ کر آسمان پر بادلوں کی شکلیں دیکھنے لگی۔

جب زبو اور شکرو جنگل کی طرف روانہ ہوئے، تو بےنی نے انہیں جاتے ہوئے دیکھا۔ پہلے پہل، اسے تھوڑا سا ڈر محسوس ہوا، کیونکہ وہ پہلی بار اپنے بھائی کے بغیر تھی۔ لیکن پھر اس نے اپنے آپ سے کہا، "میں زبو کی بیٹی ہوں! میں کیوں ڈروں؟" اور بہادری سے جھاڑیوں میں گھومنے پھرنے لگی۔

مگر…! جنگل کے گھنے سائے میں، ایک چالاک لومڑی چھپی ہوئی تھی، جو کافی دیر سے بےنی کو دیکھ رہی تھی۔ لومڑی نے اپنی دم ہلائی اور زیرِ لب مسکرا کر بولی، "یہ اکیلی ہے؟ ارے واہ! یہ تو میرے لیے مزے دار نوالہ ہو سکتی ہے… لیکن اکیلے میں کچھ نہیں کر سکتی، مجھے مدد لینی پڑے گی۔"

لومڑی جلدی سے جنگل کے چار لگڑبگڑوں کے پاس پہنچی، جو ایک پرانے درخت کے نیچے بیٹھے ہڈیاں چبانے میں مصروف تھے۔ لومڑی نے چالاکی سے آنکھیں گھمائیں اور بولی، "ارے دوستو! تم ہمیشہ پرانے شکار کے بچے کھچے حصے کھاتے رہتے ہو… کیوں نہ آج کچھ تازہ اور مزیدار کھانے کا مزہ لیا جائے؟"

لگڑبگڑوں نے فوراً کان کھڑے کر دیے اور جوش سے پوچھا، "کیا مطلب؟ کیا ہمارے لیے کوئی زبردست شکار ہے؟"

لومڑی نے آنکھ ماری اور بولی، "بالکل! اگر تم میرا ساتھ دو، تو ہم ایک نرم و ملائم، تازہ اور مزے دار شکار کر سکتے ہیں!"

لگڑبگڑوں کی آنکھیں چمک اٹھیں، "ہم تمہیں شکار میں سب سے بڑا حصہ دیں گے، بس ہمیں جلدی بتاؤ!"

لومڑی نے شرارت سے مسکرا کر بےنی کی طرف اشارہ کیا، "وہ دیکھو! زبو کی پیاری چھوٹی بچی! آج وہ اکیلی ہے۔"

لگڑبگڑوں میں سے ایک نے گھبرا کر کہا، "یہ زبو کا علاقہ ہے! اگر اس نے ہمیں یہاں دیکھ لیا تو ہم سب کی خیر نہیں!"

لومڑی نے مزے سے کہا، "ارے بزدلو! زبو اور شکرو دونوں جنگل میں ہیں، وہ شام سے پہلے نہیں آئیں گے۔ ہمیں فوراً کارروائی کرنی ہوگی!"

یہ سن کر لگڑبگڑوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور سر ہلا دیا، "ٹھیک ہے، چلتے ہیں!"

ادھر بےنی بےخبر تھی کہ خطرہ اس کے قریب آ رہا ہے۔

لیکن جیسے ہی اس نے کچھ آہٹ سنی، اس کے کان کھڑے ہوگئے۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا، اور سامنے چار لگڑبگڑ اور لومڑی کو دیکھ کر اس کا دل زور سے دھڑکنے لگا!

مگر بےنی کوئی معمولی بکری نہیں تھی! اس نے فوراً اپنی ماں کی بات یاد کی کہ "ہمیشہ بہادر رہو!"

اس نے اپنی چھوٹی مگر تیز آواز میں للکارا، "خبردار! تم زبو  ماں کے علاقے میں ہو! فوراً واپس جاؤ، ورنہ میری ماں تمہیں سبق سکھائے گی!"

مگر لگڑبگڑ اور لومڑی کہاں رکنے والے تھے! بےنی نے جلدی سے سوچا، "اگر میں ان سے مقابلہ کروں تو میں ہار جاؤں گی، کیونکہ یہ پانچ ہیں اور میں اکیلی… مجھے ہوشیاری سے کام لینا ہوگا!"

بےنی نے تیزی سے اپنی پتلی ٹانگوں کو حرکت دی اور بجلی کی رفتار سے بھاگ پڑی! وہ سیدھی چارک کے علاقے میں جا پہنچی، جو اس کا مضبوط اور بہادر دوست تھا۔

بےنی نے زور زور سے آوازیں دیں، "چارک! چارک! مدد کرو!"

مگر… اوہ نہ! چارک تو شکار پر جا چکا تھا!

بےنی کی سانسیں تیز ہو رہی تھیں، اور پیچھے شکاری تیزی سے قریب آ رہے تھے۔

ندی کی طرف بھاگتے ہوئے بےنی کے دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی۔ وہ اپنی چھوٹی مگر تیز ٹانگوں کو حرکت دیتی رہی، مگر لگڑبگڑ اور لومڑی اس کے پیچھے تھے! "میں زبو کی بیٹی ہوں! مجھے ہار نہیں ماننی!" اس نے اپنے آپ سے کہا۔

پانی کے قریب پہنچ کر اس نے جلدی سے ایک فیصلہ کیا— چھلانگ لگا دی!

 وہ سیدھی ندی کے تیز بہاؤ میں جا گری! ٹھنڈا پانی اس کے ارد گرد گھومنے لگا، جیسے ندی خود اسے کہہ رہی ہو، "آہا! تم یہاں کیسے آئی، ننھی بکری؟"

بےنی نے گھبرا کر اپنی ماں اور بھائی کو پکارا، "امی! شکرو! مجھے بچاؤ!" لیکن ندی کے شور میں اس کی آواز دب کر رہ گئی۔

اُدھر شکاری کنارے پر کھڑے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ایک لگڑبگڑ نے ادھر ادھر دیکھا اور بولا، "اب؟ اب کیا کریں؟"

لومڑی نے خفگی سے کہا، "بیوقوفو! وہ خود ہی بہہ گئی! اب تو مفت میں ہاتھ سے نکل گئی!"

مگر بےنی کے لیے مشکل ابھی ختم نہیں ہوئی تھی! ندی کا بہاؤ اسے آگے لیے جا رہا تھا، اور اچانک…

سامنے ایک بہت بڑا آبشار

"اوہ نہ! اگر میں اس میں گری تو ختم!" بےنی نے خود کو روکنے کی کوشش کی، مگر پانی بہت تیز تھا۔

وہ گر رہی تھی

مگر… ہائے خوش قسمتی! وہ سیدھی ایک چکنی، چمکدار چٹان پر گری، جو ایک لمبی سلائیڈ کی طرح تھی!

وووووووہووووو۔۔۔ بےنی سرکتی چلی گئی، جیسے کوئی مزے دار جھولا ہو

"یہ تو مزہ آ گیا!" اس نے حیرت سے سوچا، مگر… اوہ! آگے پھر پانی تھا۔

بےنی دوبارہ پانی میں گری، اور اب وہ واقعی گھبرا گئی۔ "مجھے بچنا ہوگا! میں ڈوب نہیں سکتی!

اچانک، اسے اپنی ماں کی بات یاد آئی:

"یاد رکھو، بچے! ماں باپ ہمیشہ ساتھ نہیں ہوتے، اس لیے بچوں کو خود کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے!"

یہ سوچ کر بےنی نے اپنی ٹانگیں زور سے چلائیں، اپنی گردن سیدھی رکھی، اور جتنی طاقت تھی، ندی کے کنارے کی طرف تیرنے لگی۔

"میں کر سکتی ہوں! میں کر سکتی ہوں!"

اور آخر کار…

دھپ! وہ کنارے پر پہنچ گئی "میں بچ گئی"

بےنی نے خود کو پانی سے نکالا، کانپتی ہوئی کھڑی ہوئی، اور ادھر ادھر دیکھا۔ "مگر… اب میں گھر کیسے جاؤں؟"

اس نے پہاڑوں کی طرف دیکھا، جہاں اس کا گھر تھا، مگر…

اوہ نہ! وہ جس جگہ پہنچی تھی، وہاں سے واپس جانا ناممکن تھا!

"اب کیا کروں؟" بےنی نے سوچا۔

وہ ایک راستے کا اندازہ لگا کر چلنے لگی، مگر…

اوہ اوہ! وہ غلط سمت جا رہی تھی

شام ڈھل رہی تھی۔ سنہری دھوپ پہاڑوں کے پیچھے چھپ رہی تھی، اور جنگل میں رات کے سائے پھیل رہے تھے۔ زبو اور شکرو شکار سے واپس آ رہے تھے۔

شکرو کا دل خوشی سے جھوم رہا تھا، "واہ! میں نے آج پہلا شکار کیا! بےنی کو سنانے کے لیے کتنی زبردست کہانیاں ہیں!" وہ اپنی بہن کو اپنی بہادری کی داستانیں سنانے کے لیے بےتاب تھا۔

مگر زبو کے دل میں عجیب سی بےچینی تھی۔ "کہیں بےنی کو کچھ ہوا تو نہیں؟" اس نے دعا کی کہ اس کی بیٹی محفوظ ہو۔ جیسے ہی وہ اپنے گھر کے قریب پہنچے، زبو نے اونچی آواز میں پکارا، "بےنی! ہم واپس آ گئے ہیں!"

مگر… خاموشی!

شکرو کی مسکراہٹ فوراً غائب ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں خوف چھا گیا، "ماں، بےنی کہاں ہے؟"

زبو نے خود کو تسلی دی، "شاید وہ کہیں کھیل رہی ہو۔ آؤ، اسے ڈھونڈتے ہیں!"

انہوں نے ہر جگہ تلاش شروع کی—درختوں کے پیچھے، جھاڑیوں میں، پانی کے کنارے، مگر بےنی کہیں نہیں تھی!

"ماں، اگر بےنی کو کچھ ہو گیا تو؟" شکرو کی آواز کانپنے لگی۔

زبو نے اسے گلے لگایا اور کہا، "نہیں، بےنی ہوشیار ہے۔ وہ ضرور کہیں محفوظ ہوگی۔" مگر اس کا دل دھڑک رہا تھا۔

جب بےنی کہیں نہ ملی، تو زبو اور شکرو سیدھا چارک کے پاس گئے

چارک نے انہیں آتے دیکھا تو حیران ہوا، "ارے، تم دونوں کیوں پریشان ہو؟"

زبو نے جلدی سے کہا، "چارک! ہماری بےنی غائب ہو گئی ہے! کیا تم نے اسے دیکھا؟"

چارک نے سر ہلایا، "نہیں، میں تو ابھی شکار سے واپس آیا ہوں، لیکن… مجھے اپنے علاقے میں لگڑبگڑوں کے قدموں کے نشان نظر آئے تھے!"

"لگڑبگڑ؟!" زبو اور شکرو ایک ساتھ چلائے۔

چارک نے سنجیدگی سے کہا، "ہاں، شاید وہ بےنی کو اپنے ساتھ لے گئے ہوں!"

یہ سنتے ہی زبو کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ زمین پر بیٹھ گئی اور خود کو کوسنے لگی، "یہ سب میری غلطی ہے! اگر میں شکرو کو ساتھ نہ لے جاتی، تو بےنی محفوظ ہوتی!"

مگر اچانک زبو ایک دم غصے سے اٹھی، اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ان لگڑبگڑوں کو سزا دلواؤں گی!"

وہ تینوں جنگل کی عدالت کی طرف بھاگے۔

عدالت کے دروازے پر ایک بہت بڑی گھنٹی لگی تھی۔

ڈن! ڈن! ڈن!

ڈن! ڈن! ڈن!

یہ سن کر جنگل میں ہلچل مچ گئی۔ سب جانور جاگ گئے۔ پرندے چونچ میں چراغ جلانے لگے، بندر درختوں سے جھانکنے لگے، اور کچھوے تک بھاگتے ہوئے عدالت کی طرف جانے لگے (ہاں، وہ بہت آہستہ تھے، مگر پھر بھی بھاگ رہے تھے)!

چند ہی لمحوں میں، جنگل کی عدالت میں بہت بڑا ریچھ اپنے غار سے باہر آیا۔ وہ جنگل کا منصف تھا!

اس نے زور سے دھاڑ کر پوچھا، "رات کے وقت کس کو انصاف چاہیے؟"

"ایک ماں کو!" زبو نے کہا، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

"ایک بھائی کو!" شکرو نے کہا، اس کا دل دھڑک رہا تھا۔

"ایک دوست کو!" چارک نے کہا، اس کی آواز گونج رہی تھی۔

جنگل میں خاموشی چھا گئی۔

جنگل کی عدالت میں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ زبو کی آنکھوں میں آنسو تھے، اور اس کی آواز میں درد بھرا ہوا تھا۔

"میرا نام زبو ہے، اور میری بیٹی بےنی غائب ہے!"

ریچھ، جو جنگل کا منصف تھا، گہری آواز میں بولا، "بےنی کون ہے؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ تمہارا ایک ہی بچہ ہے، شکرو۔"

زبو نے غصے اور غم سے کہا، "بےنی میری لے پالک بیٹی ہے، میں نے اسے اپنا دودھ پلایا ہے، اسے اپنی جان سے زیادہ چاہتی ہوں۔ چاہے تم اسے مانو یا نہ مانو، وہ میری بیٹی ہے!"

منصف نے سنجیدگی سے سر ہلایا، "عدالت سمجھ گئی۔ اب بتاؤ، تمہارے خیال میں بےنی کو کس نے نقصان پہنچایا؟"

"لگڑبگڑوں نے!" زبو نے یقین سے کہا، "ہم نے ان کے قدموں کے نشانات بےنی کی گمشدگی کے مقام کے قریب دیکھے ہیں!"

ریچھ نے گیدڑوں کو حکم دیا، "لگڑبگڑوں کو فوراً عدالت میں پیش کیا جائے!"

کچھ ہی دیر میں چاروں لگڑبگڑوں کو عدالت میں لایا گیا۔ وہ بے فکر اور مغرور لگ رہے تھے، جیسے انہیں کوئی فکر ہی نہ ہو!

ریچھ نے غصے سے پوچھا، "کیا تم نے بےنی کا شکار کیا ہے؟

لگڑبگڑ ایک ساتھ بولے، "ہم نے کوئی جرم نہیں کیا! ہم صرف غلطی سے چارک کے علاقے میں داخل ہو گئے تھے۔ اگر زبو، شکرو، یا چارک کے پاس کوئی ثبوت ہے، تو پیش کریں!"

عدالت میں سب جانور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ زبو، شکرو اور چارک کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا!

لگڑبگڑوں نے چالاکی سے کہا، "اگر ثبوت نہیں ہے، تو کوئی چشم دید گواہ ہی پیش کرو۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی نے ہمیں بےنی کا پیچھا کرتے نہیں دیکھا ہوگا!"

زبو کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ بے بسی سے بولی، "میرے پاس کوئی گواہ نہیں ہے… مگر! اگر کوئی اس واقعے کے بارے میں جانتا ہے، تو خدا کے لیے بتائے! آج جو میرے بچے کے ساتھ ہوا ہے، وہ کل کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے! ہمیں مل کر ظلم کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

عدالت میں ایک لمحے کی خاموشی چھا گئی۔

درخت کی ایک اونچی شاخ پر بیٹھا دانا اُلو اپنا چشمہ ٹھیک کر رہا تھا۔ اس نے سنجیدگی سے کہا، "میں نے سب کچھ دیکھا ہے! میں اس وقت درخت پر بیٹھا تھا جب بے لومڑی لگڑبگڑوں کو اگسا رہی تھی کہ بےنی کا شکار کیا جائے!"

عدالت میں چونکا دینے والی سرگوشیاں گونجنے لگیں۔ سب جانور الو کی طرف دیکھنے لگے۔

منصف ریچھ نے گرج دار آواز میں کہا، "عدالت میں ایک اور ملزم کا نام سامنے آ چکا ہے! بے لومڑی کو فوراً پیش کیا جائے!"

کچھ ہی دیر میں چالاک بے لومڑی کو عدالت میں لایا گیا۔ مگر وہ اپنی مکاری سے باز نہ آئی۔

"مجھے غلط الزام میں پھنسایا جا رہا ہے!" بے لومڑی نے چلاتے ہوئے کہا، "میں نے کچھ نہیں کیا!"

اتنے میں، ایک بڑا سانپ آہستہ آہستہ زمین سے بلند ہوا اور بولا،

"میں بھی گواہی دینا چاہتا ہوں!"

سب جانور دم سادھ کر سانپ کی طرف دیکھنے لگے۔

"میں زبو کے علاقے کے قریب سو رہا تھا، جب میں نے لگڑبگڑوں کو بے لومڑی کی قیادت میں زبو کے علاقے میں داخل ہوتے دیکھا!"

اب لگڑبگڑوں کے چہروں پر خوف طاری ہونے لگا، مگر وہ اپنی مکاری سے باز نہیں آئے۔

"ہاہاہا! اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم نے بےنی کو نقصان پہنچایا ہو!" ایک لگڑبگڑ نے بے شرمی سے جواب دیا۔

"میں بھی گواہی دینا چاہتا ہوں!"

یہ آواز کوا کی تھی، جو درخت کی چوٹی پر بیٹھا تھا۔

"میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لگڑبگڑ اور بے لومڑی، بےنی کا پیچھا کر رہے تھے! جب بےنی چارک کے علاقے میں داخل ہوئی، تو اس نے مدد کے لیے چارک کو آواز دی!"

یہ سنتے ہی عدالت میں ہلچل مچ گئی!

بے لومڑی نے چالاکی سے بات پلٹنے کی کوشش کی، "یہ سچ ہے کہ ہم نے بےنی کا پیچھا کیا، مگر جب وہ چارک کے علاقے میں داخل ہوئی، تو ہمیں ڈر لگا اور ہم وہاں سے بھاگ گئے!"

جنگل کی عدالت میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

"میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بے لومڑی اور لگڑبگڑوں کی وجہ سے بےنی پانی کی طرف چلی گئی۔"

یہ الفاظ کچھوے کے تھے، جس نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔

"بےنی نے خود کو بچانے کی کوشش کی، لیکن پانی کا تیز ریلا اسے بہا لے گیا!"

یہ سنتے ہی زبو کا دل ٹوٹ گیا!

"نہیں!!!"

وہ زمین پر گر پڑی، اس کی آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

شکرو اور چارک نے فوراً اسے سہارا دیا۔

"ماں! ہمت رکھو!" شکرو نے کانپتی آواز میں کہا۔

زبو نے آنسو بھری آنکھوں سے عدالت کی طرف دیکھا اور فریاد کی، "اب تو ثابت ہو چکا ہے کہ لگڑبگڑوں اور بے لومڑی نے میرے بچے کو مجھ سے چھین لیا! براہ کرم، انہیں سخت سزا دی جائے!"

لگڑبگڑوں کے پاس اب کوئی بہانہ نہیں بچا تھا۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔

بے لومڑی کے ہونٹ کانپ رہے تھے، مگر وہ کچھ نہ بول سکی۔

ریچھ نے اپنی بھاری آواز میں کہا، "لگڑبگڑوں کو ان کے جرم کی سزا کے طور پر ۱۰۰ کوڑے مارے جائیں گے، اور بے لومڑی کو ۲۰۰ کوڑے دیے جائیں گے!"

لیکن زبو کا دل اب بھی خالی تھا…

رات کا اندھیرا چھا چکا تھا۔

جنگل میں سب جانور اپنے گھروں کو جا چکے تھے، مگر زبو کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان نہ تھا۔

وہ ساری رات دریا کی طرف دیکھتی رہی۔

شاید اس کا بچہ کسی طرح واپس آ جائے؟

شکرو نے اپنی ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھا، "ماں، کیا تم رات بھر جاگتی رہی ہو؟"

زبونے آہستہ سے کہا، "جب بچہ گھر سے باہر ہو، تو ماں کو کیسے نیند آئے گی؟"

شکرو نے اپنی ماں کو تسلی دی، "ماں، ہمیں امید نہیں ہارنی چاہیے! بےنی بہادر ہے، اور ہم اسے ضرور ڈھونڈ نکالیں گے!"

اچانک، صبح کے وقت، چارک دوڑتا ہوا آیا!

"زبو! شکرو! میں نے جنگل کے دوسرے جانوروں سے بات کی ہے! وہ سب ہماری مدد کے لیے تیار ہیں! ہم مل کر بےنی کو ڈھونڈ نکالیں گے!"

زبو کی آنکھوں میں ایک امید کی چمک آئی۔

"ہاں! ہم بےنی کو ضرور ڈھونڈیں گے!"

سب جانور اکٹھے ہوئے!

 ہاتھی نے درختوں کو ہلا کر راستہ بنایا۔

 عقاب نے اوپر سے جنگل کے کناروں کو دیکھا۔

 سانپ نے درختوں کے نیچے جا کر چھپے راستے تلاش کیے۔

صبح سے شام ہو چکی تھی…

باقی جانور تھک کر اپنے گھروں کو واپس جا چکے تھے۔

زبو بھی تھکے قدموں سے واپس آئی، مگر اس کے دل میں ایک دعا تھی:

"میرا بچہ جہاں کہیں بھی ہو، خوش رہے…

 

دوسری جانب، بےنی گھر کا غلط راستہ لینے کی وجہ سے اور دور نکل گئی تھی۔ شام گہرا ہو رہا تھا، اور جنگل میں تاریکی چھا گئی۔ بےنی نے ایک محفوظ جگہ ڈھونڈی اور وہاں رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ وہ ایک بہادر بچی ہے اور اگلے دن اپنے ماں اور بھائی کو تلاش کرے گی۔

اگلے دن، بےنی نے اپنی تلاش جاری رکھی، لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔ ایک اور دن گزر گیا، اور اب بےنی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس طرف چلے۔ وہ تھک چکی تھی اور گھبراہٹ محسوس کر رہی تھی۔

تیسرے دن، بےنی نے ایک وسیع میدان میں بہت سی بکریوں کو کھاتے ہوئے دیکھا۔ اس نے سکھ کا سانس لیا، کیونکہ اسے اپنے جیسے بکریاں مل گئی تھیں۔ وہ خوشی سے ان کے قریب پہنچی، لیکن جیسے ہی بکریوں نے اسے دیکھا، وہ سب بھاگنے لگے۔

بےنی نے انہیں آواز دی، "رکو! میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گی!" لیکن کوئی نہیں رکا۔ ایک بوڑھی بکری، جو زیادہ عمر کی وجہ سے تیزی سے نہیں بھاگ سکتی تھی، پیچھے رہ گئی۔ بےنی اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔

بوڑھی بکری نے ڈرتے ہوئے کہا، "مجھے مت کھاؤ، میں تمہاری دادی کے عمر کی ہوں۔"

بےنی نے حیرت سے جواب دیا، "میں تمہیں کیسے کھا سکتی ہوں؟ میں تو ایک بکری ہوں۔"

بوڑھی بکری نے کہا، "مگر تم تو شکاری کی بو آرہی ہو۔"

بےنی نے جواب دیا، "ہاں، کیونکہ میری ماں زبو شیرنی ہے۔"

بوڑھی بکری نے سمجھداری سے کہا، "ہاں، کوئی تمہیں اپنا نہیں بنا سکتا۔ اس لیے تم یہاں سے چلے جاؤ۔"

بےنی نے جب بوڑھی بکری کی بات سنی تو اس کا دل بیٹھ گیا۔ "کوئی مجھے قبول نہیں کرے گا؟" اس نے خود سے کہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، مگر اس نے جلدی سے انہیں صاف کیا۔ "نہیں، میں کمزور نہیں ہوں! میری ماں زبو ہمیشہ کہتی تھی کہ بہادر وہی ہوتا ہے جو ہار نہ مانے!"

وہ بکریوں کے میدان سے نکل کر آگے چل پڑی۔ جنگل پہلے سے زیادہ سنسان لگ رہا تھا۔ درختوں کے سائے لمبے ہو چکے تھے، اور پتوں کے بیچ سے عجیب آوازیں آ رہی تھیں۔ بےنی کو ایک لمحے کے لیے ڈر محسوس ہوا، لیکن اس نے خود کو حوصلہ دیا۔

اچانک، بےنی کے سامنے ایک جوان بکرا آ گیا۔ بےنی نے حیرت سے پوچھا، "تم کون ہو اور میرا پیچھا کیوں کر رہے ہو؟"

جوان بکرے نے جواب دیا، "میرا نام غمی ہے۔ میں نے تمہیں دیکھا تو سوچا کہ شاید تمہیں مدد کی ضرورت ہو۔"

 

بےنی نے حیرت سے کہا، "مجھ میں شیر کی بو آتی ہے، اس لیے سب بکرے مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ تم میرے پاس کیسے کھڑے ہو؟"

غمی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "کوویڈ کی وجہ سے، میں سونگھ نہیں سکتا۔ اس لیے مجھے تمہاری بو کا پتہ نہیں چلتا۔"

بےنی نے ہنس کر کہا، "اس لیے تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا۔"

غمی نے بےنی سے پوچھا، "کیا تم میرے ساتھ رہ سکتی ہو؟ میں تنہا ہوں، اور تمہارے ساتھ رہنا پسند کروں گا۔"

بےنی نے سوچا اور پھر کہا، "ایک شرط پر۔ اگر تم میرے بھائی اور ماں کو میرے ساتھ تلاش کرنے میں مدد کرو گے، تو میں تمہارے ساتھ رہ سکتی ہوں۔"

غمی نے فوراً جواب دیا، "ٹھیک ہے، مجھے منظور ہے۔ میں تمہاری مدد کروں گا۔"

وقت گزرتا گیا۔ ایک دن، جب سورج کی کرنیں دھیرے دھیرے افق پر پھیل رہی تھیں، بہت سے بکرے ایک وسیع میدان میں خوشی سے گھاس چرتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ان کی چپ چپ آوازوں میں ایک سکون تھا، جیسے وہ دنیا کی سب سے پرسکون جگہ پر ہوں۔ لیکن اچانک، ایک ببر شیر ٹیلے پر بیٹھا نظر آیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک خوفناک چمک تھی، جو کسی شکار کے انتظار میں تھی۔

اس کی نظریں میدان میں موجود بکریوں پر مرکوز ہو گئیں۔ ایک بکری، جو ادھا سفید اور ادھا براؤن تھی، اس کی خاصیت تھی کہ اس کے سینگ اوپر نہیں بلکہ سامنے کی طرف نکلے ہوئے تھے۔ ببر شیر کی آنکھوں میں چمک اور تیز ہو گئی۔ اس نے اپنے پاؤں تیز کیے اور ایک ہی چھلانگ میں میدان میں پہنچ گیا۔ بکریوں نے شیر کو آتے دیکھا اور فوراً بھاگ گئیں، مگر وہ بکرا نے بے خوفی سے گھاس چرتا رہنا جاری رکھا۔

جب شیر اس بکرے کے بالکل قریب پہنچا، تو اس بکرے نے بغیر کسی خوف کے، شیر سے پوچھا، "آپ کو کیا چاہیے؟"

شیر نے ہیرے کی طرح چمکتی آنکھوں سے کہا، "تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا؟ باقی سب بکرے بھاگ گئے ہیں، پھر تم کیوں نہیں بھاگے؟"

بکرے نے آنکھوں میں چمک اور دل میں بھرپور حوصلہ رکھتے ہوئے جواب دیا، "نہیں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں بکرا ہوں، مگر میرے اندر شیر کا خون ہے۔ تم مجھے سونگھ کر دیکھو، پھر سمجھو گے کہ میں کیا ہوں۔"

شیر نے اس بکرے کی باتوں پر ہنستے ہوئے کہا، "تمہارا یہ انداز دلچسپ ہے، مگر تمہارا نام کیا ہے؟"

"میرا نام زکرو ہے," بکرے نے اطمینان سے کہا۔

"زکرو؟ عجیب نام ہے!" شیر نے جواب دیا۔

"عجیب کیوں؟ یہ میری نانی اور ماموں کے ناموں سے مل کر میری امی نے رکھا ہے۔" زکرو نے مسکرا کر کہا۔

"اور کیا بتایا تمہاری ماں نے تمہارے ماموں اور نانی کے بارے میں؟" شیر نے دلچسپی سے پوچھا۔

زکرو نے کہا، "میری امی بتاتی ہے کہ اس کی ماں اس سے بہت پیار کرتی تھی، اور ماموں ہمیشہ اس کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دیتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ کوئی بھی تکلیف ہمیں نہیں پہنچنی چاہیے، بس تم محفوظ رہو۔"

شیر نے سر ہلاتے ہوئے کہا، "تو تمہاری ماں نے تمہیں اپنے ماموں اور نانی کی کہانیاں سنائیں۔ تمہیں ان باتوں میں سے سب کچھ یاد ہے۔ لیکن تم اچانک خاموش کیوں ہو گئے؟"

زکرو نے فوراً اپنی نظریں شیر کی طرف گھمائیں اور کہا، "لیکن آپ ہیں کون؟ اور میں آپ کو اپنے ماموں اور نانی کی باتیں کیوں بتا رہا ہوں؟"

شیر نے مسکرا کر کہا، "تمہاری ماں کی کہانیوں میں جو تمہارے ماموں ہیں، وہ میں ہی ہوں۔"

زکرو کی آنکھوں میں حیرت اور محبت کی جھرمٹ سی چھا گئی۔ اس کا دل تیز دھڑک رہا تھا اور وہ شیر کے سامنے جھک گیا۔

"تم... تم شکرو ماموں ہو؟" زکرو کی آواز میں ایک گہرا جزبہ تھا،

شکرو نے زکرو سے کہا، "تمہاری ماں کہاں ہے؟ مجھے اس کے پاس لے چلو۔"

زکرو نے اپنے پاؤں کے نیچے مٹی کو ہلایا اور آہستہ سے ایک طرف اشارہ کیا۔ "وہ اس طرف ہے، بس تھوڑا سا اور چلنا ہے۔"

شکرو نے قدم بڑھایا، اور زکرو اس کے پیچھے چلتے ہوئے اس کی رہنمائی کر رہا تھا۔ جب وہ قریب پہنچے، تو زکرو کی نظریں تیز ہو گئیں، اور اس نے ایک گہری سانس لی۔ "وہ وہیں ہے..." اس نے کہا، اور شکرو نے تیز قدم بڑھائے۔

بےنی، جو ایک درخت کے نیچے کھڑی تھی، اپنے بچے کو شیر کے ساتھ آتے دیکھ کر ایک لمحے کے لیے پریشان ہو گئی۔ مگر جیسے ہی شیر ے کی شکل کو غور سے دیکھا، ایک حیرت انگیز اور دل کو چھو لینے والی حقیقت نے اس کی آنکھوں کو چمکا دیا۔

"شکرو؟" اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا، اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

شکرو نے فوراً بےنی کو دیکھا، اور جیسے ہی اس کی نظریں بہن کے چہرے پر جمیں، ایک لمحے کے لیے دنیا کی ساری پریشانیاں ختم ہو گئیں۔ بےنی کی آنکھوں میں وہی بچپن کی محبت، وہی اعتماد تھا جو وہ ہمیشہ بچپن میں دیکھتا آیا تھا۔

شکرو نے بےنی کی طرف قدم بڑھایا، اور بےنی نے اس کے قریب پہنچ کر اپنے بھائی کو گلے سے لگا لیا۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے، اور دل میں ایک سکون تھا جو انہیں ملنے کے بعد ہی محسوس ہوا تھا۔

کچھ دیر کے بعد، بےنی نے شکرو سے اپنی ماں کا حال پوچھا۔ شکرو نے غمگین لہجے میں بتایا، "تمہارے جانے کے بعد ماں کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی۔ وہ شکار کرنا بھی چھوڑ دی تھی۔ مگر اس نے چارک سے التجا کی کہ وہ مجھے شکار کرنے کا طریقہ سکھائے۔ میں چارک کے ساتھ شکار کرتا ہوں اور ماں کے لیے کھانا لے کر آتا ہوں۔ ماں کبھی کھاتی ہے اور کبھی نہیں۔ تمہاری یاد میں وہ وقت سے پہلے بوڑھی ہو گئی ہے۔"

ماں کی حالت کا سن کر بےنی کو بہت دکھ ہوا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اور اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ماں کی خدمت کرے گی۔

کچھ دیر بعد، بےنی نے اپنے بچے زکرو سے کہا، "میری ماں کو میری ضرورت ہے۔ میں اس کی خدمت کرنے جا رہی ہوں۔ تم اپنے بابا کے ساتھ ہی رہنا۔"

زکرو نے حیران ہو کر پوچھا، "مگر کیوں، ماں؟ تم ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہو گی؟"

بےنی نے اپنے بچے کو پیار سے سمجھایا، "دیکھو، میرے بچے، جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں، تو ماں اور باپ ان کا خیال رکھتے ہیں۔ اور جب ماں باپ بوڑھے ہو جائیں، تو بچوں کو ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ میری ماں اب بوڑھی ہو گئی ہے، اور اسے میری ضرورت ہے۔ میں اس کی خدمت کرنے جا رہی ہوں۔"

بےنی نے اپنے بچے کو گلے لگا کر الوداع کہا اور اپنے بھائی شکرو کے ساتھ اپنی بوڑھی ماں کی خدمت کرنے کے لیے چل پڑی۔ راستے میں، شکرو نے بےنی کو بتایا کہ کس طرح ان کی ماں ہر روز تمہاری یاد میں روتی ہے اور کس طرح وہ تمہارے واپس آنے کا انتظار کرتی ہے۔

بےنی کی زندگی اس کی اس ماں کے نام،