Khak O Khwab in Urdu Fiction Stories by Insha noor books and stories PDF | Khak O Khwab

Featured Books
Categories
Share

Khak O Khwab

خاک و خواب"(خواب جو خاک میں ملے، اور خاک سے جنم لینے والی نئی زندگی)انشاؔ نور کے قلم سےوقت گواہ ہے، انسان وہی کاٹتا ہے جو کبھی خود نے بویا ہوتا ہے۔ کچھ زخم وقت کے ساتھ بھر جاتے ہیں، اور کچھ کردار... وقت کے ساتھ بے نقاب ہو جاتے ہیں۔Insha Noor ke Qalam Seہر کہانی ایک آغاز ہوتی ہے۔ کبھی خاموش آنکھوں سے بہتی ہوئی، کبھی لفظوں کے روزن سے جھانکتی ہوئی… کبھی صبر کی، کبھی فریب کی۔میں نے یہ کہانی لکھنے کا ارادہ کسی نتیجے کی تلاش میں نہیں کیا تھا… بس دل چاہا کہ وہ سب کچھ جو معاشرے میں ہوتا ہے، جو دلوں کے پیچھے چھپا ہوتا ہے، اور جو اکثر زبانوں تک نہیں آتا — وہ سب کچھ صفحے پر اتر آئے۔یہ کہانی صبر کی ہے، دعا کی ہے، وفا کی ہے — اور ان سب کے درمیان آزمائشوں کی بھی۔یہ اُن رشتوں کی بات کرتی ہے جو صرف خون سے نہیں بنتے — بلکہ اعتبار، اخلاص اور نیت سے بنتے اور بگڑتے ہیں۔میں نے یہاں کوئی ہیرو یا ولن نہیں بنایا، بس انسان دکھائے ہیں — اپنی کمزوریوں اور خوبیوں سمیت۔یہ تحریر آپ سے کچھ مانگتی نہیں، بس چاہتی ہے کہ جب آپ آخری صفحہ بند کریں — تو آپ کا دل ایک دعا کرے، اور آپ کی آنکھ ایک حقیقت دیکھ لے۔کیونکہ یہ آغاز ہے… پہلا نہیں، شاید آخری بھی نہ ہو — مگر سچ ضرور ہے۔— Insha Noorبارش رک چکی تھی، لیکن چھت کی کڑکڑاتی چادر پر بوندوں کا رقص اب بھی باقی تھا۔چھوٹا سا صحن تھا، جس کے ایک کونے میں بیری کا درخت کھڑا تھا۔ اُس کے نیچے سرخ اینٹوں سے چنے گئے چولہے کو برسوں پہلے مٹی سے بند کر دیا گیا تھا، لیکن ماں کبھی کبھی اس پر بیٹھ کر تازہ ساگ چنتی تھیں، جیسے ماضی کی خوشبو پھر سے زندہ ہو جائے۔ گھر کے کمرے چھوٹے تھے، مگر دیواروں پر سجی قرآنی آیات اور سفید پردوں پر ہاتھ سے کی گئی کڑھائی بتاتی تھی کہ یہ مکان صرف اینٹوں کا ڈھیر نہیں، ایک نظریہ تھا۔ دین کے رنگ میں ڈوبا ہوا ایک نظریہ۔فرش پر بچھا ٹاٹ کا فرش سردی میں کچھ زیادہ ہی سخت لگ رہا تھا۔ چھوٹا سا ہال، جس میں مہمان بھی آتے تھے اور بچیاں وہیں پڑھائی بھی کرتی تھیں۔ کونوں میں رکھی الماریاں، جن میں کبھی صرف کتابیں رکھی جاتی تھیں، اب دوا کی بوتلوں، خراب پنکھے کے پرزوں، اور اُدھورے خوابوں سے بھر گئیں تھیں۔“دیکھ لینا، جو ماں باپ کے فیصلوں کو روند کر آگے بڑھتا ہے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔۔۔ اُس کی بنیادوں میں خلا ہوتا ہے، جو وقت کے ساتھ گرتا ہے، ایسے ہی جیسے ابا کے چہرے کی رونق گری ہے۔”دادی نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنا گھٹنا دبایا اور پرانی رضائی کی تہہ کھول کر دوبارہ سینے لگی۔“امّی، وہ تو آیات پڑھتا تھا، ہمیں ہی غلط ٹھہراتا تھا۔ ‘تم مجھے روک نہیں سکتے، شریعت مجھے اجازت دیتی ہے’… اُس نے یہی کہا تھا نا؟” چھوٹی نے میز پر رکھی تسبیح کو انگلیوں سے الٹتے ہوئے سر جھکا لیا۔ماں نے تکیے پر رکھے قرآن کو آہستہ سے چھوا اور آنکھیں بند کر لیں۔ جیسے اُن کے اندر ہزاروں صفحے اُلٹنے لگے ہوں۔“ہاں، وہ قرآن پڑھتا تھا… مگر سمجھتا نہیں تھا۔ علم ہو، مگر حلم نہ ہو تو انسان دِلوں کو توڑتا ہے۔” ماں کی آواز آہستہ تھی، لیکن اندر تک اُترتی جا رہی تھی۔چھوٹی نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ گلی کے نکڑ پر ایک بچہ پانی سے بھرے ٹینکے کے پاس کھیل رہا تھا، اور اُس کے پیچھے وہی دیوار تھی جہاں اس کا بھائی زاہد پہلے اذان دیا کرتا تھا۔یہی گھر تھا جہاں اذانوں کی آواز بلند ہوتی تھی… جہاں فجر کی نماز کے بعد تفسیر کا حلقہ لگتا تھا… جہاں زاہد بڑے شوق سے ‘یٰایہا الذین آمنوا’ کی آیات تلاش کر کے بتایا کرتا تھا: “دیکھو، یہ ہمیں ہی پکارا جا رہا ہے…”اور آج… یہی گھر خاموش ہے، اور یہی دیواریں گواہ ہیں، کہ ایک شخص علم کا دعوے دار ہو، اور رب کی رضا کے نام پر ماں باپ کے دل توڑے… تو وہ پلٹ کر اسی گلی میں بھی آتا ہے، تو پہچانا نہیں جاتا۔پانی کی بوندوں کا شور اب مدھم ہو چکا تھا۔باہر اندھیرا پھیل چکا تھا… اور اندر ایک حقیقت اتر چکی تھی۔”محبت وہی معتبر ہے، جو حدود میں ہو۔ اور علم وہی کامیاب، جو ماں کے قدم چوم کر آگے بڑھے…”++++++++++++++ہوا میں سردی کی لہر تھوڑی تیز ہو گئی تھی۔ آسمان پر بادلوں کی تہہ ابھی مکمل چھٹی نہیں تھی، جیسے کچھ کہنا باقی ہو۔ رات کی اذان ہو چکی تھی، اور گھر کے ہال میں روشنی صرف ایک پرانی قمقمے کی مدھم پیلی روشنی سے آ رہی تھی، جو چھت سے لٹکی زنجیر میں جھول رہی تھی۔زاہد اپنے کمرے سے نکل کر سیدھا ہال کے کونے میں رکھے تخت پر بیٹھ گیا۔ وہ ہمیشہ وہیں بیٹھتا تھا، جہاں دیوار پر سورہ العصر کا فریم لگا تھا۔ کمر سیدھی، ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں جڑی ہوئی، اور آنکھوں میں وہی عجب ضد جو پچھلے کئی دنوں سے چھپائی جا رہی تھی۔ماں نے کچن سے نکلتے ہوئے دیکھا تو آواز دی، “زاہد بیٹا، چائے بنا لوں تمھارے لیے؟”اس نے گردن ہلائی، جیسے کوئی عہد توڑنا چاہ رہا ہو۔باپ نے اپنی تسبیح میز پر رکھی اور سیدھے ہو کر بیٹھا، “آج کل کچھ بےچین لگ رہا ہے، کیا بات ہے؟”زاہد نے اپنی آنکھیں ماں پر مرکوز کیں، پھر باپ پر۔ اور پھر سانس کھینچ کر اپنی گردن سیدھی کر کے وہ جملہ ادا کیا… وہ پہلا جملہ، جو اُس رات اس گھر کی دیواروں کو لرزا گیا تھا:“آپ لوگ مجھے روکنے کے مجاز نہیں… قرآن مجھے اختیار دیتا ہے کہ میں اپنی پسند سے نکاح کروں۔”خاموشی۔کئی لمحے جیسے ساکت ہو گئے۔ماں کے ہاتھ کی انگلیوں سے چائے کا چمچ گر کر ٹائلز پر بجا۔ باپ کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ چھوٹی بہن، جو کونے میں اپنا کام کر رہی تھی، اس نے قلم رکھ دیا۔زاہد نے بات جاری رکھی:“سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳ اختیار دیتی ہے، سورۃ النور حدود بتاتی ہے… میں نے اپنی حد میں رہ کر فیصلہ کیا ہے۔ آپ بس رکاوٹ نہ ڈالیں۔”باپ کی آواز ٹوٹی، “زاہد، دین کا مطلب یہ نہیں کہ تم ماں باپ کو روند دو۔ تم جسے اختیار کہہ رہے ہو، وہ تمھارے نفع کے لیے نہیں، تمھاری آزمائش کے لیے ہے۔”زاہد نے پہلی بار نظریں چرائیں۔ماں نے صرف ایک جملہ کہا، بہت نرم، بہت گہرا: “کبھی ماں کی خاموشی سے قرآن کی تلاوت بلند نہیں ہوتی، بیٹا…”لیکن اُس رات، زاہد نے وہ گھر صرف دروازہ کھول کر نہیں چھوڑا تھا۔ وہ رشتے، دعا، توقیر… سب پیچھے چھوڑ کر گیا تھا۔ اور شاید… خود کو بھی۔++++++++++رات بہت دیر تک جاگتی رہی۔دیوار پر لگا کلینڈر اپنے آخری مہینے میں تھا، جیسے اس گھر کے صبر کا بھی اختتام ہونے کو ہو۔ گھڑی کی سوئیاں چلتی رہیں، لیکن اس رات وقت بھی کچھ ساکت سا لگ رہا تھا۔ صحن میں رکھے پانی کے مٹکے کی ٹونٹی ٹپکتی رہی… جیسے گھر کی خاموشی بھی اب آہستہ آہستہ رونے لگی ہو۔چھوٹی، یعنی زاہد کی سب سے چھوٹی بہن، جسے سب “عینی” کہتے تھے… اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔ وہی قالین کا گوشہ جہاں وہ اکثر بیٹھ کر ہوم ورک کرتی تھی یا ماں کے پاؤں دباتی تھی۔ لیکن آج اس کے سامنے کوئی کتاب نہیں تھی، کوئی تسبیح نہیں، بس خاموشی۔ماں چپ چاپ قرآن کا جز کھول کر بیٹھی تھیں، لیکن آنکھیں الفاظ پر نہیں ٹک رہیں تھیں۔ ہاتھ حرکت کرتا رہا، مگر دل کہیں دور نکل چکا تھا — شاید اُس بیٹے کی تلاش میں، جو علم تو ساتھ لے گیا، لیکن ادب اور محبت پیچھے چھوڑ گیا۔باپ، اپنی چارپائی پر لیٹے، چھت کو دیکھتے رہے۔ کوئی آہ بھی نہیں، کوئی شکوہ بھی نہیں۔ جیسے ایک عمر صبر میں گزار دی ہو، اور اب زبان تھک چکی ہو۔عینی نے اپنے پلنگ پر بیٹھ کر آہستہ سے چادر اوڑھی، اور نظریں دیوار پر لگے سورہ لقمان کی آیت پر ٹک گئیں:"اور اگر وہ دونوں (ماں باپ) تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کا کہنا نہ مان، مگر دنیا میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک کر۔" (لقمان 15)اس نے وہ آیت آہستہ سے پڑھنی شروع کی۔ الفاظ دل سے نکلے، آنکھوں سے بہہ نکلے۔“یا اللہ… میرا بھائی گمراہ نہیں ہوا، وہ صرف مغرور ہوا ہے۔ علم اُس کے دل تک نہیں پہنچا۔ یا رب، جس طرح تُو نے یوسف کو قید سے نکالا، زاہد کو بھی نکال لے… اس قیدِ نفس سے، اس قیدِ انا سے، اس قیدِ خود پسندی سے۔”خاموشی ٹوٹ چکی تھی… مگر آواز بلند نہیں ہوئی تھی۔ وہ دعا تھی، جو دل کی گہرائی سے نکلی تھی، اور رات کے اندھیرے میں عرش کی طرف اڑان بھر رہی تھی۔عینی نے آنکھیں بند کیں، اور خود سے کہا:“اللّٰہ کافی ہے میرے لیے… میں اُس کے سامنے گڑگڑاؤں گی، اور وہی زاہد کو واپس لائے گا… لیکن واپسی، صرف قدموں کی نہیں ہوگی۔ واپسی دل کی ہوگی، نیت کی ہوگی، عاجزی کی ہوگی…”پھر وہ خاموش ہو گئی۔اور رات نے اپنا راز رکھ لیا۔+++++++++++ماں نے چولہا بند کر کے دوپٹہ سیدھا کیا، اور دھیرے سے بیٹھک کی طرف آئی۔ باپ پہلے ہی وہیں بیٹھا تھا، ہاتھ میں تسبیح، آنکھوں میں پریشانی، اور دل میں وہ دکھ جو لفظوں میں بیان نہیں ہوتا۔“اس لڑکی کو تم نے دیکھا ہے؟” ماں کی آواز بہت نرم، مگر زخمی تھی۔باپ نے سر جھکایا، “بس ایک بار... جب وہ زاہد کو لے کر رکشے سے اتری تھی۔ لڑکی... لباس اُس کا... انداز اُس کا... اور نظریں جیسے بڑوں کی عزت کو دیکھنے کی عادی ہی نہیں۔”ماں کا دل کٹ کے رہ گیا۔“زاہد کہتا ہے، وہ نماز پڑھتی ہے، دین جانتی ہے... لیکن امی، اُس کی آنکھوں میں دین کی حیا نہیں، اُس کی چال میں وقار نہیں، اور زبان... اللّٰہ معاف کرے، بڑوں سے بحث جیسے حق ہو اُس کا۔”باپ نے تسبیح زور سے لپیٹی اور سیدھا ہو بیٹھا، “میں نے اپنے بیٹے کو قرآن پڑھایا، تفسیر سکھائی، احادیث سنائیں، تاکہ وہ کردار کا مرد بنے... یہ تو لفظوں کا فقیر بن گیا، کردار سے خالی۔”ماں کی آنکھیں بھر آئیں۔ “میری گود میں پرورش پا کر، وہ لڑکی کو ماں سے بڑھا کر دیکھے، تو یہ میری شکست ہے۔”عینی دروازے کے پاس کھڑی تھی، خاموشی سے سب سن رہی تھی۔ اُس کا دل چاہا، دوڑ کے جا کر زاہد کو جھنجھوڑے، "بھائی، تُو لفظوں سے دلیل کیوں دیتا ہے؟ تُو آیتیں یاد کرتا ہے، مگر اُن کے معنی ماں کی آنکھوں میں نہیں دیکھتا؟"ماں نے کپکپاتی آواز میں کہا، “اس گھر کی بنیاد دین پر رکھی تھی ہم نے… اب اگر ایک عورت آ کر وہ بنیاد ہلائے، تو ہم کیسے جی سکیں گے؟”باپ نے سر جھکایا، بہت آہستہ کہا: “ہم نے بیٹے کو دین دیا، لیکن ادب ساتھ دینا بھول گئے۔”کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ باہر ہوا دروازے سے ٹکرائی، جیسے قدرت نے بھی آہ بھر لی ہو۔+++++++بہت خوب۔ تو آئیے اب میں آپ کو اگلا منظر ایسے لکھ کر دیتا ہوں جیسے نمرا احمد کا طرزِ تحریر ہوتا ہے — دل میں اُترتا ہوا، کرداروں کی خاموشیاں بولتی ہوں، ماحول اور جذبات ایک دوسرے سے جُڑے ہوں، اور کوئی جملہ قاری کے دل میں گونج چھوڑ جائے۔صحن کے کونے میں نیم کا پیڑ برسوں سے کھڑا تھا… بالکل اُس ماں کی طرح، جو بیٹے کے جانے کے بعد بھی اپنے سایے کو قائم رکھتی ہے۔عینی وہیں، پیڑ کے نیچے بیٹھی تھی۔ ہاتھ میں وہی پرانا سفید قرآن، جس کے کنارے زاہد نے کبھی نیلے مارکر سے نشان لگائے تھے۔ اب وہی نشان اُس کے دل کے کنارے چیرنے لگے تھے۔کبھی کبھار دکھ لفظ نہیں مانگتے، صرف خاموشی چاہتے ہیں۔ماں نے دروازے سے عینی کو دیکھا۔ کچھ کہنا چاہا، پھر رک گئیں۔ جیسے ماں ہو کر بھی کبھی اولاد کے دکھ کے لیے لفظ چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔ وہ واپس پلٹیں اور باورچی خانے میں چلی گئیں۔ چولہا جلایا… اور کچھ دیر بعد بند کر دیا۔نہ بھوک باقی تھی، نہ ہمت۔باپ، اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑے تھے۔ نگاہوں میں وہ سوال تھا جو ہر باپ زبردستی چھپاتا ہے:"کیا واقعی بیٹے اتنے بدل جاتے ہیں؟ اور کیا بیٹیاں اتنا کچھ سہہ لیتی ہیں؟"عینی اُٹھی، چادر سیدھی کی، اور خاموشی سے اندر آئی۔ ماں کو پانی کا گلاس دیا۔ ماں نے بغیر دیکھے ہاتھ میں لے لیا۔“امی، میں نے کل سے قرآن کلاس شروع کرنی ہے… مسجد کے پیچھے وہ خالہ ہیں ناں، اُن کی بہو کے ساتھ، دو تین بچیاں بھی پڑھنا چاہتی ہیں۔”ماں نے پہلی بار اُس دن اُسے غور سے دیکھا۔چہرے پہ سکون تھا، مگر آنکھوں میں… وہی سوال تھا جو کل زاہد کی آنکھوں میں بھی تھا: "کیا میں کافی ہوں؟"ماں نے دھیرے سے سر ہلایا۔عینی نے سادہ سا سفید دوپٹہ لیا، اور اُسے شانوں پہ درست کرتے ہوئے آہستہ سے کہا:“امی، ہم شاید زاہد کو واپس نہ لا سکیں… لیکن جو لفظ اُس نے صرف یاد کیے تھے، شاید میں اُن لفظوں کو جینے کی کوشش کر سکوں…”باپ نے دروازے کی چوکھٹ کو تھاما، جیسے وہ دعا مانگنا چاہتے ہوں، مگر الفاظ گم ہوں۔دیوار پر زاہد کی تصویر نہیں تھی۔ لیکن اس کے بغیر بھی… یہ گھر مکمل نہیں تھا۔بالکل، آئیے اب زاہد کے نکاح کا کمرہ چھوٹا تھا مگر صاف ستھرا۔ سفید چادر بچھی تھی۔ سامنے مولوی صاحب بیٹھے تھے۔ دو گواہ، اور کونے میں چپ چاپ بیٹھا زاہد۔اُس کی آنکھوں میں کچھ عجیب سا سکون تھا — جیسے برسوں بعد کسی نے اُس کی سنی ہو۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ، اور دل میں ایک بےقراری۔ نکاح کا وقت آ پہنچا تھا۔مولوی صاحب نے نرمی سے سوال دہرایا:"زاہد بن کلیم، آپ کو شائستہ بنتِ نعیم، حقِ مہر ایک لاکھ روپے، اپنے نکاح میں قبول ہے؟"زاہد نے ہولے سے سانس لیا، دل کو سمیٹا… اور کہا:"قبول ہے۔"پہلی بار۔مولوی صاحب نے پھر پوچھا۔ زاہد کی آواز مضبوط ہوئی:"قبول ہے۔"تیسری بار، اُس نے آنکھیں بند کیں، جیسے کوئی دعا دل سے نکلے بغیر لبوں پر آ گئی ہو:"قبول ہے۔"پردے کے پیچھے شائستہ نے بھی اپنی رضا دی۔ مولوی صاحب نے نکاح مکمل ہونے کی دُعا کی، اور دونوں کے لیے خیر کی دعا مانگی:"اللّٰہ تم دونوں کے درمیان محبت، رحمت اور سکون رکھے۔"زاہد نے آنکھیں کھولیں، اور آسمان کی طرف دیکھ کر ایک گہری سانس لی۔ اُسے لگا، جیسے زندگی میں پہلی بار اُس نے اپنی مرضی سے کچھ حاصل کیا ہو۔شائستہ اُس کے پاس آئی۔ سفید چادر میں لپٹی، مسکراہٹ لبوں پر۔“اب ہم ہمیشہ کے لیے ایک ہیں، زاہد۔” اُس نے کہا۔زاہد نے ہنستے ہوئے سر ہلایا۔“آج تم نے میری سب سے بڑی کمی پوری کر دی… تم میری زندگی کی آواز ہو، شائستہ۔”شائستہ نے قہقہہ لگایا، “اور تم میرے خوابوں کا انجام!”انھوں نے ساتھ بیٹھ کر شیرینی کھائی۔ ایک خاموش کمرہ، ایک مکمل نکاح، ایک نئی زندگی کا آغاز۔اُس وقت زاہد کو لگا: "یہی اصل سکون ہے… شاید محبت واقعی سب کچھ جیت لیتی ہے۔"لیکن اُسے کیا خبر تھی… کبھی کبھی محبت جیت جاتی ہے — مگر بندہ خود ہار جاتا ہے۔+++++++کمرہ خاموش تھا۔ دیوار پر لٹکی گھڑی کی ٹک ٹک کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ دروازہ بند ہوتے ہی، زاہد نے چپکے سے نظر اُٹھائی۔شائستہ نے سر پر ڈوپٹہ درست کیا، اور تھوڑا سا جھجک کے ساتھ قریب آ کر بیٹھ گئی۔زاہد نے پہلا جملہ بڑی سنجیدگی سے کہا:"تو... ہو گیا نکاح۔"شائستہ ہلکا سا مسکرائی، "ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یوں چپکے سے ہوگا سب کچھ۔"زاہد نے گردن ہلائی، "کبھی کبھی سب کچھ جلدی ہو جاتا ہے… اصل بات یہ تھی کہ بس ہو جائے۔"ایک لمحے کی خاموشی کے بعد شائستہ نے آہستہ سے پوچھا: "تمہارے گھر سے کوئی نہیں آئے گا؟"زاہد نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا:"امی سے آخری بار بات کی تھی… بس اتنا کہا تھا کہ دعا دے دیں۔ انہوں نے دعا دی یا نہیں… پتہ نہیں۔"شائستہ نے نظریں چرائیں۔ تھوڑا شرمندہ سا احساس اُس کے چہرے پر آیا، "میں نے کبھی نہیں چاہا کہ تم اپنے گھر والوں سے الگ ہو جاؤ۔ بس… میں نہیں چاہتی تھی کہ مجھے چھوڑ دو۔"زاہد نے ہلکی مسکراہٹ سے اُس کی طرف دیکھا:"اور میں نے نہیں چاہا تھا کہ تمہیں کسی اور کا ہونے دوں۔"ایک پل کو دونوں خاموش رہے۔ پھر شائستہ نے آہستہ سے سوال کیا:"اب ہم کہاں جائیں گے؟ تمہارے دوست کے گھر ہی رہیں گے یا کوئی اور جگہ؟"زاہد نے اعتماد سے جواب دیا:"دو دن ادھر، پھر کرائے پر فلیٹ دیکھ لیں گے۔ اب ہم آزاد ہیں… جو چاہیں، جیسے چاہیں، ویسے جئیں گے۔"شائستہ نے چہرے پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوئے کہا:"واقعی؟ لگتا ہے جیسے کوئی فلم دیکھ رہی ہوں… اپنی مرضی کی شادی، سب کچھ چھوڑ کے… اور اب نئے سفر کا آغاز!"زاہد نے خود کو فاتح محسوس کرتے ہوئے کہا:"بس تم میرے ساتھ رہو، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔"شائستہ نے آنکھوں میں خواب سجا کر سر ہلایا۔"اب کچھ بھی غلط نہیں ہوگا، زاہد۔ ہم نے سب کچھ چھوڑ کر صرف ایک دوسرے کو چُنا ہے۔"زاہد نے بھی یقین سے کہا:"ہاں، اور اللہ بہتر کرے گا۔"لیکن اُس کمرے کی خاموشی میں… کہیں ماں کی دُعاؤں کی غیر موجودگی محسوس ہو رہی تھی — جو ان دونوں کو تب سمجھ نہ آئی۔+++++++++ظہر کی اذان ہو چکی تھی۔ سورج کھڑکی سے جھانک رہا تھا، اور کمرے میں قرآن کی تلاوت کی ہلکی آواز گونج رہی تھی۔عینی نے سفید چادر اوڑھی، جائے نماز بچھایا، اور آہستہ سے بیٹھ گئی۔ تین دن ہو چکے تھے زاہد کے نکاح کو۔ گھر میں خاموشی کچھ زیادہ ہی بولنے لگی تھی۔ماں چپ ہو گئی تھیں — جیسے دل میں کوئی دیوار کھڑی کر لی ہو۔ ابا اخبار کے پیچھے چھپے رہتے تھے۔ لیکن جب بھی زاہد کا نام آتا، اُن کے ہاتھ تھوڑے تھوڑے کانپتے تھے۔نماز کے بعد، عینی نے دُعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ الفاظ وہی تھے، جو روز تھے… لیکن دل روز ایک نیا زخم لے آتا تھا۔"یا اللہ… زاہد کو ہدایت دے… اُس کے دل کو نرم کر… اُس کے فیصلے میں خیر رکھ… اور اگر وہ بھٹک گیا ہے، تو اُسے واپس لوٹا دے… اُس کی عزت، اُس کا دین، سب کچھ بچا لے۔"اُس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے، مگر اُس نے رُخ نہیں بدلا۔"یا رب، میرا بھائی مجھ سے ناراض ہے… لیکن میں ناراض نہیں ہوں۔ میں تو بس اُسے پلٹتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں۔"پیچھے دیوار پر وہی تصویر تھی — عینی اور زاہد کی بچپن کی۔ زاہد کی مسکراہٹ جیسی اب کہیں نہیں تھی۔چائے کا کپ تھامے ماں کمرے میں آئیں، عینی کے پاس بیٹھ گئیں۔ماں (دھیرے سے): "تیرا بھائی خوش ہے، عینی… تُو بھی خوش رہ۔"عینی نے ماں کا ہاتھ تھاما، اور نرم لہجے میں کہا:"خوشی اُس کی ہے امی… لیکن دُعا ہماری ہے۔ جس دن اُسے محسوس ہو گیا کہ ماں باپ کی دعاؤں کے بغیر کوئی رشتہ مکمل نہیں ہوتا… وہ پلٹے گا۔"ماں نے پہلی بار مسکرانے کی کوشش کی — ادھوری سی، تھکی تھکی۔ابا باہر سے آواز دے رہے تھے: "عینی، بیٹا… چائے لے آنا۔"عینی نے دوپٹہ درست کیا، آنکھیں صاف کیں، اور کچن کی طرف چل پڑی۔زاہد جا چکا تھا… مگر عینی کی محبت، اُس کی دعائیں، اُس کی بہن ہونے کی پہچان… اب بھی زندہ تھی۔ کسی لفظ کی محتاج نہیں — مگر ہر سجدے میں شامل۔دروازے پر دستک ہوئی تو امی نے چھوٹا سا دوپٹہ سر پر درست کرتے ہوئے دروازہ کھولا۔ سامنے سعدیہ تھی، ہاتھ میں بیگ، دو بچوں کی انگلیاں پکڑے، جیسے ان کا بچپن بھی اُس کے دامن سے لپٹا ہوا ہو۔ امی کو دیکھ کر مسکرائی، مگر آنکھوں میں تھکن چھپی ہوئی تھی۔ وہی تھکن جو ایک ماں کا زیور بن جاتی ہے، مگر کوئی دیکھے تو محض "مصروفیت" کہتا ہے۔"السلام علیکم امی!" "وعلیکم السلام، آ گئی شہزادی؟ اتنے دن بعد؟"بچے دروازے کی دہلیز پر رُکے نہیں، نانی کی آواز سن کر ایک اندر بھاگا، دوسرا سیدھا صحن کی طرف۔ عینی باورچی خانے سے نکلی تو ایک لمحہ لگا سمجھنے میں کہ شور کیا ہے۔ پھر سعدیہ کو دیکھ کر فوراً لپکی، اُسے گلے لگایا اور کہا: "تمہیں پتہ ہے تمہارے بچوں نے گھر کو سر پہ اٹھا لیا ہے؟"سعدیہ ہنس پڑی۔ وہ والی ہنسی جو بہنوں کے بیچ لمحہ بھر کی ناراضی یا فاصلہ مٹا دیتی ہے۔ "ارے، تمہیں تھوڑا شور بھی برداشت کرنا چاہیے… تمہاری زندگی تو خاموش فلم بن چکی تھی!"امی نے اندر آ کر چھوٹے کو گود میں اُٹھا لیا۔ "یہ میرے نواسے ہیں یا کوئی بجلی کے کھمبے؟ ذرا ایک جگہ بیٹھ بھی جایا کرو!" بچوں نے ہنستے ہنستے کہا: "نانی امّاں! ہم تو چپ رہتے ہیں، آپ ہی ہمیں تنگ کرتی ہیں!"ابا اپنا چشمہ صاف کرتے ہوئے اندر سے نکلے۔ تسبیح اُن کے ہاتھ میں تھی، مگر اُن کی آنکھیں بچوں پر۔ "لو جی، شروع ہو گئی پوتوں کی دنگل۔ آج اگر یہ چھت پہ نہ چڑھ گئے تو نانی امّاں کا وعدہ رہا!"عینی نے چپکے سے سعدیہ سے کہا: "امی ابا نے تو جیسے زندگی پکڑ لی ہو ان بچوں کے بہانے…"سعدیہ نے بیگ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا: "زندگی کو کسی نہ کسی بہانے کی ضرورت تو ہوتی ہے۔"اندر دستر خوان بچھایا جا رہا تھا۔ دہی، پراٹھے، چائے، اور بچوں کے لیے شربت۔ ایک وقت تھا جب یہ گھر بالکل چُپ ہوتا تھا۔ چائے بنتی تھی مگر چپ چاپ پی جاتی تھی۔ دہی ہوتا تھا مگر کوئی اس میں سے مسکراہٹ نہیں چکھتا تھا۔ آج وہی دہی پراٹھے خوشبو کے ساتھ ساتھ قہقہے بھی لا رہے تھے۔ایک بچہ باہر نکلا، موٹر پر چڑھنے لگا۔ امی نے پیچھے سے ڈانٹا: "او چھوٹے خان! وہ موٹر ہے، اونٹ نہیں، جو چڑھنے لگے!" بچہ زور سے ہنسا: "نانی امّاں، یہ پنکھا ہے، اُڑتا بھی ہے؟"ابا نے تسبیح ایک طرف رکھی، اور کہا: "میں کہتا ہوں مسجد والوں کو دے دو یہ بچے… جتنا پانی بہاتے ہیں، وضو خانے خود بخود صاف ہو جائیں گے!"عینی بچوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے کہہ رہی تھی: "پچھلی بار تم لوگ نے نل کھول کر نالی میں نہر بہا دی تھی۔ اب کی بار اگر دادی کی چادر بھیگ گئی نا… تو پھر نہ تم بچو گے، نہ پنکھا!"امی اپنی ہنسی روکنے کے لیے چائے کے کپ میں چمچ گھماتی رہیں۔ سعدیہ بچوں کی شرارتوں سے واقف تھی، مگر آج اُسے لگا کہ شاید اُن کا ہنسنا اس گھر کو کچھ زیادہ ہی راس آ رہا ہے۔کسی نے زاہد کا ذکر نہیں کیا۔ نہ امی نے، نہ ابا نے، نہ سعدیہ نے، نہ عینی نے۔ نہ وہ نام اس میز پر رکھا تھا، نہ خیال۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنا دکھ چھپا کر جینے کا ہنر جان گئے تھے۔ وہ جان گئے تھے کہ جو چلا جائے، اُس کے ساتھ صرف دعا بھیجی جاتی ہے، پچھتاوا نہیں۔بچوں کی ہنسی میں جیسے گھر کی در و دیوار بھی مسکرا رہے تھے۔ اور شاید، یہی اللہ کی نعمت تھی — کہ جو رخصت ہوا، وہ قصہ بن گیا، اور جو باقی رہے، وہ خوشی کا رنگ ۔صحن میں کچی دھوپ پھیل چکی تھی۔ دھوپ وہ نہیں جو جلاتی ہے… دھوپ وہ جو صرف بیٹھنے کو کہتی ہے۔ امی نے چھوٹا سا دریچہ بچھایا، اس پر تکیہ رکھا، اور ایک طرف نیم کی ڈالی جھکائے درخت کے سائے تلے بیٹھ گئیں۔ ان کے ہاتھ میں چنے چھیلنے کا پیالہ تھا، اور دل میں اتمنان۔سعدیہ برآمدے میں تھی، آنچل سے ہاتھ پونچھتی ہوئی، اور بار بار چھوٹے بیٹے کو پیار سے ڈانٹتی: "تم نے کہا تھا چھوٹے کپڑوں کی بالٹی الگ رکھی ہے، یہ کہاں سے آئے بڑے کپڑے؟"عینی نے اندر سے آواز دی: "میں نے رکھی تھی، چھوٹے نے اُلٹ دی!" اور پھر تیزی سے باہر آئی، ہاتھ میں ایک کچی شرٹ: "امی، یہ دیکھیں! اس پہ تو پانی کے بجائے چائے گر گئی ہے، اب یہ دھوپ میں ہی صاف ہو گی۔"امی نے آرام سے چنے چھیلتے ہوئے کہا: "چائے گری ہو یا وقت، دھوپ سب صاف کر دیتی ہے، بس تھوڑا صبر ہونا چاہیے۔"عینی نے مسکرا کر کہا: "امی، آپ کی باتیں کتابوں میں چھاپی جانی چاہییں۔" امی نے نظر اٹھائے بغیر جواب دیا: "میری باتیں دھلے کپڑوں جیسی ہیں، کوئی پہنے تو محسوس کرے۔"پھر اچانک پیچھے سے ننھا بچہ آیا، دونوں ہاتھوں میں مٹی، اور چیخا: "نانی امّاں! یہ کیڑا مجھے دیکھ رہا تھا!" امی نے پیالہ ایک طرف رکھا، اور سنجیدہ لہجے میں پوچھا: "تو کیا تمہیں نظر نہ جھکانی چاہیے تھی؟" سب ہنسنے لگے۔ابا اندر سے اخبار لیے نکلے اور بڑبڑاتے ہوئے کہا: "اس گھر میں انسان کم، ڈرامہ زیادہ ہے۔ کسی دن کسی نے سچ میں کیڑا بنا کے بھیج دیا تو کیا کرو گے؟" بچے نے ایک آنکھ بند کر کے کہا: "پھر اُس کی آنکھ میں مٹی ڈال دوں گا!" ابا بےساختہ ہنس پڑے اور پیار سے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا: "واہ بھئی، تم تو سپاہی بننے کے قابل ہو!"اسی لمحے سعدیہ کی نظر ایک پرانے دراز پر پڑی، جہاں زاہد کا رکھا ایک چھوٹا سا صندوقچہ رکھا تھا۔ بس ایک لمحہ کو آنکھ ٹھہری، پھر پلکوں نے خود ہی رخ موڑ لیا۔عینی نے فوراً بچوں کو بلایا: "چلو سب اندر، نانی کے چنے بھی ختم ہونے والے ہیں، اور تمہارے بہانے بھی!"اندر ہنسی تھی، آوازیں تھیں، برتنوں کی کھنک تھی، اور زندگی تھی — بالکل ویسی جیسی اللہ کو پسند ہوتی ہے: سادہ، مکمل، خاموشی میں معنی رکھنے والی۔"نانا… میری سالگرہ پہ آپ کیا لائیں گے؟" چھوٹے بیٹے نے گول چہرہ اوپر اٹھایا، اور بڑی بڑی آنکھوں میں امید چمک رہی تھی۔نانا نے اخبار ایک طرف رکھا، عینک ناک سے تھوڑا نیچے سرکائی، اور نرمی سے بولے: "یہی کہ تم اگلی سالگرہ تک مزید عقلمند ہو جاؤ۔""نہیں نانا!" وہ ضدی لہجے میں بولا، "میرے دوست کے ابو نے اسے سائیکل لے کر دی تھی۔ آپ بھی لے کر دیں!" نانا نے مسکرا کر کہا: "تمہارے دوست کے ابو تمہارے نانا نہیں ہیں۔ اور تم سائیکل کے بجائے عقل سے چلنا سیکھو، بیٹا۔"نانی نے تب برآمدے سے آواز دی: "سائیکل میں ہوا بھی تو ہوتی ہے، خالی دماغ کی طرح… اصل چیز تو اخلاق ہوتا ہے، جو ہر جگہ لے جائے!"سب ہنس پڑے۔عینی اندر سے کیک لے کر آ رہی تھی۔ وہ عام سا چاکلیٹ کیک تھا — نہ برانڈڈ، نہ فینسی۔ مگر اس پر وہ ہاتھ سے لگائے گئے جلیبی کی شکل کے کریم کے گول دائرے، اور تین موم بتیاں — پوری محبت سے کہتی تھیں: "یہ گھر امیر نہیں، مگر خالی بھی نہیں۔"بچے شور مچاتے ہوئے بیٹھے، اور نانی نے سب سے پہلے نعت سننے کی شرط رکھی۔"سالگرہ سے پہلے کوئی ایک نعت — ورنہ کیک کٹائی نہیں!" بڑا بیٹا اٹھا، صاف آواز میں کہا: "محبتوں کا صلہ یہ ملا ہے، یا رسول اللہ ﷺ…"نانا کی آنکھیں بھیگ گئیں، اور نانی نے چپکے سے پلک پونچھ لی۔موم بتیاں بجھائی گئیں، کیک کٹا، تالیاں بجیں، اور بچوں نے وہ سب شور کیا جو صرف محفوظ گھروں میں ہوتا ہے۔پھر جب رات کو سب سو گئے، تو نانی آہستہ سے بولیں: "زاہد کی کمی اب بھی ہے… مگر اللہ کا شکر ہے، ہم خالی نہیں ہوئے۔"نانا نے جواب دیا: "اللہ ہر کمی میں سے ایک نئی بھری جگہ نکالتا ہے۔ بس شکر اور صبر رکھو۔"کمرے میں پیلی روشنی کا ایک ہالہ سا پھیلا تھا۔ کُھڑکی کے پردے آدھے کھلے تھے، جیسے کسی نے جلدی میں ہٹائے ہوں۔ میز پر چائے کا کپ رکھا تھا، جس سے بھاپ اب بھی نکل رہی تھی، مگر پیالہ خالی تھا۔زاہد، بائیں جانب کروٹ لیے، اپنے بازو کے نیچے تکیہ دبا کے لیٹا تھا۔ آج پہلی بار اسے لگ رہا تھا… خاموشی بھی شور کرتی ہے۔شائستہ نے بال کھول رکھے تھے، کمر کے قریب تک آتے ہوئے، اور وہ آہستہ آہستہ برش کر رہی تھی۔ ہر برس کے ساتھ جیسے کوئی سوچ گرتی ہو… جیسے وہ کچھ تول رہی ہو۔"زاہد؟"وہ نہیں بولا۔"تمہارے ابا کی طبیعت کیسی ہے؟"زاہد نے آنکھیں کھول کر چھت کو دیکھا۔ پھر آہستہ سے بولا، "معلوم نہیں… جب سے نکاح ہوا ہے، کسی نے خبر نہیں لی۔ نہ ادھر سے، نہ اُدھر سے۔"شائستہ نے برش رکھتے رکھتے لمحہ بھر کے لیے رُک کر اُسے دیکھا۔ پھر دھیرے سے چلتے ہوئے بیڈ کے کنارے آ کر بیٹھ گئی۔"سنا ہے… تمہاری ماں کے نام سب کچھ تھا؟"زاہد نے کروٹ بدلی، اب وہ اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ "ہاں۔""پھر وہ سب تمہارے نام آیا نا؟""پتا نہیں… کبھی سوچا نہیں۔""کیوں؟"وہ خاموش رہا۔ شائستہ کے ہونٹوں پر ذرا سی تیوری آئی، پھر وہ اپنے مخصوص نرمی والے لہجے میں بولی:"دیکھو زاہد… مجھے کسی چیز سے مطلب نہیں۔ نہ تمہارے گھر سے، نہ جائیداد سے… پر جو تمہارا حق ہے، وہ تو تمہیں لینا چاہیے نا؟ ایسا تو نہیں کہ تم محبت میں سب کچھ چھوڑ دو، اور بعد میں… ہم دو لوگ زندگی بھی کسی کرائے کے کمرے میں گزاریں؟"زاہد اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ "محبت میں حق نہیں مانگا جاتا، شائستہ۔ بس مان لیا جاتا ہے جو مل جائے۔"شائستہ کا چہرہ لمحہ بھر کے لیے بدلا۔ پھر اس نے ہلکے سے ہنستے ہوئے ہاتھ تھپتھپایا۔"کاش سب رشتے اتنے شاعرانہ ہوتے… لیکن زاہد، یہ دنیا خوابوں سے نہیں چلتی۔ تمہارا حق تمہیں واپس لینا ہوگا۔ اور اگر تم نہ لو… تو کوئی اور لے لے گا۔"کمرے میں خاموشی ہو گئی تھی۔پردے کی ایک پٹی ہوا سے ہل رہی تھی۔ اور وہی خالی پیالہ، اب بھی ٹیبل پر رکھا تھا… جیسے انتظار میں ہو کہ کون بھرے گا— چائے سے؟ یا تلخی سے؟شائستہ باتوں باتوں میں آج کل اکثر ماضی کی گرد کھنگالنے لگی تھی۔ وہ اکثر زاہد سے اُس کے بچپن کی باتیں پوچھتی، پھر تھوڑا سا چپ ہو جاتی، پھر کوئی ایسا جملہ بولتی… جو سیدھا دل میں لگتا، مگر نظر صرف خیال جیسا آتا۔زاہد آج کل کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ یہ تبدیلی کسی بڑے واقعے کا نتیجہ نہیں تھی — یہ اُس مسلسل زہر کی طرح تھی جو روز تھوڑا تھوڑا جسم میں داخل ہوتا ہے… اور آخر کار دل کے اندر کوئی ایک جڑ کاٹ دیتا ہے۔کمرہ وہی تھا۔ صبح کا وقت، ایک ہلکی سی روشنی، اور شائستہ کی آواز — جو دل کو سہلاتی بھی تھی، اور کچھ نیا سوچنے پر مجبور بھی کرتی تھی۔آج وہ پھر وہی بات لے بیٹھی تھی۔شائستہ نرم لہجے میں کہہ رہی تھی:"زاہد… تمہاری امی، وہ تم سے کتنی محبت کرتی ہیں نا؟ پھر اُنہوں نے ایک بار بھی تم سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟"زاہد نے چونک کر دیکھا، پھر نظریں جھکا لیں۔ وہ جانتا تھا ماں کے دل میں اس کے لیے بہت محبت ہے، لیکن شاید وہ مجبور تھی… شاید رو رو کر چپ ہو گئی ہو۔مگر شائستہ نے بات جاری رکھی، جیسے وہ رکنا نہیں چاہتی تھی:"اور عینی… تمہاری بہن… جو تمہارے سب سے قریب تھی؟ وہ کہاں گئی؟ کبھی تمہیں ڈھونڈا؟ کبھی ایک خط؟ ایک دعا؟ کتنی آسانی سے وہ سب تمہیں بھول گئے، زاہد۔"زاہد کے چہرے پر کچھ لرزنے سا لگا، مگر اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔شائستہ نے چائے کا کپ ہاتھ میں لیا، اور اُس کی طرف دیکھے بغیر کہا:"جانتے ہو، تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا نا… تو کب کا جا کر اپنا حق لے آتا۔ وہ گھر… وہ زمین… وہ سب کچھ جو تمہارے نانا نے تمہاری ماں کے نام کیا تھا، آج بھی تمہاری ملکیت ہے۔ اور تم… تم یہاں بیٹھے ہو، جیسے تمہیں کسی چیز کی پرواہ ہی نہیں۔"یہ وہ جملہ تھا جس کے بعد خاموشی چھا گئی۔زاہد نے پہلی بار کچھ لمحوں کو سوچنے میں گزارا — کیا واقعی اُس کی ماں، اُس کی بہن، اُسے بھول گئی ہیں؟ کیا اُنہیں واقعی فرق نہیں پڑا؟شائستہ نے آخر میں دھیرے سے کہا:"محبت کرنے والے کبھی کسی کو یوں نہیں بھولتے، زاہد۔ وہ صرف اُس وقت بھولتے ہیں جب بھول جانا اُن کے لیے فائدہ مند ہو۔ اور تم… فائدہ تھے۔ اب شاید تمہاری غیرموجودگی اُن کے فائدے میں ہے۔"زاہد کے چہرے پر کوئی ردعمل نہیں تھا، لیکن دل کے اندر کچھ ضرور کھنکنے لگا تھا۔اگلی صبح نانو ہال میں قالین پر بیٹھی تھیں۔ سامنے چائے کا کپ تھا، اور سعد اُن کے زانو پر سر رکھ کر سو رہا تھا۔ ہاشم صوفے پر اپنی کاپی کھولے کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر اُس کا دھیان بار بار نانو کی طرف جا رہا تھا۔"نانو، سعد ہمیشہ آپ کے پاس کیوں سوتا ہے؟" "کیونکہ سعد نانی کا لاڈلا ہے۔" "اور میں؟" "تم بھی ہو، بس تمہارے اندر شرارت زیادہ ہے۔"عینی اُس لمحے کمرے سے نکلی، کپڑے تہ کیے ہاتھ میں تھے۔ بال سلیقے سے بندھے ہوئے، آنکھوں کے نیچے ہلکے ہلکے سائے — مگر چہرہ روشن۔سادیہ بھی اُسی وقت داخل ہوئی۔ ہاتھ میں بچوں کے کپڑوں سے بھرا ایک بیگ تھا، اور پیچھے سے آواز لگاتی آئی: "ہاشم! تمہاری یونیفارم کی شرٹ میرے بیگ میں چلی گئی تھی، تم تو پورے گھر کو الٹ دیتے۔"عینی ہنس پڑی۔ "سادیہ آپا، لگتا ہے بچوں سے زیادہ آپ شرارتی ہو گئی ہیں۔"سادیہ نے بیگ رکھ کر جھٹ سے کہا، "پہلے تم شادی کرو، پھر پتہ چلے گا۔ یہ دو چھوٹے جن — ہر وقت کچھ نہ کچھ کھوجتے رہتے ہیں۔"اسی ہنسی خوشی ماحول میں نانو نے نرمی سے کہا: "ویسے کل کے مہمان تو اچھے لگے مجھے۔"سادیہ نے چونک کر عینی کی طرف دیکھا، "اچھا؟ کوئی پسند آیا؟"عینی نے نظریں چرائیں۔ سادگی سے بولی: "بس… ٹھیک تھے۔ شرافت تھی، زیادہ باتیں نہیں کیں، اور بچوں کو بھی پسند آیا۔"ہاشم نے فوراً سوال داغا: "خالہ! کیا وہ لوگ آئیں گے دوبارہ؟"نانو نے پیار سے اُسے گود میں لیا، "دعا کرو بیٹا، آئیں — کیونکہ جو لوگ خاموشی سے پسند کرتے ہیں نا… وہی نبھاتے بھی ہیں۔"سادیہ نے عینی کے کندھے پر ہاتھ رکھا، "اگر تم خوش ہو، تو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔"عینی نے مسکرا کر دیکھا۔ وہ ہنسی… جو برسوں بعد دل کی تہہ سے نکلی تھی۔گھر چھوٹا سا تھا، لیکن گہری آوازیں دیواریں چیر کر نکلتی تھیں۔ہر روز صبح، باورچی خانے سے قہقہوں کی آوازیں آتیں۔ شائستہ کی ماں — گہرے گلابی رنگ کے جوڑے میں، بالوں میں تیل لگائے، بڑے تسلی سے بیٹھ کر چائے پیتیں۔"بیٹا زاہد! آج تو ناشتہ ذرا خاص بنوایا ہے، باہر کا پراٹھا نہیں کھانا۔"زاہد، جس نے رات بارہ بجے تک کام کیا تھا، خاموشی سے مسکرایا۔"جی، خالہ جان۔""خالہ نہیں، اماں جی کہو۔ اب تو تم ہمارے ہی ہو گئے ہو۔"ساتھ ہی شائستہ کی تینوں بہنیں — سارہ، منزہ اور انعم — ہنستی ہوئیں کچن میں گھس آئیں۔ کوئی دوپٹہ سنوار رہی تھی، کوئی لپ اسٹک کا رنگ دکھا رہی تھی، اور کوئی آئینے کے سامنے بال کھولے کھڑی تھی۔"آج نا ہم فلم دیکھنے جا رہے ہیں۔""زاہد بھائی ہمیں تھوڑا کیش دے دیں، واپسی پہ آلو چپس بھی لائیں گے آپ کے لیے۔"زاہد خاموش رہا۔ اب وہ اتنا بولتا نہیں تھا۔شائستہ قریب آئی، نرم آواز میں بولی:"بس چند دن کی بات ہے زاہد۔ امی اور بہنیں ویسے بھی اکیلی رہتی ہیں۔ تم تو جانتے ہو، ہمارا کوئی مرد نہیں۔ تھوڑا وقت ہمارے ساتھ گزار لیں، پھر چلی جائیں گی۔"زاہد نے سر ہلا دیا۔لیکن وہ "چند دن" اب چھ ہفتوں میں بدل چکے تھے۔ہر روز وہ تینوں بہنیں — گھر میں ٹی وی کی آواز بلند، باتیں تیز، اور حرکتیں بےفکری سے بھرپور۔ایک دن زاہد نے آفس کے لیے قمیص ڈھونڈی — الماری خالی تھی۔ پوچھا، تو شائستہ بولی:"انعم پہن کر گئی ہے، تمھاری قمیص بہت اسٹائلش ہے۔"زاہد کو جیسے زبان ہی بند ہو گئی۔وہ جانتا تھا، یہ سب معمولی باتیں تھیں — لیکن ان کے اندر چھپی بےپرواہی، بےادبی، اور کسی اور کے گھر میں بھی اپنا پن جمانے کی ضد… یہی اصل دکھ تھی۔شائستہ، اب اکثر زاہد سے صرف رات کے کھانے پر ملتی۔ دن میں وہ اپنے کمرے میں ماں اور بہنوں کے ساتھ مصروف ہوتی — قہقہے، گانے، اور فون کالز میں۔کبھی کبھار زاہد کو لگتا… یہ اس کا گھر نہیں، بس ایک "گیسٹ ہاؤس" ہے… جہاں وہ خود، ایک میزبان ہے — اور مہمان… کبھی جانے کا نام نہیں لیتے۔بہت خوب، آئیے اس منظر کو اور بھی حقیقت کے قریب لے کر چلتے ہیں — جہاں عینی نہیں، اُس کے والد اس سب میں مرکزی کردار ہیں، اور بچوں کی بجائے گھریلو ماحول اور بڑوں کی گفتگو سے خبر کا پتا چلتا ہے، جیسا کہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر ہوتا ہے۔کمرے میں ہلکی روشنی جل رہی تھی۔ مغرب کی نماز کے بعد عینی کے والد جانماز تہہ کر کے دیوار سے لگے بیٹھے تھے۔ اُن کے چہرے پر ایک غیرمعمولی سنجیدگی تھی۔ وہ خاموشی سے فون کو دیکھ رہے تھے — جیسے کوئی دل کی بات لبوں پر لانے سے پہلے رب سے اجازت مانگتا ہے۔کچن میں چولہے پر چائے رکھی تھی۔ مہک کمرے تک آ رہی تھی۔ عینی کی ماں، چہرے پر ہلکی سی تھکن لیے، چائے کے برتن سجا رہی تھیں۔"تمھارے ابا کچھ پریشان لگ رہے ہیں،" اُنھوں نے دھیرے سے کہا۔"فون آیا تھا ابھی…" وہ خاموش ہوئے، جیسے جملے مکمل کرنے میں وقت درکار ہو۔"رشتہ منظور کر لیا اُنھوں نے…"چائے کی چمچ ایک لمحے کو رک گئی۔"سچ؟""ہاں۔ اُن کا کہنا تھا: لڑکی نے دین سے جُڑی ہوئی زندگی اپنائی ہے، ہم اِسی کو اصل خوبصورتی مانتے ہیں… ہمیں رشتہ منظور ہے۔"ماں کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آئی۔ انھوں نے آہستہ سے کہا، "عینی کو کچھ بتایا؟""نہیں… بیٹیوں کو ایسے فیصلے خود نہیں سنائے جاتے۔ کل ناشتہ کے وقت تم  ساتھ بیٹھ کر نرمی سے بتا دینا۔"کمرے کی فضا پرسکون تھی۔ کوئی تالی، کوئی شور، کوئی مبارک باد نہیں۔صرف ایک سادہ، خاموش لمحہ… جس میں ایک باپ نے رب سے دعا مانگی: "یا اللہ، میری بیٹی کو سکون والا نصیب عطا فرما۔"+++±+++++++دوپہر کا وقت… کمرے میں نیم روشن سا ماحول…شائستہ آئینے کے سامنے کھڑی، نرم گلابی دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ بیڈ پر زاہد بیٹھا اخبار کے صفحے الٹ رہا تھا۔"آج کچھ خاص لگ رہی ہو…" زاہد نے بے دھیانی سے کہا، جیسے بات کہنی بھی تھی اور سننی بھی۔شائستہ مسکرائی۔ "خاص لگنا چاہیے… آج ہمارے نکاح کو تین مہینے ہو گئے ہیں۔"زاہد نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا۔ "واقعی؟ وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے…""وقت صرف گزرتا نہیں زاہد… رشتے بھی بدلتا ہے، فاصلے بھی… اور سوچیں بھی۔"زاہد نے اخبار رکھ دیا۔ شائستہ کی طرف متوجہ ہوا۔"کیا مطلب ہے تمہارا؟"شائستہ آہستہ سے اُس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔"زاہد، میں چاہتی ہوں ہم ایک مکمل زندگی گزاریں۔ ایک گھر ہو… جہاں صرف ہم نہ ہوں، بلکہ ایک خاندان ہو۔""مطلب؟""آپ کے امّی، بہنیں، اُن کی ہنسی، اُن کی ناراضگیاں… زاہد، میں تنہائی سے تھک گئی ہوں۔ مجھے شور والا گھر پسند ہے۔ جہاں بچے دوڑتے ہوں،"زاہد نے دھیرے سے سانس لی۔"وہ رشتے… میں خود توڑ چکا ہوں، شائستہ۔"شائستہ نے اُس کا ہاتھ تھام لیا۔"اور میں… اُنہیں جوڑنا چاہتی ہوں۔ میں دشمن نہیں ہوں اُن کا، اور نہ ہی تمہیں اُن سے دور رکھنا چاہتی ہوں۔ صرف اتنا چاہتی ہوں کہ ہم اُن سے جا کر ملیں۔"زاہد کا دل ایک پل کو ہولایا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے ماں کا دھندلا چہرہ آیا، صادیہ کا ہنستا ہوا لہجہ، اور عینی کی وہ سادگی جو اکثر باتیں لفظوں کے بغیر سمجھ جاتی تھی۔شائستہ نے موقع دیکھ کر آخری تیر چھوڑا:"میں تمہاری بیوی ہوں زاہد… پر بہو بننے کا حق کب دوں گے مجھے؟"زاہد کچھ نہ بولا۔ بس خاموشی سے اٹھا، اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ شائستہ پیچھے سے دیکھتی رہی۔ اُس کی نظروں میں ایک جیت کی چمک تھی — جیسے شکار نے رخ موڑ لیا ہو…                           "شام کا وقت تھا۔ شائستہ اپنی ماں کے گھر آئی تھی۔ چھوٹا سا، مگر صاف ستھرا صحن تھا۔ پرانی چارپائیاں بچھی تھیں۔ صحن کے ایک طرف اماں چولہے پر چائے بنا رہی تھیں، اور بہنیں بال کھولے، ایک دوسرے کی چوٹی بنا رہی تھیں۔"تم سب کو پتا بھی ہے، میری شادی کو تین مہینے ہو چلے… ابھی تک نہ ایک سونا ملا، نہ زاہد کے گھر کا کچھ پتا…"شائستہ نے چوٹی بناتی بہن کے ہاتھ جھٹک کر کہا، "اور تم سب یہاں ہنس رہی ہو۔"چھوٹی بہنا نے آنکھیں گھما کر کہا، "تو کیا کریں آپا؟ رونا دھونا کریں؟ بندہ قسمت والی ہوتی ہو جو تم جیسی بہن کو ڈاکٹر نہیں، زاہد ملا…"ماں نے پیچھے سے لقمہ دیا، "بس کر، حرا! تُو ہمیشہ ہی زبان چلاتی ہے۔"پھر شائستہ کی طرف مڑ کر کہا:"تو کیا سوچا ہے تُو نے؟ زاہد کو ماں کے گھر لے جا رہی ہو؟"شائستہ نے چائے کا کپ تھامتے ہوئے کہا، "لے جا رہی ہوں۔ بس کچھ دنوں میں۔ اسے یقین دلایا ہے کہ تنہا زندگی اچھی نہیں۔ خاندان ہونا ضروری ہے۔"ماں نے زیرِ لب ہنسی میں کہا، "بس یہی دن ہیں۔ ابھی قابو میں ہے۔ کل کو اگر ماں کے آنسو دیکھ کر بگڑ گیا نا… پھر تُو منہ دیکھتی رہ جائے گی۔"بہن ہنسی، "واپس جا کر اُسے یاد دِلاؤ، گھر کی رجسٹری کس کے نام ہے؟ وہ سب کس کا ہے؟ اُس کی ماں نے جو کچھ چھوڑا، وہ اب تیری چادر میں ہے۔"شائستہ نے دھیرے سے سر ہلایا، اور آنکھیں سکیڑ کر کہا:"وہ سب کچھ اُس کے خاندان سے الگ کیے بغیر میرے ہاتھ نہیں آئے گا۔ ابھی جذبات میں ہے، مگر آہستہ آہستہ… سچ بدل جاتا ہے، جب سننے والا اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔"چھوٹی بہن ہنسی، "واہ آپا، تم تو فلموں کی ولن نکلیں!"شائستہ نے سپاٹ لہجے میں کہا:"میں ولن نہیں… بس خود کی زندگی کی ہیروئن ہوں۔"گھر میں ہلکی سی خوشی کی لہر تھی، جو کسی شور میں ظاہر نہیں ہو رہی تھی، صرف معمولات میں نرمی آ گئی تھی، باتوں میں ذرا سی ہنسی شامل ہو گئی تھی، اور چہروں پر ایک چھپی چھپی روشنی اُتر آئی تھی۔امی نے آہستگی سے سفید چادر پر نفیس گلابی کڑھائی والا دوپٹہ تہہ کیا اور الماری میں رکھتے ہوئے پلٹ کر کہا، “چائے کے ساتھ کچھ میٹھا بھی رکھ لینا، بچے بھی آئیں گے ساتھ۔”سادیہ جلدی سے سبزی کاٹتے ہوئے بولی، “امی وہ لوگ اتنے رکھ رکھاؤ والے لگ رہے تھے، بچی بھی چھوٹی سی ساتھ لائیں گے… میں اُس کے لیے چاکلیٹس اور کچھ نئے کلرز نکال لیتی ہوں۔”دادی نے دھیرے سے مسکرا کر سر ہلایا، “بچے خوش ہوں تو رشتے اور باتیں خود بخود آسان ہو جاتی ہیں۔”شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے جب دروازے پر دستک ہوئی۔ کوئی خاص اہتمام نہیں تھا، لیکن ہر چیز صاف ستھری اور ترتیب سے رکھی گئی تھی۔ مہمان اندر داخل ہوئے—مرد حضرات ڈرائنگ روم کی طرف، اور خواتین سیدھا اندر، بیٹھک کی طرف بڑھ گئیں۔ہاتھوں میں خوبصورت پیکنگ والے تحفے تھے—ایک مخملی ڈبیا جس میں چھوٹے چھوٹے سونے کے بندے، شفون کی چار ساڑھیاں، عطر، اور ننھی بچی کے لیے ایک گلابی فراک جس پر سفید موتی جڑے تھے۔ ننھی سی بچی—میرب—جو ساتھ آئی تھی، اپنے ہاتھ میں ایک ننھی سی بیگ نما گڑیا لیے، کمرے میں ادھر اُدھر دوڑتی رہی۔ اُس کے ہر قہقہے پر کمرے کی فضا اور ہلکی ہو گئی۔سادیہ اُن کے ساتھ صحن میں آ گئی، جہاں لڑکے کی بھابھی، ایک سنجیدہ اور نفیس مزاج خاتون، کافی خاموشی سے چیزوں کا جائزہ لے رہی تھیں۔ سادیہ نے شوق سے پوچھا، “آپ کچھ لیں گی؟”وہ ہلکا سا مسکرا دیں، “میں بس سب کچھ دیکھ رہی ہوں… کتنا سلیقہ ہے آپ لوگوں میں۔ لگتا ہے ہر چیز دعا کے ساتھ سجائی گئی ہے۔”سادیہ نے اُن کی بات پر تھوڑا سا شرمایا، پھر دل میں ایک مان سا محسوس کیا۔ عورت کی آنکھ بہت کچھ جان لیتی ہے، اور وہ بھابھی—صاف گو، خود اعتماد اور خوشحال شخصیت کی حامل—ایسی لگتی تھیں جیسے وہ ہر رشتے میں ایک سکون اور اعتبار شامل کر سکتی ہیں۔اس سب کے بیچ، عینی کہیں پیچھے کمرے میں چپ چاپ پردہ کے پیچھے سے سب کچھ دیکھتی رہی۔ وہ جانتی تھی، خوشی کبھی چیخ کر نہیں آتی… خاموش قدموں سے آتی ہے، اور وہ آہٹ اب سنائی دینے لگی تھی۔+++++کچن میں ہلکی ہلکی چائے کی خوشبو گھل رہی تھی۔ دوپہر کے سناٹے میں برتنوں کی ہلکی چھنک ایک مانوس سی راحت دے رہی تھی۔ صادیہ میز پر کاغذات پھیلائے، کچھ نوٹ لکھ رہی تھیں۔ امّی پاس بیٹھی ہوئی تھیں، ان کے ہاتھ میں ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا جس پر دوپٹے کی بیل چیک کی جا رہی تھی۔"دیکھ بیٹا، نکاح تین ماہ بعد ہے۔ اتنا وقت ہے کہ ہم آرام سے سب کچھ کر لیں،" امّی نے نرم لہجے میں کہا۔صادیہ نے سر ہلایا، جیسے یہ جملہ وہ کئی بار سن چکی ہو، مگر دل کا بوجھ پھر بھی ویسا ہی ہو۔"میں نے کپڑے کے کچھ نمونے دیکھے ہیں آن لائن… عینی کو زیادہ بھاری لباس پسند نہیں، تو میں سوچ رہی ہوں ہلکا سا رنگ، شاید گلابی یا خاکی، کچھ ایسا… جو اس کی طبیعت کے حساب سے ہو۔""بلکل۔ جو لڑکی سادگی میں خوبصورتی ڈھونڈتی ہے، اُسے بناوٹ کی چمک راس نہیں آتی،" امّی نے دھیرے سے کپڑے کو تہہ کیا۔ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔ باہر صحن میں درختوں کی شاخیں ہلکی ہوا سے سرسرانے لگیں۔"تحفوں کا بھی انتظام کرنا ہوگا۔ رسم کے دن جب وہ لوگ آئیں گے… کچھ خاص دینا ہو گا، عزت کے لائق۔""ہاں، وہ رسمیں جو اصل میں دل جوڑنے کا بہانہ ہوتی ہیں… مگر بیٹا، دل ہی دور ہو جائیں تو رسمیں بھی رسم ہی رہ جاتی ہیں۔"صادیہ نے آہستہ سے قلم رکھا۔ اس کی نظریں ایک کونے میں پڑی، پرانے سے فریم پر جا ٹھہریں — جس میں ایک نوجوان لڑکے کی تصویر تھی، سنجیدہ سا چہرہ، گہری نظریں… زاہد۔"امّی…" اُس نے آہستہ سے کہا، "آپ نے اُسے خبر نہیں دی ابھی تک؟""نہیں۔" امّی کی آواز میں وہ درد تھا جو صرف مائیں چھپا سکتی ہیں۔ "جس نے خود رابطہ ختم کیا ہو، اُسے بار بار آواز نہیں دی جاتی۔ دل رکھ دینے سے بھی پہلے عزت رکھی جاتی ہے۔""مگر وہ بھائی ہے… اور نکاح ایک بار ہی ہوتا ہے،" صادیہ کی آواز رُک رُک کر نکل رہی تھی۔"میں نے اُسے ہر رات رب کے سپرد کیا ہے۔ وہ اب میری دعاؤں میں ہے، روزمرّہ کی فکروں میں نہیں۔"ایک لمحے کو صادیہ نے کچھ کہنا چاہا، مگر پھر خاموش ہو گئی۔ امّی نے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔"یہ دن خوشی کے ہیں۔ اور خوشی ایسی چیز ہے جسے کسی کی کمی سے دھندلا نہیں پڑنے دینا چاہیے۔ تم اپنی بہن کے لیے بہترین تیاریاں کرو… زاہد کے لیے دعا ہم دونوں نے پہلے ہی رب کی جھولی میں ڈال دی ہے۔""ان شاء اللہ، وہ بھی کسی دن واپس پلٹے گا۔ شاید ہماری دعاؤں کی رم میں…"دونوں نے اک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا۔ درد کہاں گیا، یہ کسی کو خبر نہ ہوئی — شاید اُسی رم میں بہہ گیا ہوگا۔شائستہ دوپٹے کو ٹھیک کرتی، کچن کے کاؤنٹر کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ چائے کا کپ اُس کے ہاتھ میں تھا، اور اس کی آنکھوں میں وہ عجیب سی چمک تھی جو ہمیشہ کچھ نیا حاصل کرنے کی کوشش میں جھلکتی ہے۔ سامنے بیٹھیں بہنیں نیم دلچسپی سے اخبار کے صفحات پلٹ رہی تھیں، مگر کان مکمل طور پر بات سننے میں لگے ہوئے تھے۔ماں نے ہاتھ میں تسبیح لیے ہوئے ہولے سے کہا، "یہ وقت ہے سمجھداری سے چلنے کا… تمھارے شوہر اب تمھاری بات مان رہے ہیں، یہ کم موقع نہیں۔"شائستہ نے ہلکا سا طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "وہ تو مان رہے ہیں، پر صرف باتوں میں۔ گھر جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔"ایک بہن نے فوراً دخل دیا، "اور وہ گھر، وہ زمین… وہ سب اُن کے نام ہے نا؟ تو واپس جانا تو بنتا ہے۔ مالک ہو کے پردیس میں بیٹھا ہے جیسے کسی اور کے صدقے پر پل رہا ہو۔"شائستہ نے نظریں نیچی کیں، چائے کا گھونٹ لیا اور پھر کہا، "واپس جانے کا خیال دل میں ہے… لیکن وہ ان لوگوں کو بھولا نہیں، جنہوں نے اُسے دھتکارا تھا۔"ماں نے سر جھٹکتے ہوئے کہا، "اسی لیے تو کہہ رہی ہوں، اُن رشتوں کا کیا جنہوں نے تمھیں کبھی قبول ہی نہ کیا؟ اب ہمیں اپنے لیے سوچنا ہے۔"دوسری بہن نے ہنستے ہوئے کہا، "اور ہم کب تک انتظار کریں؟ کسی اور کو بھی تو قابو میں لانا ہے… ایک ایسا جو اکیلا ہو، سیدھا ہو، اور تمھاری طرح عقل والی بہن کا شوہر بننے کے قابل ہو۔"ماں کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔ "ہاں… اب اگلی باری تم دونوں کی ہے۔ جو طریقہ ایک بار کامیاب ہو چکا، وہ پھر کیوں نہ اپنایا جائے؟"شائستہ نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے آنکھیں سکیڑیں، "میں کسی کو تلاش کرتی ہوں… ایسا جو خود کو خوش نصیب سمجھے اگر ہماری بہنیں اُس کی زندگی میں آئیں۔"سازش کی بو نہیں آتی تھی—یہ سب کچھ اتنی نرمی سے کہا گیا تھا کہ اگر کوئی اور سن لے، تو اُسے صرف "گھر کی عورتوں کی باتیں" لگیں۔مگر ان باتوں میں مستقبل کے نقشے بن رہے تھے… اور زاہد، بے خبر اُن رسیوں میں الجھتا جا رہا تھا جن کا سرا اب مکمل طور پر شائستہ کے ہاتھ میں تھا۔+(+++++دوپہر کی دھوپ کھڑکی کے پردوں پر چھن چھن کر آ رہی تھی۔ کمرے میں سکون سا تھا، مگر ایک خاص سی مصروفیت بھی — وہ جو ہر آنے والی خوشی سے پہلے کے دنوں میں محسوس ہوتی ہے۔سادیہ الماری کے نچلے خانے سے شادی کی فہرست نکال رہی تھی۔ کاغذ پر کچھ تاریخیں، چند نام اور چیزوں کی فہرست درج تھی، جنہیں اب ترتیب دینا تھا۔ امّی پلنگ پر بیٹھی تھیں، دھیمی آواز میں کہہ رہی تھیں:" اللہ کرے، یہ دن خیر سے آ جائے۔"سادیہ نے اثبات میں سر ہلایا، "ہاں امّی، وقت ہے مگر تیاری ذرا پہلے سے شروع کریں تو بہتر رہے گا۔ جوڑے کا رنگ، کپڑا، جُوتی، سب باتیں ابھی سوچنی ہیں۔""اور دُلہن کی پسند؟" امّی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔"وہ تو ہمیشہ کہتی تھی، سادگی سے نکاح ہو… سفید دوپٹہ، نیلا جوڑا۔ میں چاہتی ہوں، جیسے اس کا دل چاہے ویسا ہی ہو۔"امّی کی نظریں کچھ پل کو خاموش ہو گئیں۔ پھر آہستگی سے کہا، "اللہ نے بیٹی کے نصیب کھولے، اُس کا شکر ہے۔ اور بیٹی کا فرض ہے کہ وہ ان لمحوں میں اپنی عزت اور وقار سے اپنے گھر کو آباد کرے۔"سادیہ نے دھیرے سے کہا، "امی… آپ فکر نہ کریں۔ ہم کچھ نہیں بھولیں گے۔ چاہے لباس ہو یا رخصتی کی گھڑی… سب کچھ دل سے ہوگا۔"امّی نے اثبات میں سر ہلایا، "بس رشتے دل سے نبھانے ہوتے ہیں۔ باقی سب رسمیں ہیں۔"پھر ایک لمحے کے لیے وہ فہرست کے کونے کو دیکھتے ہوئے بولیں، "کبھی کبھی دل چاہتا ہے، سب کے درمیان وہ بھی ہوتا… زاہد۔ بہن کی خوشی دیکھتا، اس کا ہاتھ تھام کر اسے روانہ کرتا۔"سادیہ خاموش ہوئی، پھر آہستگی سے بولی، "ہم اس کا انتظار نہیں روک سکتے، امی… لیکن دعا روکنا بھی نہیں آتا۔ بس وہ آ جائے، ایک نظر کو ہی سہی۔"امّی کی آنکھوں میں نمی تھی، لیکن ہونٹوں پر وہی دعاؤں بھری مسکراہٹ۔ جیسے ایک ماں کے دل میں کبھی بھی امید ختم نہیں ہوتی۔دروازے پر دستک ہوئی، اور سادیہ نے چونک کر گھڑی کی طرف دیکھا۔ سہ پہر کا وقت تھا، مہمانوں کا کوئی انتظار نہ تھا۔ وہ دروازے تک آئی، اور دروازہ کھول کر ساکت ہو گئی۔سامنے زاہد کھڑا تھا — اور اُس کے ساتھ شائستہ۔چند لمحے خاموشی میں گزرے۔ سادیہ کی آنکھوں میں حیرت نہیں، بس وہ گہرا دکھ تھا جسے سالوں کی تلخی نے جمادیا ہو۔ اُس نے نہ سلام کیا نہ سوال، بس ایک لمحہ دیکھا، اور دروازہ کھولے بغیر واپس پلٹ گئی۔زاہد نے دھیرے سے آواز دی، "اپی… بات تو سن لیں…"سادیہ نے پلٹے بغیر کہا، "امی اندر ہیں، اگر آنا ہے تو خود بات کر لینا۔"شائستہ نے زاہد کا بازو پکڑا، "چلو، شاید یہ غلط وقت ہے۔""نہیں، میں ماں سے ملے بغیر نہیں جاؤں گا۔" زاہد کی آواز میں ضد نہیں، افسوس تھا — ایک بوجھ جو برسوں سے اُس کے سینے پر رکھا تھا۔وہ دونوں اندر داخل ہوئے۔ امی صحن میں بیٹھی تھیں، آنکھوں پر چشمہ، اور ہاتھوں میں کپڑوں کی تہیں۔ جیسے ہی اُن کی نظر زاہد اور شائستہ پر پڑی، اُن کے چہرے پر ایک لمحہ کے لیے جذبہ آیا، پھر ضبط نے جگہ لے لی۔"السلام علیکم، امی…" زاہد نے آہستگی سے کہا۔امی نے نظریں نیچی رکھتے ہوئے مختصر جواب دیا، "وعلیکم السلام۔"شائستہ نے ادب سے سر جھکایا، "امی جی… دعائیں چاہتی ہوں۔""دعائیں؟" امی نے پہلی بار آنکھ اٹھا کر دیکھا، "تمہیں دعاؤں کی ضرورت اس دن تھی جب تم نے ہمارا بیٹا چھین لیا تھا۔ اب تمہیں صرف اجازت چاہیے کہ یہاں آ سکو۔"کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ شائستہ نے نظریں جھکا لیں۔ زاہد نے ایک گہرا سانس لیا۔"امی، غلطی میری ہے۔ میں نے… شاید سب کچھ بہت غلط طریقے سے کیا۔ لیکن میں آپ سے ناراض نہیں ہو سکتا۔ آپ ناراض رہیں، مگر ایک بار… صرف ایک بار… مجھے معاف کر دیں۔"امی کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں، لیکن اُن کا لہجہ مضبوط تھا۔"معافی زبانی نہیں ہوتی، زاہد۔ وہ دل سے مانگنی پڑتی ہے۔ اور تمہارا دل… ابھی تک مکمل یہاں نہیں آیا۔"زاہد نے خاموشی سے سر جھکایا۔ شائستہ نے ایک نظر سب پر ڈالی — کوئی بھی اُس سے بات نہیں کر رہا تھا، اور وہ اس نظراندازی کو محسوس بھی کر رہی تھی، سہ بھی رہی تھی۔کچھ دیر بعد زاہد اٹھا، "ہم چلتے ہیں، امی۔ لیکن اگر آپ نے معاف نہ کیا، تو شاید یہ گھر کبھی ویسا نہ ہو جیسا تھا۔"امی نے کوئی جواب نہ دیا۔ سادیہ نے دروازے تک آ کر صرف ایک بات کہی:بالکل، آپ کی ہدایت کے مطابق اب منظر کو مزید حقیقت پسندانہ اور کہانی کے بہاؤ کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ یہ منظر زاہد اور شائستہ کے گھر آنے کے فوراً بعد کا ہے، جب سب ناراض ہیں، ماحول ٹھنڈا ہے، اور زاہد جانے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے—مگر شائستہ اپنی چالاکی سے موقع کا فائدہ اٹھاتی ہے۔زاہد خاموشی سے دروازے کی طرف بڑھا۔ امی اور سادیہ کی ناراضی کا وزن اُس کے قدموں کو بوجھل کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا، دل کے زخم برسوں میں بھرتے ہیں، لمحوں میں نہیں۔"چلو، شائستہ۔" اُس نے آہستہ کہا۔شائستہ نے پلٹ کر امی کی طرف دیکھا، جنہوں نے سرد انداز میں نظریں ہٹالی تھیں۔ سادیہ کمرے کے کونے میں کھڑی بس خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔زاہد دروازے کے قریب پہنچ چکا تھا جب شائستہ نے آہستگی سے کہا، "ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔"زاہد رُک گیا، حیرت سے اُسے دیکھا، "کیا مطلب؟ سب کچھ دیکھ لیا تم نے، تمہیں لگتا ہے اب یہاں رکنا مناسب ہے؟"شائستہ نے اپنی اوپری چادر کو درست کرتے ہوئے نرمی سے مگر چالاکی سے کہا، "یہ گھر تمہارا ہے، تمہاری ماں کا ہے۔ میں نے اگر تم سے نکاح کیا ہے، تو کیا اتنی بھی جگہ نہیں کہ کچھ دن اِس گھر میں رہ سکوں؟"زاہد کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر شائستہ نے بات جاری رکھی، "دیکھو، اگر آج ہم یہاں سے گئے تو تمہاری ماں کو لگے گا کہ ہم ڈر گئے، ہم واقعی غلط تھے۔ مجھے برا لگا، سچ میں، مگر اگر صبر سے کام لیا جائے تو دل بھی بدل جاتے ہیں۔"زاہد نے خاموشی سے ایک بار پھر ماں کے بند کمرے کی طرف دیکھا، پھر گہرا سانس لیا اور آہستہ سے سر ہلا دیا۔شائستہ نے جیت کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ دبائی اور پیچھے مڑ کر بیٹھنے کی جگہ تلاش کرنے لگی۔سادیہ دروازے کے قریب کھڑی تھی۔ وہ اندر سب کچھ سن چکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں خفگی ضرور تھی، مگر اُسے شائستہ کی باتیں زہر میں بجھی ہوئی چینی جیسی محسوس ہوئیں—میٹھی، مگر کاٹ دار۔"جگہ تو ہر گھر میں ہوتی ہے،" سادیہ نے دل میں سوچا، "مگر عزت کا کمرہ صرف اُسی کو ملتا ہے جو اسے لے کر نہ آئے، بلکہ خود چھوڑ جائے۔"رات کافی گزر چکی تھی۔ گھر کے سب افراد اپنے کمروں میں تھے۔ صرف زاہد ابھی تک صحن میں ٹہل رہا تھا۔ کبھی آسمان کو دیکھتا، کبھی دروازے کو… جیسے کسی لمحے کو خود سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔ شائستہ اوپر کے کمرے سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اُس نے کچھ نہیں کہا، بس زاہد کے خاموش قدموں میں اضطراب کو محسوس کیا۔کچھ دیر بعد وہ اٹھا، اور آہستہ آہستہ امی کے کمرے کی طرف بڑھا۔ دروازے پر ہاتھ رکھا، پھر ایک گہری سانس لی، اور دروازہ کھٹکھٹایا۔"امی؟" آواز دھیمی تھی، ٹوٹتی ہوئی سی۔اندر سے کچھ لمحے خاموشی رہی۔ پھر دروازہ کھلا۔ امی نے دروازہ تھوڑا سا کھولا، چہرہ تھکا ہوا مگر مضبوط۔ وہ شاید یہی لمحہ چاہ رہی تھیں… مگر غرور اور دکھ نے ان کے چہرے کو سخت رکھا تھا۔زاہد نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ "امی… میں نے غلطی کی۔ بہت بڑی۔ آپ سے، سب سے۔"امی کچھ کہنے ہی لگیں تھیں کہ زاہد نے قدم آگے بڑھایا اور ان کے پاؤں پکڑ لیے۔ "امی پلیز… معاف کر دیں۔ میں جانتا ہوں آپ نے بہت دکھ سہے، مگر آپ کا بیٹا اب بھی وہی ہے… جو ہر عید آپ سے نئے کپڑوں کی ضد کرتا تھا۔ جو آپ کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینا چاہتا تھا۔"دروازے کے پیچھے ابو بھی کھڑے تھے۔ وہ باہر نہیں آئے، مگر ان کی سانسیں بھاری ہونے لگیں۔امی نے ہاتھ بڑھا کر زاہد کے کندھے تھامے، "اٹھو… ماں بیٹے کو کب تک روکے رکھتی ہے؟"زاہد نے حیرت سے سر اٹھایا۔ امی کی آنکھوں میں نمی تھی، مگر چہرہ نرم ہو چکا تھا۔ "تو اب یہاں ہی رہے گا؟"زاہد نے دھیرے سے سر ہلایا۔ "ہاں امی، اگر آپ معاف کر دیں۔"پیچھے سے ابو کی آواز آئی، جو اکثر بہت کم بولتے تھے: "بیٹا ہے تو ہمارا… تو کہیں نہیں گیا تھا، بس راستہ بھٹک گیا تھا۔"وہ لمحہ کوئی بڑا اعلان نہیں تھا، نہ آنسوؤں کی بارش… مگر زاہد کا سر پہلی بار سکون سے جھکا تھا، اور امی کے چہرے پر برسوں بعد سکون تھا۔اور شائستہ… جو سیڑھیوں کے پاس خاموش کھڑی تھی، وہ لمحہ اس کے لیے ایک خاموش جیت تھا۔شائستہ کی موجودگی اب اس گھر کا حصہ بن چکی تھی، مگر اب تک وہ محض ایک خاموش سائے کی صورت چل رہی تھی۔ زاہد کے ماں باپ نے بیٹے کو معاف تو کر دیا تھا، مگر شائستہ کے لیے دل کھول دینا آسان نہ تھا۔ مگر زاہد اب چاہتا تھا کہ سب کچھ کھل کر ہو—صاف، واضح، اور عزت کے ساتھ۔دوپہر کا وقت تھا۔ امی صحن میں بیٹھی سبزی بنا رہی تھیں۔ ابو اخبار لیے اپنے مخصوص صوفے پر تھے۔ دادی جی بھی چھوٹے سے تکیے سے ٹیک لگائے، خاموش سی بیٹھی تھیں۔ تبھی زاہد نے شائستہ کو آہستہ سے آواز دی۔"شائستہ، ذرا آؤ…"وہ قدرے ہچکچاتے قدموں سے آئی، گلابی دوپٹہ کندھے پر سنبھالے، نظریں جھکائے۔ اندر آنے سے پہلے اس نے زاہد کو دیکھا۔ اُس نے حوصلہ افزا مسکراہٹ دی۔"امی، ابو… یہ شائستہ ہے۔ میری بیوی۔"امی نے نظریں اٹھا کر بس ایک نظر دیکھا، پھر دوبارہ سبزی کی طرف پلٹ گئیں۔ چہرہ سخت نہیں تھا، مگر گہرا۔ جیسے کوئی دیوار ابھی گری نہ ہو۔ ابو نے ہلکا سا سر ہلایا۔ دادی نے تھوڑا سا گردن گھما کر اسے بغور دیکھا۔"السلام علیکم،" شائستہ نے آہستہ سے کہا۔"وعلیکم السلام۔" دادی کی آواز آئی، بے رنگ مگر شائستہ کے لیے یہی پہلا لفظ امید کی طرح تھا۔زاہد نے دوبارہ بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ "امی، شائستہ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا چاہتی ہے۔ آپ اسے جو کہیں گی وہ کرے گی۔"امی نے ہاتھ روک دیے، کچھ لمحوں کے لیے اسے دیکھا۔ "اگر رہنا ہے تو عزت سے رہنا، اور کام دل سے کرنا۔ یہاں دکھاوا نہیں چلتا۔""جی امی، ان شاء اللہ،" شائستہ کی آواز لرزتی ہوئی تھی، مگر سچائی سے بھری۔دادی نے ہلکا سا تبصرہ کیا، "نئی بہو ہے… وقت لگتا ہے دل میں جگہ بنانے کو۔ مگر دل کی صاف ہو، تو راستہ خود بن جاتا ہے۔"یہ الفاظ جیسے خاموش گھر میں ایک امید کا چراغ جلانے لگے تھے۔زاہد نے شائستہ کی طرف دیکھا۔ "سب ٹھیک ہو جائے گا، بس سچائی اور صبر رکھنا۔"شائستہ نے ہلکی سی مسکراہٹ سے سر ہلایا۔ اسے علم تھا، یہ رشتہ صرف نکاح نامے پر نہیں، بلکہ دلوں پر جیتا جاتا ہے… اور اسے ابھی بہت کچھ جیتنا ہے۔:صحن میں زاہد نے شائستہ کا تعارف گھر والوں سے کروا دیا تھا، مگر تعارف سے رشتے نہیں بنتے۔ اندر کی باتیں آنکھوں سے زیادہ صاف دکھائی دیتی ہیں۔ شائستہ نے سب کے سامنے عاجزی اور محبت کا مظاہرہ کیا—امی کے ہاتھ چومے، دادی کی بات پر آہستہ سے سر ہلایا، ابو کے قدموں میں بیٹھ کر دعا لی۔ مگر اس کی آنکھوں میں وہ نرمی نہیں تھی جو سچائی کا عکس دیتی ہے۔ وہاں کہیں چھپی ہوئی برتری کا احساس، انا اور چالاکی تھی۔اندر ہی اندر وہ سوچ رہی تھی، "یہ سب تو سیدھے سادے لوگ ہیں… ان کے جذبات سے کھیلنا تو کچھ مشکل نہیں۔ بس زبان میٹھی رکھنی ہے، اور اصل کام آرام سے ہوتا جائے گا۔"اسی دوغلے پن کے ساتھ جب وہ پہلی بار سادیہ سے ملی، تب بھی لہجہ نرم اور الفاظ ادب سے لبریز تھے۔ "السلام علیکم آپی، بہت کچھ سنا تھا آپ کے بارے میں… آپ کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے زاہد واقعی خوش نصیب ہے۔"سادیہ نے رسمی سا جواب دیا۔ "وعلیکم السلام، خوش آمدید۔"لیکن جب شائستہ کی نظر عینی پر پڑی، تو لمحہ بھر کو اس کے چہرے کا رنگ بدلا۔ عینی مکمل پردے میں، خاموش اور باوقار بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں وقار، باتوں میں نرمی اور شخصیت میں وہ چمک تھی جو کسی کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لے۔ شائستہ نے اسے ایک نظر اوپر سے نیچے تک دیکھا، اور دل میں جلن کا سانپ پھنکارا۔"یہی ہے؟ سادیہ کی بہن؟ حد سے زیادہ سنجیدہ… اور خوبصورتی بھی نصیب میں ہے۔ بس یہی ایک رکاوٹ بنے گی۔" دل میں شائستہ نے طے کر لیا تھا کہ اس لڑکی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ جانتی تھی کہ عینی خاموش ہے، لیکن کمزور نہیں۔زاہد، جو اب ان سب کو ساتھ دیکھ کر مطمئن ہو رہا تھا، بالکل نہیں جانتا تھا کہ شائستہ کا چہرہ کچھ اور کہتا ہے، اور دل کچھ اور سوچتا ہے۔دوپہر کی چمکتی دھوپ میں جیسے ہی مہمانوں کی گاڑی دروازے پر رکی، پورے گھر میں ایک مرتبہ پھر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ امی نے جلدی سے دوپٹہ سنوارا، سادیہ نے عینی کو کمرے میں بھیج دیا، اور دادی نے آنکھوں میں سرمہ لگاتے ہوئے کہا، "اللہ نصیب اچھے کرے، یہ لوگ تو دور سے ہی خاندانی لگ رہے ہیں۔"شائستہ، جو اپنے کمرے سے باہر آئی تو اس کی نظر سب سے پہلے گاڑی سے اترتے ہوئے نوجوان پر پڑی—قد بلند، سانولا رنگ، اعتماد سے بھرپور چال، اور شریفانہ لباس۔ اس کے ساتھ اس کی ماں اور دو بہنیں تھیں—سادگی مگر شان و شوکت لیے ہوئے، چہرے پر مسکراہٹ، گفتگو میں شائستگی۔ ان کی شخصیتوں سے خاندانی وقار جھلک رہا تھا۔شائستہ کی آنکھوں میں چند لمحے کے لیے حیرت اور پھر جلن کا سایہ ابھرا۔ "یہ ہے عینی کا ہونے والا شوہر؟... اور یہ سب لوگ؟ اتنے پڑھے لکھے، اور مہذب؟" اس نے جلدی سے اپنی مسکراہٹ ترتیب دی اور آگے بڑھ کر سلام کیا۔مہمانوں نے سب کو خوبصورتی سے سلام کیا، امی کو گلے لگایا، دادی سے دعائیں لیں۔ شائستہ پاس کھڑی تھی، مگر ان کے انداز میں وہ اپنائیت نہ تھی جو وہ اپنے خاندان کے لیے رکھتے تھے۔ ان کی توجہ سادیہ اور امی پر تھی، اور عینی کے ذکر پر ان کی آنکھوں میں فخر دکھائی دیا۔شائستہ کے دل میں ایک اور خیال نے سر اٹھایا، "اگر یہ لڑکا میری بہن کے لیے آیا ہوتا تو… شاید میری زندگی کچھ اور ہوتی۔ زاہد نے تو… بس جو مل گیا، وہی چنا۔"اس نے خاموشی سے سب کا جائزہ لیا—مہمانوں کے ہاتھ میں آئے تحائف، جو سادگی میں بھی مہنگے اور باوقار تھے، عینی کے لیے لائے گئے لباس اور جیولری کے ڈبے، اور سب سے بڑھ کر ان کی عزت دینے کا انداز۔عینی کمرے سے باہر نہیں نکلی، مگر سب نے اس کا ذکر اتنی محبت سے کیا کہ دادی بھی بول اٹھیں، "بچیاں پردے میں رہ کر بھی دل جیت لیتی ہیں، جیسے ہماری عینی۔"شائستہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، مگر دل میں جلن کی شدت بڑھ چکی تھی۔ "یہ رشتہ… یہ مقام… یہ عزت… سب کچھ عینی کے لیے؟" اس نے دل میں ایک بار پھر خود سے وعدہ کیا، "مجھے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا… اور یہ سب، مجھے پیچھے نہیں چھوڑ سکتے۔"یقیناً، منظر کو مزید حقیقت پسندانہ اور نفسیاتی طور پر گہرائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اب شائستہ نہ صرف عینی کے متعلق چالاکی سے شکوک پیدا کرتی ہے بلکہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بہن سارہ کی تعریفوں کے پل بھی باندھتی ہے—ایسا سب کچھ بڑے نفیس اور محبت بھرے انداز میں، جیسے سب کچھ خیرخواہی میں کہا جا رہا ہو۔سادیہ "ویسے سچ پوچھیں، مجھے تو رشتوں کی باتیں بہت الجھی ہوئی لگتی ہیں۔ ہر لڑکی ایک جیسی نہیں ہوتی، ہر گھر کی تربیت الگ ہوتی ہے۔"پھر وہ ذرا ٹھہر کر، گویا کوئی یاد تازہ کرتے ہوئے کہنے لگی: "میری چھوٹی بہن سارہ کو دیکھیں نا، بالکل شوخ، حاضر جواب، ہر بات میں آگے۔ لوگ اس سے مل کر کہہ دیتے ہیں کہ فوراً دل میں گھر کر لیتی ہے۔"ایک مہمان خاتون نے مسکرا کر پوچھا، "واقعی؟ کہاں رہتی ہیں وہ؟"شائستہ نے بڑی سادگی سے جواب دیا، "ہمارے ساتھ ہی، ابھی پڑھائی مکمل کر رہی ہے۔ بس، اللہ نصیب اچھا کرے… دل چاہتا ہے کہ وہ بھی کسی اچھے گھر کی بہو بنے۔"پھر اس نے بظاہر مخلص لہجے میں کہا: "عینی بھی اچھی بچی ہے، ماشاء اللہ۔ بس تھوڑی سنجیدہ سی ہے۔ کم گو۔ ایسا لگتا ہے جیسے جذبات کو لفظوں میں ڈھالنے سے جھجکتی ہو۔ خیر، ہر کسی کا انداز الگ ہوتا ہے… ہم کون ہوتے ہیں فیصلہ کرنے والے؟"مگر بات کہہ دی گئی تھی۔ موازنے کی لکیر کھینچ دی گئی تھی۔ سارہ جیسی کھلی، شوخ اور ملنسار لڑکی کا ذکر عینی کے "سنجیدہ مزاج" کے ساتھ ملا کر—شائستہ نے محبت کے لہجے میں نفرت کا بیج چھپا دیا تھا۔مہمان خواتین نے کوئی واضح رائے نہیں دی، مگر ان کی نظروں میں ہلکی سی سوچ کی جھلک آ گئی تھی۔ شائستہ، اب اپنی لڈو کی پلیٹ اٹھائے، نرمی سے مسکرا رہی تھی—جیسے کچھ کہا ہی نہ ہو۔گھر میں مہمانوں کی چہل پہل ختم ہو چکی تھی۔ نکاح کی تاریخ اب قریب آ رہی تھی، مگر فضا میں ایک خاموش اطمینان سا پھیلا ہوا تھا۔ امی اور سادیہ شادی کی تیاریوں میں مصروف تھیں، اور عینی اپنے معمول کے کاموں میں مشغول۔ سب کچھ پرسکون تھا—جب تک کہ ایک ٹیکسی گھر کے باہر آ کر نہیں رکی۔دروازہ بجا، اور شائستہ نے جا کر کھولا تو سامنے سارہ کھڑی تھی—رنگین کپڑوں میں ملبوس، بڑی دھوپ والی عینک لگائے، کندھے پر بیگ اور ہاتھ میں فون۔"سرپرائز!" اُس نے خوش دلی سے کہا، "سوچا کچھ دن بہن کے ساتھ گزاروں… اب شادی ہو رہی ہے، تھوڑا سا تو انجوائے بنتا ہے۔"شائستہ نے حیرت کے ساتھ، مگر مسکرا کر گلے لگایا، "تم بھی نا! بس اچانک؟ خیر آؤ، بہت دنوں بعد آئے ہو۔"سارہ اندر آئی تو اس کی نظریں گھر کا جائزہ لینے لگیں، اور پھر اچانک وہ رکی۔ سامنے صحن میں عینی کھڑی تھی، سادہ سے لباس میں، مکمل حجاب کے ساتھ۔سارہ کی آنکھوں میں حیرت کی چمک تھی، "عینی؟ عینی فاطمہ؟"عینی نے آہستگی سے سلام کیا، "السلام علیکم۔""ارے واہ! یہ کیا اتفاق ہے! ہم تو دسویں جماعت میں کلاس فیلو تھے نا؟ تمہیں یاد ہے نا؟ اتنی اچھی دوستی تھی ہماری!" سارہ خوشی سے چلائی۔مگر عینی کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی۔ اُس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بس اتنا کہا، "جی، یاد ہے۔"سارہ نے اپنی بات جاری رکھی، "یار تم تو بہت بدل گئی ہو! اتنی خاموش ہو گئی ہو، پہلے تو ہر بات پر ہنستی تھی۔ ویسے میں نے سنا ہے کہ تمہاری شادی ہو رہی ہے؟ مبارک ہو!"عینی نے صرف سر ہلایا، "جزاک اللہ۔"ان دونوں کی گفتگو ختم ہوئی تو شائستہ نے اندازہ لگا لیا کہ عینی کچھ بے چینی محسوس کر رہی ہے۔ سارہ نے بھی شاید عینی کی سنجیدگی کو محسوس کیا، مگر اس نے دل پر نہیں لیا۔ دل ہی دل میں وہ خوش تھی کہ اب یہاں بھی اُسے ایک جان پہچان والا چہرہ مل گیا ہے۔مگر عینی دل میں کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔"یہ وہی سارہ ہے… جو ہمیشہ دوسروں کے بھروسے سے کھیلتی تھی، جس کی مسکراہٹ میں مٹھاس کم اور مکار پن زیادہ ہوتا تھا… اللہ جانے اب کیا ارادہ لے کر آئی ہے۔"وہ جانتی تھی کہ کچھ لوگ کبھی نہیں بدلتے۔ ان کے چہرے بدل جاتے ہیں، انداز نیا ہو جاتا ہے، مگر نیت وہی رہتی ہے—اور سارہ بھی انہی میں سے تھی۔ دوپہر کی روشنی کھڑکی سے اندر جھانک رہی تھی۔ امی صحن میں بیٹھ کر سبزی چھیل رہی تھیں، اور ابو اخبار لیے اپنے مخصوص کرسی پر خاموش بیٹھے تھے۔ تب ہی دروازے کی کنڈی کھلی، اور زاہد ہاتھ میں ایک چھوٹا سا شاپر لیے اندر داخل ہوا۔"السلام علیکم، امی، ابو۔" اُس کی آواز میں وہی بچپن کی مٹھاس تھی، جسے وقت اور فاصلہ دھندلا نہ کر سکے۔امی نے پلٹ کر دیکھا، "وعلیکم السلام۔""امی، آپ کے لیے ریوڑی لایا ہوں… بچپن میں آپ سردیوں میں لایا کرتی تھیں نا؟ آج بازار میں دیکھی تو فوراً آپ یاد آئیں۔"امی کا ہاتھ رک گیا۔ لمحہ بھر کو کچھ بولی نہیں، بس نظریں زاہد کے چہرے پر جم گئیں۔"اور ابو… آپ کے لیے یہ چشمہ صاف کروا لایا ہوں۔ پچھلے دنوں دیکھا تھا تھوڑا دھندلا رہا تھا۔"ابو نے ہلکا سا سر ہلایا۔ زاہد نے ادب سے ان کے قدموں کے قریب بیٹھ کر چشمہ ان کے ہاتھ میں دیا۔"امی، اگر میں کبھی کچھ ایسا کر گیا جس سے آپ کا دل دکھا… تو آپ مجھے معاف کر دیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ گھر ویسا ہی ہو جیسا پہلے تھا۔"امی کی آنکھیں نمی سے چمک اٹھیں۔ مگر اُنہوں نے کچھ نہیں کہا—بس زاہد کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہی پرانا لمس، وہی ماں کا پیار، جو کبھی ختم نہیں ہوتا… صرف خاموش ہو جاتا ہے۔ابو نے بغیر دیکھے بس اتنا کہا، "اولاد اگر دل سے لوٹے تو ماں باپ کبھی دروازہ بند نہیں کرتے، بیٹا۔"زاہد کے لب ہلکے سے لرزے، اور دل جیسے سکون سے بھر گیا۔سارہ اپنی بہن شائستہ کے کمرے میں بیٹھی چائے کی چسکیاں لے رہی تھی۔ اس کے انداز میں وہی لاپرواہ سی شوخی، وہی تنقیدی نظروں سے سب کچھ ناپنے کا انداز۔ شائستہ الماری کے سامنے کھڑی آئینے میں اپنا دوپٹہ درست کر رہی تھی، مگر اس کی نظریں خود پر نہیں، اپنے خیالات پر جمی تھیں۔"بہت سکون ہے اس گھر میں،" سارہ نے طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "بہت سادہ لوگ ہیں…"شائستہ نے ہلکی سی سرگوشی کی، "بس یہی تو مسئلہ ہے، سادہ ہیں، مگر بےوقوف نہیں۔ زاہد نے سب کو اپنی محبت سے جیت لیا ہے۔ ہر کوئی اس پر فخر کرتا ہے۔"سارہ نے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا، "تو تمہیں کیا مسئلہ ہے؟"شائستہ آہستہ سے صوفے پر آ بیٹھی، اور چائے کی پیالی ہاتھ میں لے لی، "مسئلہ مجھے نہیں، میرے مستقبل کو ہے۔ جب ایک مرد اتنا محبت کرنے والا ہو، تو وہ کبھی اندھا وفادار بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے اس کی آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔"سارہ نے دلچسپی سے پوچھا، "اور یہ لڑکی، عینی؟"شائستہ کی آنکھوں میں ایک سایہ سا آیا، "یہی اصل مسئلہ ہے۔ وہ خاموش ہے، مگر اندر سے بہت مضبوط۔ لوگ اس کی عزت کرتے ہیں۔ اور زاہد… وہ بھی کچھ زیادہ ہی نرمی برتتا ہے اس کے ساتھ۔"سارہ نے ہنستے ہوئے کہا، "تو بس کرو نا پھر… ایک لڑکی سے ڈر رہی ہو؟"شائستہ نے چائے کا گھونٹ لیا اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ سجا لی، "ڈر نہیں رہی، بس حساب لگا رہی ہوں کہ کون سا پتہ کب کھیلنا ہے۔ یہ گھر میٹھے لفظوں سے نہیں، اندرونی چالوں سے جیتا جا سکتا ہے۔"سارہ نے سر ہلایا، "ویسے تم نے بدلنے کی اچھی اداکاری کی ہے۔ ان کی امی تو تم پر جیسے فدا ہو گئی ہیں۔"شائستہ نے آہستہ سے کہا، "فدا نہیں، مطمئن ہوئی ہیں۔ مگر یہ اطمینان زیادہ دیر نہیں رہنا چاہیے… جب تک میرے لیے جگہ مکمل نہ بن جائے، تب تک عینی کا وجود مسئلہ ہے۔"کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ باہر صحن سے عینی کی آواز آ رہی تھی، جو دادی کے ساتھ کسی بات پر نرمی سے ہنس رہی تھی۔ سارہ نے آواز کی سمت دیکھا، اور شائستہ کے چہرے کی سختی کو پڑھ لیا۔یہ ایک پرسکون گھر تھا، مگر سکون ہمیشہ قائم نہیں رہتا—خاص طور پر جب کسی کے دل میں حسد کا زہر چھپا ہو، اور اس زہر کو زبان پر آنے کی اجازت نہ ہو… ابھی۔صحن میں شام کی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔ شائستہ اور سارہ چائے کی پیالی ہاتھ میں لیے ایک کونے میں بیٹھی تھیں۔ باقی سب اپنے کمروں میں مصروف تھے۔ سارہ کی آنکھوں میں تجسس تھا، اور شائستہ کے چہرے پر وہ مخصوص طنزیہ مسکراہٹ جو صرف وہی سمجھ سکتی تھی۔"اور سنا، تمہاری اس نند… عینی؟ اُس کا رشتہ فکس ہو گیا؟" سارہ نے بےساختہ پوچھا، مگر لہجے میں دلچسپی سے زیادہ چبھن تھی۔شائستہ نے ایک طنزیہ ہنسی کے ساتھ گردن ہلائی، "ہاں، ہو گیا۔ اور سچ پوچھو تو... حیرت کی بات ہے۔ رشتہ کسی عام گھر سے نہیں آیا۔ لڑکا ماشاءاللہ بہت خوبصورت، تعلیم یافتہ، اور اتنے امیر گھر سے کہ بس… ہمارے خوابوں سے بھی آگے۔"سارہ کی پلکیں لمحہ بھر کو جھپکیں، پھر اس نے نظریں چرا کر پوچھا، "واقعی؟ وہ بھی عینی جیسی خاموش، سیدھی سادھی لڑکی کے لیے؟"شائستہ نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا، "بس یہی تو سمجھ نہیں آتی۔ اتنی شرافت، اتنی سنجیدگی… اور قسمت بھی دیکھو کیسی نکلی۔ لگتا ہے تقدیر کو خاموش لوگ زیادہ پسند ہیں۔"سارہ کے چہرے پر وہی جلن اتر آئی جسے وہ اکثر آئینے سے بھی چھپانے میں ناکام رہتی تھی۔ "ہم نے تو اتنی چالاکیاں سیکھیں، اور یہاں یہ خاموشی والے بازی لے گئے؟"شائستہ نے نظریں اس کی طرف موڑیں اور دھیمے انداز میں کہا، "اسی لیے تو کہتی ہوں سارہ، تم اب بھی وقت پر ہو۔ دل جیتنے کی نہیں، دل بھولنے کی دنیا ہے یہ۔ اور قسمت… وہ بس دکھاوا پسند کرتی ہے۔"سارہ خاموش ہوئی، مگر اس کی مٹھی میں چائے کا کپ تھوڑا سا اور مضبوطی سے دب گیا۔ آنکھوں میں ایک انجانی آگ جلنے لگی تھی—ایسی آگ جو صرف مقابلے کی فضا میں بھڑکتی ہے۔ دل میں کہیں نہ کہیں یہ بات چبھ گئی تھی کہ وہ عینی، جو کبھی اس کی کلاس فیلو تھی، آج اتنا بہتر رشتہ پا گئی، اور وہ خود… بس دوسروں کی کامیابیوں پر مسکراہٹ سجانے تک محدود رہ گئی ہے۔شائستہ نے اسے بغور دیکھا، اور جیسے دل کی بات بھانپ لی ہو، نرمی سے بولی، "دیکھو، میں تمہیں یہ سب صرف یوں ہی نہیں بتا رہی… تمہیں کچھ کرنا ہوگا۔ تمہیں خود کو اتنا معمولی نہ سمجھنا، سارہ۔ تم میں بھی بہت کچھ ہے، بس صحیح وقت پر صحیح قدم اٹھانا ہے۔"سارہ نے آہستہ سے سر ہلایا، جیسے خود کو حوصلہ دے رہی ہو، مگر اندر کہیں حسد کی ایک نئی لکیر کھنچ چکی تھی—عینی کے خلاف، قسمت کے خلاف، اور شاید خود اپنی محرومیوں کے خلاف بھی۔چائے کی پیالی ختم ہوئی، باتیں بھی… مگر اس شام نے دو دلوں میں ایک نیا بیج بو دیا تھا—جلن، رقابت، اور ایک خاموش مقابلہ۔—------------------------------------------------------صحن میں شام کی ٹھنڈی ہوا عینی کے دوپٹے کو ہلکے ہلکے سرکا رہی تھی۔ وہ خاموشی سے سلائی میں مصروف تھی، جیسے دھاگوں سے اپنے اندر کی سوچوں کو ترتیب دے رہی ہو۔ تبھی سارہ، جس کے قدموں میں ہمیشہ شور ہوتا تھا، آج ذرا آہستہ قدموں سے آئی، جیسے دل کی نرمی کا دکھاوا کر رہی ہو۔"ارے واہ، اب بھی سلائی کرتی ہو؟" اس کے لہجے میں حیرت کم، اداکاری زیادہ تھی۔ "یاد ہے نا، اسکول میں تمہارے کڑھائی والے رومال سب کو پسند آتے تھے؟"عینی نے نگاہ اٹھائی، اور نرمی سے، مگر گہرائی سے کہا، "کچھ ہنر انسان سیکھتا نہیں… وقت خود سکھا دیتا ہے۔" پھر پلکیں جھکا لیں۔سارہ کچھ پل چپ رہی، پھر کرسی کھینچ کر اس کے برابر بیٹھ گئی۔ "اتنے برس ہو گئے… تم ویسی ہی ہو، خاموش اور الگ سی۔"عینی نے سلائی روکی، اور دھیرے سے کہا، "کچھ لوگ بدلتے نہیں، بس خاموش ہو جاتے ہیں… کیونکہ انھیں سب یاد ہوتا ہے، وہ بھی… جو دوسروں نے کب کا بھول دیا۔"سارہ کے چہرے پر ایک لمحے کو چھٹکی سی پڑی، جیسے کوئی پرانا راز بےآواز کھل گیا ہو۔ مگر اس نے جلدی سے مسکراہٹ سجا لی، "ارے نہیں، ہم تو بس بچپن کی دوستیں ہیں… دل صاف رکھنے والی۔"عینی نے زیرِلب ایک ہلکی سی مسکراہٹ دی، ایسی مسکراہٹ جو فقط وہ لوگ دیتے ہیں جو دل پر زخم رکھ کر بھی خاموشی سے عزت نبھاتے ہیں۔"صاف دل رکھنے والے، اکثر گرد آلود لفظوں میں پہچانے نہیں جاتے، سارہ… وہ صرف محسوس ہوتے ہیں۔"اور فضا میں کچھ لمحے کے لیے وہ خاموشی چھا گئی، جو صرف پرانی پہچانوں کے بیچ آیا کرتی ہے—جہاں دل جانتا ہے، مگر زبان کچھ نہیں کہتیسارہ نے عینی کی بات سنی، مگر اس کی آنکھوں میں وہ چمک باقی نہ رہی جو چند لمحے پہلے تھی۔ عینی کی نرمی میں چھپی گہرائی نے اسے لمحہ بھر کو لاجواب کر دیا تھا۔ مگر وہ سارہ تھی… جس نے وقت کے ساتھ زبان کا ہنر سیکھا تھا، اور چہروں پر مسکراہٹ کا نقاب پہننا اس کا معمول تھا۔اس نے تھوڑا جھک کر عینی کے کڑھائی والے دوپٹے کو دیکھا اور ہنستے ہوئے بولی،"واہ، کتنا خوبصورت رنگ ہے۔ لگتا ہے تمہاری پسند آج بھی اتنی ہی خاص ہے جتنی پہلے تھی۔"پھر ذرا توقف کے بعد نرمی سے بولی،"ویسے تمہارے گھر کا سکون… دل کو بہت اچھا لگا۔ کچھ گھروں میں خاموشی بوجھ بنتی ہے، مگر یہاں تو لگتا ہے جیسے دیواریں بھی دعا مانگتی ہوں۔"عینی نے نظریں دوبارہ دھاگے پر مرکوز کرتے ہوئے کہا،"سکون دکھاوے سے نہیں آتا، سارہ… وہ ان لفظوں سے آتا ہے جو ادا نہیں کیے جاتے، اور ان رشتوں سے جو توقع کے بغیر جیتے ہیں۔"سارہ نے ایک ہلکی سی آہ بھری، اور بات بدلنے کے لیے ہنستے ہوئے بولی،"ارے تمھیں یاد ہے اسکول کی پینٹنگ مقابلے میں ہم نے مل کر وہ درخت بنایا تھا؟ نیلے آسمان اور سبز پتوں والا… تم کہتی تھیں کہ ہر پتا الگ زندگی ہے۔"عینی کی نگاہیں لمحہ بھر کو رکیں۔ یادیں جیسے دھاگے کی گرہ میں آ گئیں۔"ہر پتا اپنی جگہ سچ تھا… اور ہر گرنے والا پتا، خاموشی سے زمین کو سلام کر کے اپنی کہانی مکمل کرتا ہے۔"سارہ نے ہنستے ہوئے سر ہلایا، "تم ویسی ہی ہو… الفاظ کو دعا کی طرح برتنے والی۔"عینی نے پہلی بار اُس کی طرف مکمل نظر سے دیکھا، گہری اور خاموش… جیسے پرانے کاغذ پر نئی روشنائی کو پرکھ رہی ہو۔"وقت سب کو بدلتا ہے، سارہ… مگر کچھ چہرے، صرف وقت کے پردے میں اصل دکھاتے ہیں۔"سارہ نے اندر ہی اندر اپنے دل کو تھاما… اور باہر سے ایک بار پھر ہنستے ہوئے بولی،"اچھا چلو چھوڑو، چائے کون پلائے گا؟ یا اب بھی تمھاری چائے میں خاموشی کا ذائقہ ہوتا ہے؟"عینی نے مسکرا کر سر جھکا لیا،"خاموش چائے وہ ہوتی ہے جو دل تک اترتی ہے… اور پھر کچھ کہے بغیر سب کچھ کہہ دیتی ہے۔"فضا میں وہ گہری، تہہ دار گفتگو تیرنے لگی… جیسے دو رستے، جو کبھی ایک دوسرے کو سمجھ چکے ہوں، اب صرف پردے کے دونوں جانب خاموشی سے چل رہے ہوں۔صحن کی خاموشی کے بعد سارہ نے دوبارہ بات کا سلسلہ جوڑا، جیسے کچھ سوچ کر بات بدلنا چاہ رہی ہو۔ اس کی نظریں سامنے رکھے گلاب کے پودے پر تھیں، مگر سوال عینی کے دل پر آ گرا۔"ویسے، عینی…" اُس نے آہستہ سے کہا، "تم خوش ہو؟ مطلب… اس رشتے سے؟"عینی نے کڑھائی کرتے ہاتھ ایک پل کو روکے، پھر دھیرے سے مسکرائی،"خوشی اندر سے آتی ہے، اور سکون دعا سے۔ اگر سب دعا سے جُڑا ہو… تو خوشی بھی ساتھ آ جاتی ہے۔"سارہ نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ سر جھٹکا، "تم ہمیشہ اتنی گہری باتیں کرتی ہو… جیسے ہر جملے میں راز چھپا ہو۔"پھر اس نے نرمی سے، جیسے خیرخواہی کے جذبے سے لپٹی ہو، بات آگے بڑھائی،"بس ایک بات دل میں آتی ہے، عینی… تم نے کبھی اُس لڑکے سے بات کی؟ مطلب، ایک بار کم از کم مل لیتیں۔ کبھی کبھی… جو دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں، اور جو ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔"عینی نے نظریں سارہ کی آنکھوں میں ڈال کر دیکھا،"شادی دکھائی دینے والوں سے نہیں، سمجھ میں آنے والوں سے ہوتی ہے۔ ملنے سے کچھ ثابت نہیں ہوتا، نیت اگر صاف ہو تو فاصلے بھی باتیں کر لیتے ہیں۔"سارہ نے جلدی سے بات کو نرم انداز میں لپیٹا،"نہیں نہیں، میں یہ نہیں کہہ رہی کہ تم غلط ہو… بس دوست ہوں نا، اس لیے سوچا تم سے دل کی بات کر لوں۔ ہم تو بس چاہتے ہیں کہ تم ہمیشہ خوش رہو۔"عینی کی خاموشی جیسے سب کچھ سُن رہی تھی۔ اس نے پل بھر کو آنکھیں جھکائیں اور دھیرے سے کہا،"سچی خیرخواہی وہ ہوتی ہے جو سوال میں نہیں، دعا میں چھپی ہو۔"سارہ نے لمحہ بھر کو کچھ نہ کہا… مگر اس کے اندر ایک ہلکی سی الجھن نے سر اُبھارا۔ وہ جانتی تھی کہ عینی کا لہجہ نرم ہے، مگر ہر لفظ جیسے آئینہ ہو… جو سچ دکھا دے، چاہے سننے والا کتنا ہی دھوکے میں کیوں نہ ہو۔اور سارہ… وہ چہرے پر مسکراہٹ لیے، دل میں ایک نیا منصوبہ باندھنے لگی تھی۔—---------------------------------------------------------شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ صحن میں کہیں ہنسی تھی، کہیں خوشبو، اور کہیں وہ خاموش حسد جو لفظوں میں نہیں، صرف نگاہوں میں چھپا ہوتا ہے۔ سب کی نگاہوں کا مرکز آج عینی کا وہ خوبصورت لباس تھا جو شادی کے لیے تیار کیا گیا تھا—نفیس رنگ، عمدہ کام، اور وقار سے بھرپور۔شائستہ ایک کونے میں خاموش کھڑی، سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں، وہ چبھن تھی جو کسی اور کی خوشی اپنے سینے میں چبھتی محسوس ہو۔"یہ سب اس کے لیے؟ اتنی عزت، اتنا مان، اتنا پیار؟" شائستہ نے دل میں سوچا۔ "میں نے تو ہر قدم پر سلیقے دکھائے، باتوں میں مٹھاس گھولی، پھر بھی میں پردے کے پیچھے ہوں… اور یہ؟ صرف خاموشی اور پردے میں رہ کر دل جیت گئی؟"اسی خیال میں، جب سب اندر چلے گئے، شائستہ نے موقع کا فائدہ اٹھایا۔ دھیرے قدموں سے وہ کمرے میں داخل ہوئی جہاں عینی کا لباس قرینے سے رکھا تھا۔ اس نے کپڑے کو ہاتھ میں لیا، نرم ریشم کی ٹھنڈک محسوس کی… پھر جیسے دل کی جلتی ہوئی آگ انگلیوں میں اتر آئی۔"کبھی کبھی انصاف خود کرنا پڑتا ہے… تقدیر سے چھینا جاتا ہے، مانگا نہیں جاتا۔"اس نے لباس کے دامن کو آہستہ سے کھینچا، ناخن سے ریشم کی باریکی میں دراڑ ڈالی۔ ایک، دو، تین کٹ… اور وہ حسین دامن زخمی سا ہو گیا۔ پھر وہ لباس لے کر صحن کے اس کونے میں گئی جہاں دیے جل رہے تھے۔"جلنا صرف شعلوں کا کام نہیں… کچھ خواب بھی خاموشی سے جلتے ہیں۔" اس نے وہ لباس دیے کے قریب رکھا، بالکل قریب… بس اتنا کہ ایک ہلکی سی ہوا یا ایک بھولا سا قدم اسے جلا سکتا تھا۔وہ پلٹ گئی۔ چہرے پر وہی خاموش نرمی، لبوں پر ایک گہری مصنوعی مسکراہٹ۔ "یہ جنگ دلوں کی نہیں… عزتوں کی ہے۔ اور میں ہارنے والوں میں نہیں۔"صحن میں جب اچانک شور اٹھا کہ عینی کا لباس جلا ہوا ملا ہے، سب گھبرا کر وہاں پہنچے۔ شائستہ فوراً لبوں پر حیرت کا تاثر لاتے ہوئے بولی، "مجھے تو ایسا لگا جیسے سعد اُس طرف گیا تھا… اور دیے کے پاس کچھ گرایا۔ شاید اسی سے کپڑا جل گیا؟"سب کی نظریں اچانک ننھے سعد پر جا پڑیں، جو ایک کونے میں کھڑا کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ وہ تو بس کھیلنے کے لیے گیا تھا، اور اب اچانک سب کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔سعد نے فوراً معصومیت سے کہا، "میں نے کچھ نہیں کیا خالہ… میں تو صرف گیند لینے گیا تھا۔ کپڑا تو وہاں پہلے ہی پڑا تھا۔"سادیہ جلدی سے سعد کے پاس آئیں اور اسے اپنے قریب کیا۔ "بیٹا ہم جانتے ہیں تم جھوٹ نہیں بولتے، مگر اگلی بار دھیان رکھنا… دیے کے پاس کوئی چیز نہ لے کر جانا، اور نہ ہی وہاں کھیلنا۔"امی نے بھی بات کو نرمی سے سنبھالا، "ہو گیا جو ہونا تھا، شاید حادثہ ہی تھا۔ کپڑا تھوڑا سا ہی جلا ہے، سلائی سے ٹھیک ہو جائے گا۔"شائستہ ایک طرف کھڑی رہی، خاموش… چہرے پر وہی فکر مند تاثر۔ مگر دل میں ایک مکروہ اطمینان تھا: "سچائی اگر زبان سے نہ نکلے، تو الزام کسی اور پر ڈال دینا آسان ہوتا ہے… اور معصوم بچوں پر تو ویسے بھی کوئی شک نہیں کرتا۔"اس نے دل میں سوچا: "جنگ میدان میں نہیں، ذہنوں میں جیتی جاتی ہے… اور میں ایک ایک قدم چالاکی سے چلوں گی۔"یہ معمولی سا نقصان تھا، مگر شائستہ کے ارادے معمولی نہیں تھے… اور وہ جانتی تھی، دھاگے کی ایک کٹ سنبھالی جا سکتی ہے، مگر تعلق کی ایک دراڑ وقت کے ساتھ گہری ہو جاتی ہے۔—---------------------------------------------------------------امی کی آواز میں گھبراہٹ تھی، "ارے وہ سونے کے کڑے؟ جو عینی کی مہندی کے لیے رکھے تھے، کہاں گئے؟ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھوائے تھے۔"سادیہ نے فوراً پورے گھر کی تلاشی لینا شروع کر دی۔ ایک ایک دراز، ایک ایک کونا دیکھ ڈالا، مگر کڑے غائب تھے۔شائستہ دھیرے دھیرے آئی، چہرے پر پریشانی کی جھوٹی چھاپ، "امی جی… میں کچھ کہنا تو نہیں چاہتی… لیکن جب سے سادیہ آپی کی نند آئی ہے، تب سے ہی کچھ چیزیں جگہ بدلتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہو سکتا ہے… غلط فہمی ہو، لیکن بس… دل میں آیا کہ بتا دوں۔"امی نے چونک کر شائستہ کی طرف دیکھا، "نہیں بیٹا، وہ تو بہت شریف لڑکی ہے۔ ابھی کل ہی آئی ہے، وہ کیوں ایسا کرے گی؟"شائستہ نے نظریں جھکا لیں، لہجہ مزید نرم کر لیا، "جی جی، میں کچھ نہیں کہہ رہی۔ بس آپ کو پریشان دیکھا تو دل نہیں مانا چپ رہوں۔ اور ہو سکتا ہے کہیں اور رکھ دیے ہوں… وہ کڑے تو بہت قیمتی تھے نا؟ بس آپی سے ہی کہنا کہ پھر سے اچھی طرح دیکھ لیں۔"یہ بات امی کے دل میں ایک چھوٹا سا کانٹا بن کر رہ گئی۔ انہوں نے سادیہ سے کچھ نہ کہا، نہ شک ظاہر کیا، مگر وہ بےچینی ضرور اندر کہیں بیٹھ گئی۔دوسری طرف سادیہ، جو نند کی مہمانداری میں مصروف تھی، شائستہ کے ان مکاری سے بھرپور الفاظ سے بےخبر، گھر کی عزت بچانے کے خیال میں اپنی ہر تھکن نظرانداز کیے جا رہی تھی۔شائستہ نے دیوار سے ٹیک لگائی، ایک دھیمی مسکراہٹ ہرے پر پھیل گئی۔ "الزام دینا ضروری نہیں… بس لوگوں کے دل میں ایک سوال چھوڑ دینا کافی ہوتا ہے۔":---دوپہر کا وقت تھا، گھر میں خاموشی تھی۔ سادیہ کی نند صحن میں بیٹھی تھی، ہاتھ میں چائے کا کپ اور چہرے پر کسی حد تک اجنبیت کا تاثر۔ تبھی شائستہ ہلکے قدموں سے اس کے قریب آئی، جیسے محض بات کرنے آئی ہو۔"آپ یہاں اکیلی بیٹھی ہیں، میں نے سوچا کہ کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھ جاؤں۔" وہ مسکرائی، جیسے سچ میں خیرخواہی کی نیت ہو۔سادیہ کی نند نے خالی خالی نظروں سے اسے دیکھا، "جی، بس تھوڑی دیر آرام کرنے کو دل کیا۔"شائستہ نے آہستہ سے بات کا رخ موڑا،"ویسے آپی بہت پریشان تھیں… وہ سونے کے کڑے نہ ملنے کا جو معاملہ ہوا نا، تو ان کا دل بہت دکھا۔ میں نے تو ان سے کہا کہ ایسی باتیں مہمانوں کے سامنے نہیں کہنی چاہییں، خاص طور پر آپ جیسی شریف لڑکی پر۔"نند نے چونک کر اس کی طرف دیکھا،"سادیہ بھابھی نے کچھ کہا؟ مجھے تو نہیں لگتا وہ ایسی بات کہیں گی۔ وہ تو بہت محبت سے پیش آتی ہیں۔"شائستہ نے فوراً لہجہ اور نرم کر لیا، آنکھوں میں جھوٹی ہمدردی لے آئی،"نہیں نہیں، میں یہ نہیں کہہ رہی کہ انہوں نے الزام دیا… بس وہ پریشان تھیں، اور کبھی کبھی پریشانی میں انسان کچھ بھی سوچ لیتا ہے۔ میں نے تو بس ان سے کہا کہ آپ جیسی لڑکی تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ میں نے آپ کو بچا لیا، ویسے۔"نند خاموش ہو گئی، مگر اس کے دل میں ایک ہلکا سا خلش کا بیج پڑ چکا تھا۔ جسے شائستہ نے بہت نفاست سے بویا تھا —"جب شک دوسرے کے کان میں نہیں، دل میں اتارا جائے تو وہ کبھی نہیں مٹتا۔"شائستہ نے آخری گھونٹ چائے کا لیا، اور نرمی سے مسکراتے ہوئے کہا،"بس آپ دل چھوٹا نہ کریں۔ یہ سب وقتی باتیں ہیں۔ گھر میں نئی ہوں، تو اکثر ایسی الجھنیں ہو ہی جاتی ہیں۔"اس کے بعد وہ اٹھ گئی، اور نند کی آنکھیں کسی انجان پریشانی میں الجھ گئیں۔--- ---شام کا وقت تھا۔ زاہد کام سے واپس آیا تھا، اور جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا، شائستہ نے اس کا استقبال ایک مدھم مسکراہٹ کے ساتھ کیا۔ ہاتھ میں پانی کا گلاس، آنکھوں میں فکرمندی۔"تھکے ہوئے لگ رہے ہو، بیٹھو نا۔"زاہد نے گلاس تھاما اور بیڈ پر بیٹھتے ہوئے آہستہ سے بولا، "ہاں، تھوڑا سا ذہن بھاری ہے۔ گھر میں بھی عجیب سی خاموشی ہے آج کل۔"شائستہ نے کچھ لمحے خاموشی سے گزارے، پھر آہستہ سے بولی،"زاہد… ایک بات کہوں؟ برا تو نہیں مانو گے؟"زاہد نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، "ایسی کیا بات ہے؟"شائستہ نے نظریں جھکا لیں، آواز اور بھی نرم کر لی،"وہ… سادیہ آپی کی نند… اب تو کافی دن ہو گئے نا آئے ہوئے، مگر واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اور…" وہ رکی، جیسے کچھ کہنا مشکل ہو رہا ہو۔زاہد کی پیشانی پر بل پڑ گئے، "اور کیا؟ صاف بات کرو شائستہ۔"شائستہ نے جیسے بمشکل الفاظ نکالے،"زاہد، میں نے خود سنا… وہ کسی سے کہہ رہی تھی کہ سادیہ آپی دل کی صاف نہیں ہیں، ہر بات میں سختی کرتی ہیں۔ میں تو حیران رہ گئی، اتنا کچھ کہہ رہی تھی اُن کے بارے میں۔ مجھے برا لگا، کیونکہ سادیہ آپی نے ہمیشہ اُس سے اچھا سلوک کیا ہے۔"زاہد نے گہری سانس لی، جیسے بات پر یقین اور شک کے بیچ لڑ رہا ہو،"یہ بات کسی اور نے بھی سنی؟"شائستہ نے شانے اچکائے، "پتا نہیں… لیکن میں نے خود سنا۔ میں نے تو کچھ نہیں کہا اُسے، بس چپ چاپ ہٹ گئی۔"پھر شائستہ نے ایک وقفہ لے کر مزید کہا،"دیکھو زاہد، میں کوئی بات پیچھے سے کہنے کی قائل نہیں، مگر تم گھر کے بڑے بیٹے ہو۔ سب تم پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اگر کسی کے دل میں فتور ہو تو بہتر ہے وقت پر پتا چل جائے۔"زاہد خاموش ہو گیا۔ اندر ہی اندر ایک خیال نے جنم لیا —"کیا واقعی سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا میں سمجھتا ہوں؟ یا کچھ ایسا بھی ہے جو آنکھوں سے چھپا ہوا ہے؟"شائستہ کی بات مکمل ہو چکی تھی، مگر اس کے چہرے پر وہی خاموش اطمینان تھا جو تب آتا ہے جب کوئی اپنا کام پورا کر لے —"شک صرف لفظوں سے نہیں، لہجے سے بھی پیدا ہوتا ہے… اور بعض اوقات خاموشی سب سے بلند آواز بن جاتی ہے۔"---:دوپہر کا وقت تھا۔ بچے اپنے کمروں میں مصروف تھے، امی کچن میں تھیں، اور صحن میں ہلکی سی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ زاہد نے سادیہ آپی کو برآمدے میں اکیلا بیٹھے دیکھا تو آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے ان کے قریب آ بیٹھا۔"آپی، آپ کو کچھ وقت ملا ہے، تو سوچا بات کر لوں…" زاہد نے نرمی سے کہا۔سادیہ نے چونک کر دیکھا، پھر جواباً مسکرائیں، "ہاں زاہد، خیریت؟"زاہد نے کچھ دیر خاموشی کے بعد سوال کیا، "آپی، آپ خوش ہیں نا اپنی زندگی میں؟"سادیہ کے چہرے پر ہلکی سی حیرت نمودار ہوئی۔ "کیا مطلب؟"زاہد نے نرمی سے کہا، "بس… کبھی کبھی سوچتا ہوں، آپ ہمیشہ سب کے لیے سب کچھ کرتی ہیں، امی کے لیے، بچوں کے لیے، گھر کے لیے… پر خود کی خوشی کا کبھی ذکر نہیں کرتیں۔ آپ کے شوہر آپ کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں؟ لوگ آپ کی قدر کرتے ہیں؟"سادیہ نے نظریں ذرا نیچے جھکا لیں، اور بہت دھیمے لہجے میں جواب دیا، "الحمدللہ… سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ زندگی میں کمی کس کو نہیں ہوتی، مگر اللہ نے صبر دیا ہے، شکر کی توفیق دی ہے۔"زاہد نے ان کی طرف غور سے دیکھا، "آپی، آپ کی باتیں ہمیشہ اتنی بڑی لگتی ہیں، جیسے آپ واقعی دنیا سے اوپر کی سوچ رکھتی ہیں… مگر دل کا سکون بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر کبھی کچھ دل پر ہو تو مجھے بتائیے گا، میں آپ کے ساتھ ہوں۔"سادیہ نے مسکرا کر سر ہلایا، "پتا ہے زاہد… تمہارا یہی انداز ہمیشہ دل کو تسلی دیتا ہے۔ کچھ لوگ خاموشی سے سہارا دیتے ہیں، اور وہ سب سے قیمتی ہوتے ہیں۔"زاہد نے ایک طویل سانس لے کر آسمان کی طرف دیکھا، "بس چاہتا ہوں، میرے اپنوں کے چہرے سے وہ خاموش تھکن مٹ جائے… جو اکثر ہم مسکرانے کے پیچھے چھپا دیتے ہیں۔"سادیہ کی آنکھوں میں ایک نمی سی جھلکنے لگی، مگر وہ چپ رہیں — کیونکہ بعض خاموشیاں رشتہ مزید گہرا کر دیتی ہیں۔ شام کی نرم روشنی آہستہ آہستہ صحن میں اتر رہی تھی، جیسے کائنات خود بھی اس دن کو خاص بنانا چاہتی ہو۔ آج وہ دن تھا جس کا سب کو بےچینی سے انتظار تھا—عینی کے نکاح کا دن۔ گھر میں گہما گہمی تھی، ہر کونے سے خوشبو، قہقہے اور چہل پہل سنائی دیتی تھی۔ پردے کے پیچھے خواتین مہندی کی مہک لیے ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے، کپڑوں کی تہہ درست کر رہی تھیں۔سادیہ اپنی روایتی سنجیدگی اور محبت کے ساتھ ہر کام کا جائزہ لے رہی تھی۔ کبھی کچن میں جا کر لوازمات دیکھتی، کبھی عینی کے کمرے میں جا کر اس کا لباس سنوارتی۔ "عینی، دیکھو یہ دوپٹہ ذرا دھیان سے لینا، موتی بہت نازک ہیں۔" اس نے نرمی سے کہا۔عینی خاموشی سے سر ہلا دیتی، اس کی آنکھوں میں عجیب سی روشنی تھی—خوف، خوشی، اور بےیقینی کی ملی جلی جھلک۔ وہ ہمیشہ سے سادہ سی، گہرے جذبات والی لڑکی تھی۔ آج اس کے لیے ہر چیز نئی، اور کچھ حد تک بےرحم بھی محسوس ہو رہی تھی۔امی بار بار دعائیں کرتی جا رہی تھیں۔ "اللہ خیر کرے، سب کچھ خوشی سے گزر جائے… میری بچی کا نصیب نیک ہو۔"اسی دوران، صحن میں گلاب کے پھولوں کی لڑیاں لگائی جا رہی تھیں۔ چھوٹے بچے پھولوں کی ٹوکریاں لیے ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔ عینی کی سہیلیاں اور محلے کی خواتین گانے گا رہی تھیں، کچھ خواتین دریاں بچھا رہی تھیں جہاں نکاح کی رسم ادا ہونا تھی۔شائستہ، ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ سجائے، سب کے بیچ تھی۔ کبھی سادیہ کی مدد کرتی دکھائی دیتی، کبھی مہمانوں کی تواضع میں لگی رہتی۔ لیکن اس کے دل میں جلتی چنگاری ابھی بھی مدھم نہ ہوئی تھی۔ آج بھی اس نے عینی کے لباس پر ایک تنقیدی نظر ڈالی، مگر بظاہر تعریف کرتے ہوئے کہا،"ماشاءاللّٰہ! لگتا ہے عینی کے نصیب واقعی بہت اچھے ہیں… ہر چیز، ہر تیاری ایسے جیسے کسی شہزادی کی ہو۔"اور پھر دھیمے لہجے میں سارہ سے سرگوشی کی، "کتنی خاموش ہے نا؟ بس خاموشی ہی کافی نکلی قسمت سنوارنے کو۔"سارہ ہلکا سا ہنسی، مگر اس کی آنکھوں میں بھی جلن کی چمک تھی۔گھر کے ایک کونے میں زاہد خاموشی سے بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر سکون تھا۔ اس نے سوچا، "میری بہن خوش ہو، یہی چاہتا ہوں۔"سب کچھ بظاہر مکمل تھا، مگر جو ادھورا تھا، وہ صرف دل جانتے تھے۔ رشتوں کی اصل رنگت تو وقت ہی بتاتا ہے۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیمدن جیسے ٹھہر سا گیا تھا۔ پورا گھر روشن تھا، ہر کمرہ جگمگا رہا تھا جیسے روشنی نہ صرف دیواروں پر بلکہ دلوں میں بھی اتر آئی ہو۔ عینی کی بارات کا دن تھا — وہ دن جس کے لیے امی نے برسوں دعائیں مانگی تھیں، سادیہ نے سینکڑوں قربانیاں دی تھیں، اور خود عینی نے صبر کی خاموش راہ چُنی تھی۔گھر کے باہر گلاب کی پتیوں سے سجے راستے پر نرم سا فرش بچھا تھا، اور ہر جانب سفید و سنہری رنگوں کی سادگی میں ڈھلی ہوئی خوبصورتی تھی۔ دروازے پر جگنو جیسے ہلکے ہلکے روشنی کرتے بلب ایک خاص سی پاکیزگی دے رہے تھے۔سادیہ ہاتھ میں تسبیح لیے، بار بار دروازے تک آ کر دیکھتی، پھر واپس پلٹ جاتی۔ امی، حیا میں ڈوبی ہوئی، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے ایک طرف بیٹھی تھیں۔ دل جیسے دُعا میں بندھا تھا — "یااللہ، یہ بیٹی بھی عزت کے ساتھ اپنے گھر جائے۔"عینی سفید جوڑے میں لپٹی، مکمل پردے کے ساتھ، اپنے کمرے میں خاموشی سے بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں سکون تھا… نہ کوئی ہچکچاہٹ، نہ کوئی گھبراہٹ۔ سادیہ اندر آئی، اس کے سامنے بیٹھ کر مسکرائی۔"عینی، آج تم اتنی خوبصورت لگ رہی ہو… جیسے روشنی کی ایک خاموش کرن۔"عینی نے نظریں جھکاتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا، "آپ سب کی دعاؤں کا اثر ہے آپی… ورنہ میں تو کچھ بھی نہیں۔"اتنے میں گلی سے شور سنائی دیا — گاڑیوں کے ہارن، بینڈ کی مدھم آواز، اور کچھ بچوں کے جوشیلے قہقہے۔بارات آ گئی تھی۔زاہد جلدی سے باہر نکلا، اپنے خوبصورت لباس میں، مگر چہرے پر ایک نرمی اور مان تھی۔ وہ سب مہمانوں کا استقبال کرنے میں مصروف تھا۔ مردانہ حصے میں لڑکے کے والدین اور دیگر عزیز جمع تھے، جب کہ عورتوں کے حصے میں لڑکی کی دوستیں، محلے کی خواتین، اور مہمان عورتیں عینی کے دیدار کے منتظر تھیں۔شائستہ سفید جوڑے میں، دکھاوے کی نرمی اور محبت کے ساتھ، سب مہمانوں کے درمیان گھوم رہی تھی۔ وہ خوش دلی سے ہر ایک کو خوش آمدید کہہ رہی تھی، مگر اندر ہی اندر، اس کا دل جل رہا تھا۔"اتنا خوش نصیب ہونا… یہ عینی کیسے ہو سکتی ہے؟ جو ہمیشہ خاموش رہی، نہ بولی، نہ جیتی… اور آج سب اسی کے گرد گھوم رہے ہیں۔"اسی لمحے سارہ نے آ کر اس کے کان میں کہا،"بارات واقعی خاص ہے… لڑکے والے بھی متاثر لگ رہے ہیں۔ لگتا ہے رشتہ بہت اونچا جڑ گیا ہے۔"شائستہ کے چہرے پر لمحہ بھر کو ایک زبردستی کی مسکراہٹ آئی، "ہاں… قسمت سب سے زیادہ انہی کو نوازتی ہے جو سب سے کم مانگتے ہیں۔"لیکن وہ یہ نہ بولی کہ دل میں وہ اب بھی کسی لمحے کا انتظار کر رہی تھی — کوئی لمحہ، جو یہ خوشی بکھیر دے، یا کم از کم اُسے کم کر دے۔اتنے میں عینی کو اسٹیج کی طرف لے جایا گیا۔ سادیہ اور امی اسے اپنے ہاتھوں سے تھامے آہستہ آہستہ لے جا رہی تھیں، جیسے برسوں کی پرورش، دعائیں، محنت آج مکمل ہو رہی ہوں۔ لوگ سبحان اللہ کہہ رہے تھے، اور آنکھیں نم تھیں… کچھ خوشی سے، کچھ جذبے سے۔یہ وہ دن تھا جہاں عینی کے صبر کی جھولی بھر دی گئی تھی، مگر کچھ دل ابھی بھی ادھورے تھے — کیونکہ ہر چہرے کے پیچھے ایک دل ہوتا ہے، اور ہر دل کی اپنی کہانی۔---صحن جگمگا رہا تھا، گھر دعاؤں، چراغوں اور خوشیوں سے بھرا ہوا تھا — مگر دو دل ایسے بھی تھے جو اس روشنی میں جلتے چراغ نہیں، اپنے اندر کی بے چینی محسوس کر رہے تھے۔شائستہ اور سارہ ایک کونے میں کھڑی تھیں، چہروں پر ہلکی سی مسکراہٹ سجی ہوئی، مگر آنکھوں میں بے سکونی کا اندھیرا صاف جھلک رہا تھا۔"سچ میں بارات آ گئی؟" سارہ نے ہلکی آواز میں کہا، جیسے خود کو یقین دلانا چاہ رہی ہو۔شائستہ نے لب بھینچتے ہوئے گردن ہلائی، "ہاں، آ گئی… اور وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو ہمیں کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔"سارہ نے اردگرد دیکھا، پھر دھیرے سے بولی، "یہ سب... اتنا آسانی سے؟ یہ رشتہ… اتنا خاص؟ اور عینی... اتنی خوش قسمت؟"شائستہ کے دل میں جیسے چھری سی لگی۔ اس نے آہستہ سے، کڑوی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "جسے تم خاموشی کہتی ہو، وہ خاموشی اصل میں سب سے اونچی آواز میں بولتی ہے۔ وہ کسی سے کچھ کہے بغیر دل جیت لیتی ہے... اور ہم؟ ہم نے جتنا کہا، اتنا ہی گنوایا۔"سارہ نے ہاتھ مٹھی میں بند کیے، اور چہرہ موڑ لیا، "کاش کچھ ہو جائے… کوئی ایسی بات… کوئی ایسی غلطی… کہ سب ٹوٹ جائے۔"شائستہ نے تیزی سے اس کی طرف دیکھا، "چپ رہو! کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، بس… ابھی موقع دیکھنا ہے۔ اگر آج سب کچھ مکمل ہو گیا، تو پھر کبھی کچھ ہمارے ہاتھ میں نہیں رہے گا۔"سارہ کی آنکھوں میں بے چینی کا سایہ گہرا ہو چکا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وقت تیزی سے پھسل رہا ہے، اور ان کے پاس اختیار کی ریت مٹھی سے نکلتی جا رہی ہے۔"یہ سکون… یہ ہنسی… یہ دعائیں… میرے حق میں کیوں نہیں ہوتیں؟" سارہ نے آہستہ سے دل میں سوچا، اور آنکھوں میں ایک ایسی نمی اتر آئی جو حسد اور خوف کے سنگم سے جنمی تھی۔شائستہ نے ایک بار پھر محفل کی طرف دیکھا — عینی کے گرد جمع لوگ، دعاؤں میں مصروف سادیہ، چمکتے ہوئے چہرے، اور خوشبو سے بھرا گھر… اور اس لمحے دل میں وہی خواہش دہرائی: "کاش… کچھ بگڑ جائے… کچھ ایسا ہو… جو سب پلٹ دے۔"مگر قدرت خاموشی سے سب سن رہی تھی — شاید بہت آگے کی کوئی تحریر ابھی لکھی جانی باقی تھی۔:بارات کے ہنگامے میں ہر طرف روشنیوں کی چمک اور قہقہوں کی بازگشت تھی۔ لیکن گھر کے پچھلے برآمدے میں، جہاں ہلکی سی خاموشی تھی، سارہ آہستہ سے زاہد کے قریب آئی۔ چہرے پر پریشانی کی جھلک اور لہجے میں ایک خاص سنجیدگی۔"زاہد بھائی، مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے… فوراً۔ مگر وعدہ کریں، میرا نام کسی کو نہیں بتائیں گے۔"زاہد نے چونک کر دیکھا، "کیا ہوا سارہ؟ خیریت ہے؟"سارہ نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا، پھر آہستہ سے بولی، "یہ جو لڑکا ہے نا… عینی کا ہونے والا شوہر… میں اُسے یونیورسٹی سے جانتی ہوں۔ بس یونہی نہیں… بہت کچھ جانتی ہوں۔"زاہد کی پیشانی پر بل پڑ گئے، "کیا مطلب؟ صاف بات کرو۔"سارہ نے آنکھیں جھکائیں، جیسے کوئی بوجھ دل پر ہو، "اس نے یونیورسٹی میں کئی لڑکیوں کو برباد کیا۔ شادی کے وعدے، محبت کے جھوٹے دعوے… اور پھر چھوڑ دینا۔ میں خود جانتی ہوں دو ایسی لڑکیوں کو جو اُس کی وجہ سے آج بھی نفسیاتی علاج کروا رہی ہیں۔ ایک کو تو اُس نے اتنا استعمال کیا کہ اُس کی شادی ہی نہیں ہو پائی۔ اور زاہد بھائی… وہ ہر بار بچ نکلتا ہے، کیونکہ اُس کا خاندان امیر ہے اور باتوں کو دبا دیتا ہے۔"زاہد کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ "کیا تمہیں یقین ہے سارہ؟ کوئی ثبوت؟"سارہ نے فورا کہا، "ثبوت تو اُس جیسے لوگ کبھی پیچھے نہیں چھوڑتے۔ بس چہروں پہ نقاب ہوتے ہیں۔ لیکن میں نے خود اُسے ان لڑکیوں کے ساتھ دیکھا ہے، سنا ہے اُس کے وعدے، اور اُن لڑکیوں کی آنکھوں میں وہ اجڑی ہوئی روشنی۔"پھر اُس نے لہجہ دھیمے کیا، "میں یہ سب صرف اس لیے بتا رہی ہوں کہ آپ کی بہن بہت معصوم ہے… وہ ٹوٹ جائے گی۔ اور پلیز… میرے نام کا ذکر مت کیجیے گا۔ لوگ الٹا مجھے ہی الزام دیں گے کہ میں خوشی میں زہر گھول رہی ہوں۔"زاہد نے کچھ کہے بغیر نظریں جھکا لیں۔ دل میں ایک طوفان اٹھ چکا تھا۔ عینی کے مسکراتے چہرے کی جھلک اُس کے ذہن میں آئی… اور اُس کے مستقبل پر چھائے اس سائے نے اُسے بےچین کر دیا۔:بارات کی گہماگہمی میں جب سب مہمانوں میں مصروف تھے، شائستہ نے موقع دیکھا اور آہستہ سے عینی کی ہونے والی نند کو اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ وہ دلہن کے کمرے کے قریب سے گزر رہی تھی جب شائستہ اُس کے ساتھ آہستہ قدموں سے صحن کے کنارے، ایک سنسان گوشے میں آ گئی۔شائستہ کے چہرے پر نرم مسکراہٹ تھی، جیسے کوئی اپنی بہن جیسی نند سے دل کی بات بانٹ رہی ہو۔"میں آپ کو ایک بات بتاؤں، بس دل پر مت لیجیے گا… میرا مقصد صرف خیر خواہی ہے۔ آپ لوگ بہت اچھے ہیں، اور رشتہ بھی ماشاءاللہ بہت اعلیٰ ہے… بس، ایک بات ہے جو مجھے دل میں چبھ رہی تھی۔"نند نے قدرے چونک کر پوچھا، "جی؟ آپ کھل کے کہیے۔"شائستہ نے گہری سانس لی، آواز اور نرم کی، "عینی… وہ بظاہر بہت خاموش، بہت باحیا لگتی ہے۔ اور میں اُس کے لیے دعا گو ہوں… لیکن سچ یہ ہے کہ وہ دل سے اس رشتے کو نہیں چاہتی۔ اُس کا دل کہیں اور ہے۔"نند کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ شائستہ نے جلدی سے بات آگے بڑھائی، "میں نے خود اُسے کئی بار روتے ہوئے دیکھا ہے۔ راتوں کو تنہا چھت پر بیٹھ کر آنکھوں میں آنسو لیے۔ اور کچھ دن پہلے اُس کی ایک پرانی سہیلی آئی تھی—اُسی سے پرانا رابطہ تھا شاید۔ اُس دن اُس کی آنکھیں کچھ اور کہہ رہی تھیں۔ میں نے کوئی الزام نہیں لگایا، میں نے صرف دیکھا… اور محسوس کیا۔"نند نے خاموشی سے شائستہ کی بات سنی، الجھن اس کے چہرے پر صاف جھلک رہی تھی۔شائستہ نے نرمی سے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا، "میں یہ سب کسی کے خلاف نہیں بول رہی… صرف آپ لوگوں کی عزت اور آپ کے بھائی کے حق میں کہہ رہی ہوں۔ رشتہ جڑنے سے پہلے اگر کچھ واضح ہو جائے تو بہتر ہے، ورنہ بعد میں درد بڑھتا ہے۔"شائستہ کی بات مکمل ہوئی، مگر اُس کا وار چل چکا تھا۔ عینی کی ہونے والی نند کے دل میں شک کا بیج بو دیا گیا تھا—ایسا بیج جو ہر مسکراہٹ کو سوالیہ بنا دیتا ہے۔ —----------------------------------------------------------------------صحن میں شام کی روشنی آہستہ آہستہ گہری ہو رہی تھی۔ کرسیاں ترتیب سے بچھی تھیں، اور نکاح کے لیے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ ہلکی پھلکی چہل پہل ہر طرف تھی۔ عورتیں آپس میں باتوں میں مصروف تھیں، بچے گلاب کی پتیوں سے کھیل رہے تھے، اور بڑے صحن کے کسی کونے میں ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ایسے میں سادیہ کی ساس ایک طرف کرسی پر تھکن سے بیٹھی تھیں، جیسے دیر سے سفر کر کے آئی ہوں۔ شائستہ نے انھیں اکیلا پا کر فوراً موقع بھانپ لیا، اور چائے کا کپ ہاتھ میں لیے ان کے قریب جا پہنچی۔"ارے آنٹی، آپ یہاں اکیلی؟ میں آپ کو ڈھونڈ ہی رہی تھی۔ آئیے ناں، ذرا آرام سے بیٹھیں، جب تک نکاح کا وقت آتا ہے۔"ساس نے ہلکا سا مسکرا کر کہا، "بس وہیں بیٹھ گئی جہاں جگہ ملی، سب اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف ہیں۔"شائستہ نے گردن ہلا کر بات بڑھائی، "جی ہاں، گھر بڑا ہو تو ذمہ داریاں بھی بڑی ہو جاتی ہیں۔ سادیہ آپی تو بہت خوش نصیب ہیں... ہر وقت سب کی فکر، سب کا خیال۔"ساس نے نرمی سے کہا، "اللہ اسے سلامت رکھے، وہ واقعی بہت سنبھلی ہوئی ہے۔"شائستہ کے ہونٹوں پر وہ مخصوص دھیمی مسکراہٹ آ گئی، جس میں چالاکی چھپی تھی۔"بس آنٹی... ایک بات کہوں اگر برا نہ مانیں؟"ساس نے چونک کر دیکھا، "ہاں بیٹا، کہو؟""بس یوں ہی دل میں آئی کہ آپ سے ذکر کر دوں... سادیہ آپی کے دل میں کچھ باتیں تھیں، جو وہ اکثر ذکر کرتی ہیں۔ میں تو ہمیشہ اسے سمجھاتی ہوں کہ دل صاف رکھو، لیکن..."ساس کی پیشانی پر ہلکی سی لکیریں ابھر آئیں۔ "کون سی باتیں؟"شائستہ نے آہستہ آواز میں، ایسے جیسے راز کی بات ہو، کہا:"بس وہ کبھی کبھار کہتی ہیں کہ آنٹی بہت سخت ہیں، ہر بات میں روک ٹوک کرتی ہیں۔ اور وہ نند... وہ تو جیسے ان کی زندگی میں سکون آنے ہی نہیں دیتی۔"ساس نے نظریں چرائیں، جیسے وہ کچھ سوچنے لگی ہوں۔شائستہ نے آخری تیر بھی چلا دیا:"آنٹی، میں کسی کی برائی نہیں کرتی۔ بس دل دکھتا ہے جب سادیہ آپی جیسی سلجھی ہوئی لڑکی اپنے ہی دل میں پریشان رہے۔ کبھی کہتی ہیں، شاید وقت آنے پر انہیں الگ ہونا پڑے۔ میں نے ہمیشہ انہیں سمجھایا، مگر... آپ خود ماں ہیں، شاید آپ زیادہ بہتر جان سکیں کہ بیٹی کے دل میں کیا ہے۔"ساس خاموش ہو گئیں۔ شائستہ نے اندازہ لگا لیا کہ زہر کام دکھا چکا ہے۔:نکاح کی تیاری آخری مرحلے میں تھی، سب منتظر تھے کہ قاضی صاحب آئیں اور رسم کا آغاز ہو۔ایسے میں سادیہ کی ساس، جو خاموشی سے کونے میں بیٹھی تھیں، آہستہ سے اٹھیں۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا اور پوتا بھی تھے۔ انہوں نے اردگرد دیکھا، جیسے کسی کو اطلاع دیے بغیر جانا چاہتی ہوں۔شائستہ نے اُنہیں باہر جاتے دیکھا تو فوراً لپکی، "ارے آنٹی، آپ جا رہی ہیں؟ ابھی تو نکاح شروع بھی نہیں ہوا۔"ساس نے تھکی تھکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "بس بیٹا، تھوڑا سفر بھی ہے، اور بچے بھی پریشان ہو رہے ہیں۔ باقی سب کو میری طرف سے دعا دے دینا۔"شائستہ نے فوراً ہمدردی دکھائی، "جی آنٹی، آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ لیکن دل چاہتا ہے آپ نکاح تک رک جاتیں… خیر، آپ کی طبیعت اور سہولت مقدم ہے۔"اسی لمحے سادیہ بھی جلدی سے سامنے آ گئی۔ "امی؟ آپ جا رہی ہیں؟ ابھی تو قاضی صاحب نے آنا ہے۔"ساس نے نظریں چرائیں، اور بس اتنا کہا، "سادیہ، میں نے جو دیکھنا تھا، دیکھ لیا۔ دعا ہے سب خیر سے ہو۔"سادیہ کی آنکھوں میں سوال تھے، مگر وقت ایسا نہ تھا کہ وہ انہیں زبان دے پاتی۔ وہ خاموش ہو کر رہ گئی۔پوتا دادو کا ہاتھ پکڑے خاموشی سے چل رہا تھا، اور سادیہ کا شوہر اپنی ماں کے اس اچانک فیصلے پر الجھن میں تھا، مگر کچھ بول نہ سکا۔دروازے سے نکلتے وقت شائستہ نے پیچھے دیکھا، اور دل میں ایک اطمینان ابھرا۔ "کام شروع ہو چکا ہے… صرف ایک دھکا چاہیے، اور سب کچھ ٹوٹ سکتا ہے۔"بالکل، آئیے منظر کو نکاح سے پہلے کی صورتحال کے مطابق دوبارہ ترتیب دیتے ہیں۔ اب سارا اور شائستہ کسی کمرے میں اطمینان سے بیٹھ کر اپنی چالاکیوں پر بات کر رہی ہیں، اور زاہد محض اتفاقاً دروازے کے پاس سے گزرتا ہے اور سب سن لیتا ہے۔نکاح کی تقریب میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ مہمان آہستہ آہستہ جمع ہو رہے تھے، سب تیاریوں میں مصروف تھے۔ عینی کمرے میں تیار ہو رہی تھی، اور صحن میں چہل پہل تھی۔ ایسے میں، شائستہ اور سارا اندر کے ایک کمرے میں تھیں، جہاں دروازہ آدھا کھلا تھا۔ کمرے کی فضا میں سکون تھا، مگر باتوں میں زہر۔شائستہ نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ کہا، "بس وہ سادیہ کی ساس… بڑی خاموش بیٹھی تھی، میں نے موقع دیکھ کر کہہ دیا کہ سادیہ تو اکثر کہتی ہے کہ وہ سخت مزاج ہیں، اور اب علیحدہ ہونے کا سوچ رہی ہے۔"سارا نے بےساختہ قہقہہ لگایا، "تم نے یہ بھی بتایا؟ بہت خوب! اور میں نے زاہد کو جو کہا نا، وہ ہنسی۔ میں نے اسے یقین دلا دیا کہ یہ لڑکا، جس سے عینی کا نکاح ہونے والا ہے، یونیورسٹی میں کئی لڑکیوں کو برباد کر چکا ہے… وہ تو بس شکل سے شریف لگتا ہے!"شائستہ نے گردن جھکا کر دھیمے لہجے میں کہا، "یہ نکاح اگر رک جائے، تو نہ صرف عینی کا رشتہ ٹوٹے گا، بلکہ سادیہ بھی اپنے سسرال میں شرمندہ ہو گی۔ سب کچھ آہستہ آہستہ ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا۔"سارا نے زیرِلب مسکراتے ہوئے کہا، "اب دیکھنا، نکاح شروع ہونے سے پہلے ہی شکوک کا بیج ایسا بو دیا ہے کہ فصل زہر ہی اگائے گی۔"دونوں ایک دوسرے کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھیں، اور اگلے وار کا سوچنے لگیں۔لیکن کمرے کے باہر، دروازے کی دوسری طرف زاہد ٹھٹھک کر رک گیا تھا۔ وہ محض گزر رہا تھا، مگر سنا کچھ ایسا جو اُس کے پاؤں زمین میں گاڑ گیا۔ اُس کی سانسیں بھاری ہو گئیں، اور دل میں سنّاٹا چھا گیا۔"تو یہ سب… میرے اپنے تھے؟ میرے اپنے گھر میں بیٹھ کر میری بہن کو برباد کرنے والے؟"اُس کے چہرے پر اب حیرت نہ تھی، بلکہ ایک ٹھہرا ہوا دکھ اور غصے کا عکس تھا۔ وہ خاموشی سے وہاں سے ہٹ گیا، مگر اُس کا دل اب بےیقینی سے خالی ہو چکا تھا۔ شائستہ اور سارا کے الفاظ، جیسے زخم بن کر دل میں اتر گئے تھے۔بالکل، آئیے منظر کو آپ کی ہدایت کے مطابق دوبارہ لکھتے ہیں۔ مکالمے میں چالاکی، حسد اور سازش کی جھلک ہو، لیکن انداز نارمل بات چیت جیسا ہو۔ زاہد دروازے کے پاس سے گزر رہا ہو، اور یہ سب باتیں سن لے، لیکن دونوں کو اس کا علم نہ ہو:شائستہ نے چائے کا گھونٹ لیا اور پھر آہستہ سے بولی، "میں اسے صرف اس لیے برداشت کر رہی ہوں… زاہد کو۔ ورنہ نہ اُس کی ماں قابلِ برداشت ہے، نہ اُس کی بہنیں۔ صرف وہ جائیداد جو اُس کے نام ہے… بس وہی مجھے باندھے ہوئے ہے۔"سارہ نے سر ہلایا اور ہنستے ہوئے بولی، "تو دو چار سال کی بات ہے نا، پھر علیحدہ گھر لے لینا۔ اپنے طریقے سے جینا، اپنی مرضی کی دنیا بنانا۔"شائستہ کے چہرے پر وہی چالاک مسکراہٹ ابھری۔ "ہاں… اور اس سے پہلے، میں عینی کی شادی خراب کر کے چھوڑوں گی۔ ایسے وقت پر، ایسا وار کرنا ہے کہ سب بس تماشہ دیکھیں۔""اندر کی خاموشی میں ان کی سرگوشیاں گونج رہی تھیں… اور دروازے کے باہر، زاہد بےیقین قدموں سے رک چکا تھا۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔ یہ وہ باتیں تھیں جنہیں سننے کے بعد کسی کا بھی دل بند مٹھی میں آ جائے۔اس کی آنکھوں میں صدمہ، ماتھے پر پسینہ، اور دل میں ایک فیصلہ ابھر رہا تھا۔اس نے دروازے پر ہاتھ رکھا… آوازوں کی نرمی میں ایک چھپا ہوا زہر محسوس ہو رہا تھا۔چند لمحے یونہی خاموشی میں گزرے… پھر اس نے ایک گہری سانس لی، اور چپ چاپ، آہستگی سے دروازے کی کنڈی باہر سے لگا دی۔دروازہ اب بند تھا۔اندر ہنسی تھی… باہر ایک دل ٹوٹنے کی آواز۔زاہد کی آنکھوں میں نمی ابھر آئی، لیکن وہ اسے چھپانا جانتا تھا۔ دل میں ایک بےآواز مگر واضح فقرہ گونجا:"کچھ رشتے وقت نہیں… سازشیں ناپاک کر دیتی ہیں۔"وہ پلٹا، اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا اندھیرے صحن میں گم ہو گیا۔نکاح کی رونقیں باقی تھیں… مگر زاہد کے دل میں ایک چراغ خاموشی سے بجھ چکا تھا۔:نکاح کی تقریب سے کچھ دیر پہلے کا وقت تھا۔ مہمان آہستہ آہستہ جمع ہو رہے تھے، کچھ ہنسی خوشی میں مصروف، کچھ تیار ہونے میں۔ اسی ہلچل میں، عینی کی ہونے والی نند، جو اپنی بھابھی کے کہنے پر ابھی خاموش تھی، ایک کونے میں اپنے بھائی سے بات کر رہی تھی۔"بھائی، مجھے ایک بات کہنی ہے۔" وہ کچھ جھجک کر بولی۔لڑکے نے سنجیدگی سے اسے دیکھا، "کیا بات ہے؟"وہ ذرا قریب ہو کر آہستہ سے بولی، "میں نے شائستہ بھابھی سے سنا ہے کہ عینی کسی اور سے محبت کرتی ہے… اور یہ شادی اُس پر زبردستی کی جا رہی ہے۔"لڑکے نے کچھ لمحے خاموشی سے اپنی بہن کی طرف دیکھا، جیسے اس کے لفظوں کا وزن تول رہا ہو۔ پھر وہ دھیرے سے بولا، "اور تمہیں شائستہ پر یقین آ گیا؟"بہن نے الجھ کر کہا، "وہ تو بہت سنجیدگی سے کہہ رہی تھیں… جیسے کسی راز کو ظاہر کر رہی ہوں۔"لڑکے کے چہرے پر نرمی اور دانائی ابھری۔ "کبھی کبھی سچ وہ نہیں ہوتا جو سب سے پہلے سننے کو ملے، بلکہ وہ ہوتا ہے جو دل کی آنکھ دیکھتی ہے۔ میں نے عینی کو آج نہیں، کئی دنوں سے دیکھا ہے۔ اس کی خاموشی، اس کا انداز… یہ سب جھوٹا نہیں ہو سکتا۔"پھر اس نے نرمی سے اپنی بہن کا ہاتھ تھاما، "اگر تم واقعی مجھ سے محبت کرتی ہو تو کسی کے کہے پر میرا گھر برباد مت کرنا۔ شائستہ کی آنکھوں میں جو حسد ہے، وہ تم نے بھی محسوس کیا ہوگا۔"بہن خاموش ہو گئی، شرمندگی سی اس کے چہرے پر آ گئی۔ "میں کچھ نہیں کہوں گی۔" اُس نے ہولے سے کہا۔لڑکے نے مسکرا کر سر ہلایا۔ "شکریہ۔ سچ خود سب کو دکھائی دے گا، بس ہمیں خاموش رہ کر اسے جیتنے دینا ہے۔":نکاح کے کلمات فضا میں گونج رہے تھے۔محفل میں ایک عجب خاموشی تھی، جیسے وقت رک گیا ہو۔ مولوی صاحب کی آواز دھیمی، مگر پراثر… "عینی بنت سلیمان، کیا آپ کو فلاں بن فلاں کا نکاح، حق مہر اتنے میں قبول ہے؟"عینی نے نظریں جھکائے، ایک لمحے کو پلکیں بند کیں۔ پھر نہایت سکون سے کہا:"قبول ہے۔"کائنات کی فضا میں یہ تین لفظ، جیسے کوئی قفل کھل گیا ہو… کوئی زخم بھرنے لگا ہو۔دوسری طرف لڑکا بھی اپنے الفاظ کے ساتھ اس مقدس بندھن کا حصہ بن گیا۔ مہمانوں کی آنکھوں میں نمی تھی، دعاؤں کی سرگوشیاں فضا میں بکھر رہی تھیں۔زاہد تھوڑا پیچھے کھڑا، خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔اس کے دل کی گہرائیوں سے ایک دعا نکلی، اور ایک فقرہ جو شاید وہ زبان سے نہ کہہ سکا، مگر دل نے بہت واضح کہا:"یااللہ، یہ رشتہ صرف تیرا بنایا ہوا ہو… اس میں صرف تیرا نور ہو… اور جن دلوں نے اندھیروں کے لیے سازش کی، ان پر تیرا فیصلہ ہو۔"نکاح مکمل ہو چکا تھا۔ روشنی جیسے دلوں تک پہنچ چکی تھی۔اور کچھ لمحے... کبھی ہمیشہ کے لیے ٹھہر جاتے ہیں۔:کمرے کی خاموشی اب دھیرے دھیرے شور میں بدل رہی تھی۔ دروازہ بند تھا، کنڈی باہر سے لگی ہوئی۔ شائستہ نے پہلے نرمی سے ہینڈل گھمایا، پھر ذرا زور سے کھٹکھٹایا۔"دروازہ کھولو! کوئی ہے؟" اس کی آواز میں حیرت اور بے چینی دونوں تھی۔سارہ نے قریب آ کر دروازے پر ہاتھ مارا، "یہ کیا مذاق ہے؟ کسی نے باہر سے کنڈی لگا دی ہے؟"دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔"یااللہ... اگر اس وقت نکاح ہو رہا ہوا تو؟" شائستہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، سانسیں تیز ہو گئیں۔سارہ نے نفی میں سر ہلایا، "نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ کوئی نہیں مانے گا اتنی جلدی۔ کچھ ہوا ہوگا، اس لیے سب خاموش ہیں۔""ہاں... ہو سکتا ہے نکاح رُک گیا ہو، یا شاید لڑکا یا اس کی ماں نے انکار کر دیا ہو، اسی لیے کوئی آ کے ہمیں نہیں بتا رہا، سب پریشان ہوں گے۔" شائستہ نے جیسے اپنے دل کو تسلی دی۔"بالکل۔ اگر نکاح ہو گیا ہوتا تو کوئی تو آتا بلانے۔ اتنی خاموشی نہیں ہوتی۔" سارہ نے دھیرے سے کہا۔شائستہ دروازے سے لگی کھڑی رہی، جیسے دیواروں سے امید باندھ رہی ہو۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، اور چہرے پر ایک عجیب سا سکون… جسے صرف وہی لوگ محسوس کرتے ہیں جو دل سے فتنے پالتے ہیں۔مگر قسمت جب خاموش ہو جائے… تو وہ کسی کے دروازے پر دستک نہیں دیتی۔باہر ہال کی روشنیوں میں کچھ خاص سا سکون اتر آیا تھا۔ نکاح کے بعد سب نظریں اب صرف ایک منظر کی طرف تھیں—رخصتی۔عینی سفید اور گلابی امتزاج کے لباس میں خاموش بیٹھی تھی۔ چہرے پر سکون کی ایک تہہ، مگر آنکھوں میں نمی کی جھلک۔ امی اس کے ساتھ بیٹھی تھیں، دعائیں دے رہی تھیں، سادیہ نے اس کے ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھے تھے، جیسے برسوں کی دعا کو الوداع کہہ رہی ہو۔مولوی صاحب کی آواز پھر سنائی دی، "اب رخصتی کی دعا کی جائے گی..."آہستہ آہستہ سب خاموش ہو گئے۔ دعاؤں کی آوازیں، سسکیوں سے ملنے لگیں۔ دلوں میں کچھ چھوٹ رہا تھا، کچھ جڑ رہا تھا۔ عینی کے آنسو سادیہ کے دوپٹے میں جذب ہو رہے تھے۔"اللہ کرے تجھے ہر خوشی نصیب ہو،" امی کی آواز کانپ رہی تھی، "تیری زندگی ایسی ہو جیسے تُو خود ہے، صاف دل، نرم مزاج، اور صابر..."زاہد کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ نگاہوں میں سکون، دل میں ایک گہری تشکر کی کیفیت۔ آج اسے لگ رہا تھا کہ اس نے ایک اہم امتحان میں کامیابی پائی ہے، اور وہ اپنی بہن کے لیے سچائی کا راستہ بچا لایا ہے۔گاڑی کے دروازے کھلے۔ عینی نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہی گھر، وہی صحن جہاں برسوں گزارے تھے۔ اب پیچھے رہ رہا تھا۔دروازہ بند ہوا، گاڑی آہستہ سے چل پڑی۔—----------------------------------------------اور کسی بند دروازے کے پیچھے، دو عورتیں اب بھی بند تھیں—شاید قسمت کا وہی باب پڑھ رہی تھیں جو انہوں نے دوسروں کے لیے لکھا تھا۔ہال خالی ہو چکا تھا، روشنیاں مدھم ہونے لگی تھیں، اور لوگوں کے چہروں پر سکون کی پرچھائیاں تھیں۔ رخصتی کے بعد سب جیسے اپنے اپنے دل کی دعاؤں میں مصروف ہو گئے تھے۔زاہد، جس کا چہرہ سارا وقت خاموش تھا، اب اپنی آنکھوں میں ایک طوفان لیے گھر کی طرف بڑھا۔ اس کے قدم تیز تھے، دل میں صرف ایک عزم تھا—سچ کو سامنے لانا۔اس نے آہستگی سے وہ کمرے کا دروازہ کھولا جو اس نے کچھ دیر پہلے بند کیا تھا۔ اندر سناٹا چھایا تھا۔ جیسے وقت بھی رک گیا ہو۔شائستہ اور سارہ کی نظریں چونک کر دروازے کی طرف اٹھیں، مگر ان کے چہروں پر اب وہ اعتماد باقی نہ تھا۔ ان کی امیدیں اس سناٹے میں دفن ہو چکی تھیں۔زاہد نے سخت لہجے میں کہا، "چلو… باہر۔"شائستہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر زاہد نے اس کے بازو کو سختی سے پکڑ کر اسے باہر کی طرف دھکیل دیا۔ وہ جو برسوں سے ہر بات کو اپنی چالاکی سے چھپاتی آئی تھی، آج سب کے سامنے بے نقاب کھڑی تھی۔سب لوگ چونک گئے۔ امی، سادیہ، حتیٰ کہ مہمانوں میں سے کچھ واپس آ گئے تھے۔زاہد نے سب کے سامنے کھڑے ہو کر گہری آواز میں کہا:"یہ وہ عورت ہے جسے میں نے بیوی کا رتبہ دیا… اور اس نے میرے اعتماد کو جلا کر راکھ کر دیا۔ میری بہنوں کی زندگی برباد کرنے پر تلی ہوئی تھی، جھوٹ، بہتان، سازشیں… سب کچھ۔ لیکن آج، اللہ نے میری آنکھیں کھول دیں۔"وہ ایک لمحہ رکا، اور پھر صاف الفاظ میں اعلان کیا:"میں تمہیں ایک طلاق دیتا ہوں… شائستہ۔ اسلام نے مجھے حق دیا ہے، اور میں آج اس حق کو استعمال کر رہا ہوں۔"سکوت چھا گیا۔شائستہ کا رنگ اُڑ گیا۔ سارہ خاموش کھڑی تھی جیسے زمین نے قدموں سے نیچے سے حرکت کر لی ہو۔زاہد نے نگاہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن دل میں سکون—جیسے برسوں بعد کسی نے حق کی راہ پہ قدم رکھا ہو۔اور کسی بند دروازے کے پار، ظلم کے باب بند ہو چکے تھے۔ اور عینی کی نئی زندگی کا پہلا صفحہ روشن ہو چکا تھا۔زاہد کے جلال سے بھرے الفاظ ہال کی فضا میں گونج رہے تھے، مگر شائستہ اب بھی اپنی پرانی چالاکی سے جھوٹ کا سہارا لینے کی کوشش میں تھی۔اس نے لڑکھڑاتی آواز میں کہا:"میں نے کچھ نہیں کیا، تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے زاہد... مجھے کیوں بدنام کر رہے ہو؟ میں نے تو ہمیشہ تمہارا اور تمہارے گھر والوں کا خیال رکھا۔"اس کے لہجے میں ایک عجیب قسم کا معصوم بننے کا تاثر تھا، جیسے سب کچھ ایک غلط فہمی ہو۔ آنکھوں میں مصنوعی نمی، اور چہرے پر وہی پرانا نقاب جو برسوں سے اسے بچاتا آیا تھا۔زاہد کی آنکھیں اب بھی اس کے چہرے پر جمی تھیں۔ مگر اس بار وہ نقاب کے پیچھے چھپے چہرے کو بخوبی پہچان چکا تھا۔اس نے ایک قدم آگے بڑھایا اور دھیمی مگر کڑی آواز میں کہا:"غلط فہمی؟ میں نے تمہیں اپنے کانوں سے سنا ہے، شائستہ۔ تمہاری زبان سے نکلے وہ لفظ میرے دل میں پتھر کی طرح بیٹھ گئے ہیں۔ یہ جھوٹ اب تمہاری حفاظت نہیں کرے گا۔"شائستہ کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ وہ جان گئی تھی کہ یہ وہ زاہد نہیں رہا جو ہر بات پر خاموشی اختیار کر لیتا تھا۔ آج وہ جاگ چکا تھا۔ آج حق اس کی زبان پر تھا—اور جھوٹ کا ہر پردہ ہٹ چکا تھا۔برآمدے میں خاموشی طاری تھی، سب رخصتی کے بعد واپس لوٹے تو زاہد کے چہرے پر وہ جلال باقی تھا جو کسی فریب کے بعد آنکھوں میں بس جاتا ہے۔ شائستہ اب بھی سامنے کھڑی تھی—لیکن اس بار اُس کے چہرے پر نہ ندامت تھی، نہ شرمندگی۔ صرف ایک ٹھہری ہوئی ڈھٹائی تھی، جو اعتراف کرتے ہوئے بھی گھبراہٹ محسوس نہیں کرتی۔"ہاں، کیا میں نے… سب کچھ۔ اور کیوں نہ کرتی؟ تم لوگوں کی بہن کو اتنا اچھا رشتہ ملے، اور میں خاموش رہوں؟ میں کیوں برداشت کروں یہ سب؟ کیا میری بہن کا کوئی حق نہیں؟ سارا گھر تمہاری بہنوں کے گُن گاتا ہے—عینی، سادیہ—اور میری تو جیسے کوئی حیثیت ہی نہیں!"زاہد نے سختی سے مٹھیاں بند کیں۔ "تو تم نے اِس لیے اُس کی بدنامی کی؟ جھوٹے الزامات لگائے؟ رشتے کو توڑنے کی کوشش کی؟"شائستہ نے گردن اٹھا کر کہا، "ہاں! میں نے سب کیا… اور جو کیا، بالکل ٹھیک کیا۔ تم نے کبھی پوچھا کہ میرے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ میں تمہارے لیے سب سہتی رہی… بس اس امید میں کہ شاید ایک دن مجھے بھی عزت ملے گی۔ لیکن ملا کیا؟ تم ہمیشہ اُن کی طرفداری کرتے رہے۔ تمہاری ماں، تمہاری بہنیں، سب مجھے بوجھ سمجھتی ہیں!"زاہد نے دھیمے مگر گہرے لہجے میں کہا، "عزت کسی کو تب ملتی ہے جب وہ خود عزت کرنے کا حوصلہ رکھے۔ تم نے جو کیا، وہ سازش تھی، حسد تھا، خودغرضی تھی۔"شائستہ ایک قدم آگے بڑھی، اب اُس کے انداز میں ایک خالص نفرت بول رہی تھی۔"ہاں! سازش تھی… کیونکہ مجھے یقین تھا کہ تم جیسے مرد صرف انہی عورتوں کو چاہتے ہو جو خاموش رہیں، فرمانبردار بن کر رہیں۔ جو زبان نہ کھولیں، جو صرف آنکھیں نیچی کر کے رہیں۔ اور تمہاری بہنیں یہی کرتی رہیں… اور تم نے اُنہیں سر پر بٹھا لیا۔"زاہد نے سرد لہجے میں کہا، "عینی نے زبان بند رکھی، مگر اُس کی نیت صاف تھی۔ تم نے زبان چلائی اور زہر اگلا۔ فرق یہ ہے، شائستہ۔ تم نے رشتے کو روکا نہیں، زہر دیا اُس میں۔"شائستہ کی آواز اب بلند ہو گئی، "اور اگر دوبارہ موقع ملا تو پھر یہی کروں گی! کیونکہ تمہیں سزا دینا باقی ہے—اُن سب باتوں کی جو تم نے میرے ساتھ کیں۔ جو میں سہتی رہی… ہر دن، ہر رات۔"زاہد نے نظر نیچی کی۔ لمحہ بھر خاموشی چھائی رہی۔پھر اُس نے سرد لہجے میں کہا، "پھر یہ سزا مکمل ہو گئی۔ آج سے، اِس گھر سے، اِس رشتے سے، تم آزاد ہو۔ وہ آزادی، جس کا تم نے کبھی خواب دیکھا تھا… لے لو۔ لیکن اِس بار تنہا، اپنی حقیقت کے ساتھ۔زاہد کے دو ٹوک الفاظ جیسے دیوار پر کھنچی آخری لکیر تھے۔ لیکن شائستہ وہ نہیں تھی جو کسی لکیر کو تسلیم کرتی۔ اُس کے چہرے پر اب بھی وہی غرور، وہی انا، وہی خود پرستی کی پرچھائیاں تھیں۔ وہ ہنکارتی ہوئی پیچھے ہٹی، اور جلتی آنکھوں سے زاہد کو گھور کر بولی:"مجھے تم جیسے مرد کی کوئی ضرورت نہیں! سمجھے تم؟ تمہاری ان فرشتہ صفت بہنوں کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے کہ میں تنہا رہوں۔ تم نے سمجھا کیا تھا؟ تم جیسا تو بازار میں دس مل جاتے ہیں۔ میں چاہوں تو کل ہی تم سے بہتر کو اپنی زندگی میں لا سکتی ہوں!"زاہد کی آنکھوں میں اس کی باتوں کا زہر اترا، لیکن وہ خاموش رہا۔ وہ غصے سے نہیں، دکھ سے دیکھ رہا تھا—ایک عورت کو جو خود اپنے غرور کی قیدی بن چکی تھی۔شائستہ نے گردن اونچی کی، جیسے فتح کا اعلان کر رہی ہو، "میں یہاں نہیں رہنے والی۔ تمہاری ان بہنوں کے سامنے روز روز خود کو گراتی نہیں رہ سکتی۔ تم سب ایک جیسے ہو—جھوٹے، خود غرض، عورت کو قدموں میں دیکھنے والے! میں جا رہی ہوں… اور خوشی سے!"اُس نے آخری بار نگاہ پھیر کر زاہد کی طرف دیکھا اور پھر اپنے غرور کے خول میں لپٹی کمرے سے نکل گئی۔دروازہ بند ہوا، اور کمرے میں ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ زاہد وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں الجھیں، اور آنکھوں میں وہ سوالات بھر آئے جو صرف وہی جان سکتا تھا۔دل ہی دل میں اُس نے سوچا، "یہ وہ عورت تھی جسے میں نے عزت دی، تحفظ دیا، اور گھر کا ایک حصہ بنایا… اور اُس نے ہر رشتے کو توڑنے میں فخر محسوس کیا۔ شاید سب سے بڑی غلطی میری یہی تھی کہ میں نے دل سے چاہا… کسی ایسے کو جو صرف خود کو چاہتی تھی۔"وہ خاموش بیٹھا رہا—نہ آنکھوں میں آنسو، نہ زبان پر شکوہ—بس ایک تھکن… روح کی تھکن، جیسے کوئی بہت وزنی خواب آخرکار گر کر چکناچور ہو گیا ہو۔شائستہ اور سارہ، دونوں ایک خاموش طوفان کی مانند نکلیں۔ دروازہ کھلنے کے بعد لمحے بھر کو وہ ساکت کھڑی رہیں، لیکن سامنے کھڑے زاہد کی نگاہوں میں نہ غصہ تھا، نہ رحم—صرف وہ سچ جو ابھی ابھی زبان سے ادا ہوا تھا، اور جس نے شائستہ کے بنے بنائے فریب کا محل زمیں بوس کر دیا تھا۔سارہ نے گھبرا کر شائستہ کی طرف دیکھا، مگر شائستہ اب بھی اُسی اکڑ میں کھڑی تھی۔ وہ اب شرمندہ نہ تھی، بلکہ زخمی غرور کے ساتھ سر اٹھا کر چلنے کو تیار۔ اُس نے زاہد کے چہرے کی طرف دیکھا، جیسے اسے چیلنج کر رہی ہو۔"چلو سارہ!" وہ تنک کر بولی، "ہمیں اس چھوٹے سوچ والے گھر میں مزید ایک پل بھی نہیں رکنا۔"سارہ، جو اندر سے ہل چکی تھی، مگر اپنی بہن کے سامنے لب نہ کھول سکی، خاموشی سے اُس کے پیچھے چل پڑی۔زاہد، اپنی جگہ خاموش کھڑا رہا۔ کسی نے انہیں روکا نہیں۔ نہ سادیہ، نہ امی، نہ گھر کے کسی اور فرد نے ایک لفظ بولا۔ جیسے سب کو معلوم تھا، کہ یہ جانا ہی ان کا انجام تھا۔شائستہ نے جاتے ہوئے پیچھے مُڑ کر آخری بار اُس آنگن کو دیکھا، جہاں وہ کبھی "بہو" کہلائی جاتی تھی۔ لیکن آج وہ صرف ایک کردار بن چکی تھی—ایک ایسا کردار جو اپنی ہی سازش میں بے نقاب ہو چکا تھا۔سارہ اور شائستہ گیٹ سے باہر نکلیں۔ رُخصت کی وہ گھڑی، جو کبھی دلہن کے لیے ہوتی ہے، آج ان دونوں کے لیے تھی—لیکن بغیر کسی دعا، بغیر کسی آنکھ کے نم ہونے کے۔گھر کے اندر ایک عجیب سا سکون اُتر آیا تھا۔ جیسے فضا سے ایک بوجھ ہٹ چکا ہو۔ زاہد اب بھی خاموش کھڑا تھا، مگر اُس کے چہرے پر ایک ایسی سکون آمیز سنجیدگی تھی، جو صرف سچائی کے سامنے جھکنے والے کو نصیب ہوتی ہے۔شائستہ اور سارہ، دونوں ایک خاموش طوفان کی مانند نکلیں۔ دروازہ کھلنے کے بعد لمحے بھر کو وہ ساکت کھڑی رہیں، لیکن سامنے کھڑے زاہد کی نگاہوں میں نہ غصہ تھا، نہ رحم—صرف وہ سچ جو ابھی ابھی زبان سے ادا ہوا تھا، اور جس نے شائستہ کے بنے بنائے فریب کا محل زمیں بوس کر دیا تھا۔سارہ نے گھبرا کر شائستہ کی طرف دیکھا، مگر شائستہ اب بھی اُسی اکڑ میں کھڑی تھی۔ وہ اب شرمندہ نہ تھی، بلکہ زخمی غرور کے ساتھ سر اٹھا کر چلنے کو تیار۔ اُس نے زاہد کے چہرے کی طرف دیکھا، جیسے اسے چیلنج کر رہی ہو۔"چلو سارہ!" وہ تنک کر بولی، "ہمیں اس چھوٹے سوچ والے گھر میں مزید ایک پل بھی نہیں رکنا۔"سارہ، جو اندر سے ہل چکی تھی، مگر اپنی بہن کے سامنے لب نہ کھول سکی، خاموشی سے اُس کے پیچھے چل پڑی۔زاہد، اپنی جگہ خاموش کھڑا رہا۔ کسی نے انہیں روکا نہیں۔ نہ سادیہ، نہ امی، نہ گھر کے کسی اور فرد نے ایک لفظ بولا۔ جیسے سب کو معلوم تھا، کہ یہ جانا ہی ان کا انجام تھا۔شائستہ نے جاتے ہوئے پیچھے مُڑ کر آخری بار اُس آنگن کو دیکھا، جہاں وہ کبھی "بہو" کہلائی جاتی تھی۔ لیکن آج وہ صرف ایک کردار بن چکی تھی—ایک ایسا کردار جو اپنی ہی سازش میں بے نقاب ہو چکا تھا۔سارہ اور شائستہ گیٹ سے باہر نکلیں۔ رُخصت کی وہ گھڑی، جو کبھی دلہن کے لیے ہوتی ہے، آج ان دونوں کے لیے تھی—لیکن بغیر کسی دعا، بغیر کسی آنکھ کے نم ہونے کے۔گھر کے اندر ایک عجیب سا سکون اُتر آیا تھا۔ جیسے فضا سے ایک بوجھ ہٹ چکا ہو۔ زاہد اب بھی خاموش کھڑا تھا، مگر اُس کے چہرے پر ایک ایسی سکون آمیز سنجیدگی تھی، جو صرف سچائی کے سامنے جھکنے والے کو نصیب ہوتی ہے۔—--------------------------------------صحن میں شام کا اندھیرا اتر چکا تھا۔ نکاح، رخصتی، اور پھر شائستہ و سارہ کی رخصتی کے بعد گھر میں خاموشی چھا گئی تھی۔ مگر اُس خاموشی کے اندر ایک عجیب سا سکون بھی تھا—جیسے فضا میں کوئی بوجھ ہلکا ہو گیا ہو۔ زاہد، جو ساری دوپہر سے ضبط کے ساتھ کھڑا رہا، اب دھیرے قدموں سے اپنے والدین کے کمرے کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھلا، امی نماز پڑھ چکی تھیں اور اب تسبیح کے دانے گن رہی تھیں، ابو کرسی پر بیٹھے کچھ گہری سوچوں میں گم تھے۔زاہد نے دروازے کی چوکھٹ پر آ کر کھڑے ہوتے ہی نظریں جھکا لیں۔ اس کے مضبوط کندھے اب بھی لرز رہے تھے، مگر یہ لرزش کمزوری کی نہیں، توبہ کی تھی۔"امی، ابو..." اُس کی آواز میں نمی گھلی ہوئی تھی، "آپ دونوں نے ہمیشہ مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔ ہر بار منع کیا کہ بیٹا، جذبات میں فیصلے نہ کیا کرو۔ مگر میں نے... میں نے محبت اور دھوکے میں فرق نہ کیا۔"امی نے تسبیح روک دی، ابو نے نظریں اس کی طرف اُٹھائیں۔"امی، آپ نے میری ہر خوشی میں شامل ہونا چاہا، لیکن میں نے اُس خوشی کو چُنا جس میں آپ کی رضا نہ تھی۔ میں نے اس گھر میں زخم لائے... اور اب جب سب ختم ہو گیا تو سمجھ آیا کہ جس فیصلے میں ماں باپ کی رضا نہ ہو، وہ فیصلے خوشی نہیں دیتے، بلکہ عبرت دے جاتے ہیں۔"ابو کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ امی نے نظریں جھکا لیں جیسے دل میں کوئی پرانا دکھ تازہ ہو گیا ہو۔زاہد نے قدم آگے بڑھا دیے، اور ابو کے قدموں میں بیٹھ گیا۔"ابو، آپ نے اُس دن کہا تھا کہ بیٹا، بیٹیاں اپنی ماں پر جاتی ہیں۔ اُس وقت مجھے یہ بات سخت لگی تھی، لیکن آج... آج جب میں نے شائستہ کو دیکھا، اُس کی ماں کی پرچھائیں اُس میں دیکھی۔ اُس عورت نے بھی اپنے شوہر کو کبھی عزت نہ دی، اور بیٹی نے بھی ایک قدم پیچھے نہ ہٹی، جب وقت آیا تو اُس نے میری بہنوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی کوشش کی... صرف جائیداد کے لیے۔""ابو، مجھے معاف کر دیں۔ میں نے آپ کی بات نہ مانی۔ جن لوگوں کو اپنا سمجھا، وہ تو خود کو بھی نہ سمجھے۔ یہ عورتیں محبت کی نہیں، مال و دولت کی پجاری تھیں۔ انہیں رشتے توڑنے میں لطف آتا ہے، اور بس اپنا فائدہ عزیز ہوتا ہے۔"امی کی آنکھوں سے بے آواز آنسو گرنے لگے۔ وہ آنسو شکوے کے نہ تھے، بلکہ ایک ماں کی دعا جیسے بن گئے تھے۔زاہد نے ابو کے ہاتھ تھام لیے، "میں اپنی بیوی کو اُس دن کے وعدے پر لایا تھا کہ یہ میری زندگی کا سکون بنے گی۔ لیکن وہ تو میری بہنوں کے لیے مصیبت بنی۔ میری آنکھیں بند تھیں، مگر آپ کی باتیں آج سب دکھا گئیں۔"ابو نے اپنے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ ہاتھ شفقت کا تھا، لیکن اس کے نیچے برسوں کی تربیت، محبت اور دکھ چھپا تھا۔"بیٹا..." ابو کی آواز میں وہی پختگی تھی جو ہمیشہ سے زاہد کو سنبھالتی آئی تھی، "انسان گرتا ہے، مگر اگر گر کے سیکھ جائے تو وہی اس کی جیت ہے۔ تم نے سیکھ لیا، یہی سب سے بڑی بات ہے۔"امی نے دھیرے سے تسبیح دانوں کو پھر حرکت دی، "دعا ہے بیٹا، اب جو قدم اٹھاؤ، وہ سوچ کر اٹھاؤ۔ اور یہ مت بھولو، جب اولاد اپنی خوشیوں کو والدین کی قربانیوں پر قربان کرے، تبھی برکت آتی ہے۔"زاہد خاموش ہو گیا، مگر اُس کی آنکھوں میں ایک عہد روشن ہو چکا تھا—اب جو رشتہ بنے گا، وہ والدین کی رضا سے بنے گا۔ اب جو فیصلہ ہو گا، وہ صرف دل نہیں، عقل سے بھی ہو گا۔یہ لمحہ زاہد کے لیے ایک انجام نہیں، ایک آغاز تھا—ایک نئے، سچے اور بابرکت سفر کا آغاز۔—------------------------------------------شام کے سائے تیزی سے پھیل رہے تھے۔ بازار سے واپسی پر سارہ اور شائستہ ایک پرانے سے رکشے میں بیٹھی تھیں۔ دونوں کا انداز اب بھی وہی تھا—اعتماد سے بھرپور، جیسے زندگی کی کوئی پروا نہ ہو۔ سارہ راستے بھر شائستہ کو اپنی کسی نئی سازش کے بارے میں بتا رہی تھی اور شائستہ کسی نئی منصوبہ بندی میں محو تھی۔رکشہ ہلکی رفتار سے چل رہا تھا، لیکن اچانک ایک تیز رفتار وین نے موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آ کر زور دار ٹکر مار دی۔ لمحوں میں سب کچھ بدل گیا۔ رکشہ ایک طرف کو الٹ گیا۔ شائستہ کی چیخ سنائی دی، پھر سارہ کی دبی ہوئی کراہ۔لوگ دوڑ کر آئے۔ خون، گرد، ٹوٹے شیشے اور سناٹا… دونوں عورتیں بے ہوش تھیں۔ ایمبولینس کو اطلاع دی گئی، اور دونوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا گیا۔شائستہ کو ہوش آیا تو وہ بائیں بازو پر پٹی دیکھ کر گھبرا گئی۔ معمولی چوٹ تھی، لیکن چہرے پر خوف اور حیرت تھی۔ وہ سیدھا اٹھ بیٹھی۔"سارہ کہاں ہے؟"نرس نے نظریں چرائیں، "آئی سی یو میں ہے۔"شائستہ کی آنکھوں میں اب الجھن تھی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ کچھ غلط ہوا ہے، بہت غلط۔چند گھنٹوں بعد ڈاکٹر باہر آیا۔ چہرہ گمبھیر، آواز میں افسوس۔"سارہ کی کمر میں شدید چوٹ آئی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی ہے۔ وہ شاید عمر بھر کے لیے چلنے سے معذور ہو گئی ہے۔"لفظ جیسے کانوں میں سیسہ بن کر بہنے لگے۔ شائستہ بے یقینی سے ڈاکٹر کو دیکھتی رہی۔ ۔ اس کے دل میں کچھ ٹوٹ گیا—نہ خوشی، نہ انتقام... صرف خاموشی۔شائستہ نے آنکھیں بند کر کے سر کرسی کی پشت سے ٹکا دیا۔ سارہ... وہ جو ہر چال میں اس کے ساتھ تھی... آج زندگی نے وہ چال چلی تھی جس کا وار سب سے گہرا تھا۔اسپتال کی راہداری میں ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی تھی۔ جیسے وقت رک گیا ہو۔ جیسے یہ انجام ان دونوں کے عمل کا عکس ہو—کچھ دکھ، کچھ سبق، اور کچھ ایسا جو شاید اب بہت دیر سے سمجھ آیا ہو۔صوبائی اسپتال کے کمرے میں خاموشی تھی، صرف دل کی دھڑکن کی آواز اور آکسیجن مشین کی مدھم گونج سنائی دے رہی تھی۔ سارہ اب ہوش میں تھی، مگر وہ ہوش جس میں انسان صرف سانس لیتا ہے، جیتا نہیں۔چند دن گزر چکے تھے حادثے کو۔ ڈاکٹروں نے مکمل وضاحت سے کہہ دیا تھا کہ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ اتنی شدید ہے کہ اب وہ کبھی دوبارہ چل نہیں سکے گی۔ وہ بات، جو پہلے شائستہ اور اس کی ماں نے "ڈاکٹری قیاس" سمجھ کر نظر انداز کی، اب حقیقت بن چکی تھی۔شائستہ ایک کرسی پر بیٹھی ناخن تراش رہی تھی۔ اس کے چہرے پر وہی بدلا ہوا، مصنوعی ضبط تھا جو صرف وقتی ندامت کی پیداوار ہو۔ سارہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی، جیسے ہر زاویے سے اس کے وجود کو پرکھنا چاہتی ہو۔ ماں پانی کا گلاس ہاتھ میں لیے کسی اخبار کی سرخی پر سر ہلا رہی تھی۔"امی..." سارہ کی آواز بہت دھیمی تھی۔"جی بیٹا؟" ماں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔"یہ جو کچھ ہوا... کیا یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟" اس نے آہستہ سے پوچھا، آنکھیں چھت کی طرف جمائے۔شائستہ نے قہقہہ لگایا، ایک ایسا قہقہہ جس میں بےحسی کی دھن تھی۔ "اففوہ سارہ، یہ تم نے کیا بات پکڑ لی؟ حادثہ تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کیا مکافاتِ عمل کی باتیں شروع کر دی؟ ہم نے کون سا ظلم کیا ہے؟"سارہ نے نظریں اس کی طرف موڑیں، نم آنکھوں میں بےیقینی اور دکھ تھا۔ "تمہیں لگتا ہے ہم نے کسی کے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا؟"شائستہ نے کندھے اچکائے۔ "دیکھو، دنیا میں سب اپنے فائدے کے لیے جیتے ہیں۔ اگر ہم نے تھوڑا بہت کسی کا راستہ روکا بھی، تو کیا؟ ہر کوئی تو ایسا ہی کرتا ہے۔ اور ویسے بھی، تم زیادہ سنجیدہ مت ہو۔ چند مہینے میں فزیو تھراپی سے تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔"ماں نے بھی تائید میں سر ہلایا۔ "ہاں بیٹا، یہ سب اتفاق ہے۔ اور یہ مکافات وغیرہ سب پرانی عورتوں کی باتیں ہیں۔ اللہ اچھا کرے گا۔"سارہ نے آنکھیں موند لیں۔ اب وہ کسی دلیل میں نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ جان چکی تھی… وہ پہچان چکی تھی… کہ بدی صرف عمل میں نہیں، نیت میں بھی پنپتی ہے۔ اور جب انسان اپنے ہر غلط عمل کو درست ثابت کرنا شروع کر دے—تو وہاں تباہی آہستہ آہستہ نہیں، بےآواز آتی ہے۔شائستہ اپنی باتوں میں مشغول ہو چکی تھی، آئندہ کے پلان بنا رہی تھی—اور سارہ… اب ان سب منصوبوں سے دور تھی۔ صرف سچ کے قریب۔:سات سال بعد…وقت وہ آئینہ ہے جو سچ دکھاتا ہے — دیر سے، مگر واضح۔شام کی روشنی دھیرے دھیرے صحن پر اتر رہی تھی۔ گھر کی دیواریں جگمگا رہی تھیں، رنگ برنگی لائٹس، بچوں کی ہنسی، اور مہمانوں کے لیے تیاریاں... سب کچھ خوشیوں سے بھرا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اندر سے خوشبوؤں کا جادو باہر تک پھیلا ہوا تھا۔ آج، زاہد کے اکلوتے بیٹے کا سالگرہ کا دن تھا، اور یہ تقریب عینی کے میکے میں رکھی گئی تھی۔عینی ہاتھ میں کپڑے لیے کمرے سے باہر آئی تو اس کے پیچھے دو چھوٹی سی جڑواں بچیاں دوپٹے کے پلو سے لٹک گئیں۔"امی! ہم بھی مدد کریں؟" دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔عینی نے محبت سے جھک کر ان کے ماتھے چومے، "بس دعا کرو کہ سب کچھ وقت پر مکمل ہو جائے۔ تم دونوں کی موجودگی ہی سب سے بڑی مدد ہے۔"اسی لمحے مصطفیٰ، اس کا شوہر، دروازے سے اندر داخل ہوا، ہاتھ میں ایک چھوٹا سا تحفہ تھا اور چہرے پر نرم مسکراہٹ۔"یہ دیکھو، تمہارا بیٹا آج چھے سال کا ہو گیا ہے۔ اب تو بڑے بچوں جیسا تحفہ دینا بنتا تھا نا؟"عینی نے ہنستے ہوئے تحفہ لیا، "وہ تو تمہیں دیکھتے ہی جھپٹ لے گا۔"مصطفیٰ نے آہستہ سے جواب دیا، "وہ مجھ پر نہیں، تم پر گیا ہے... تحمل والا، نرمی والا۔"عینی نے نظریں جھکا لیں۔ وقت نے اسے مضبوط کیا تھا، مگر اس کے اندر کا سکون مصطفیٰ کی محبت سے جڑا تھا۔ وہ زندگی جس نے کبھی اس سے سب کچھ چھینا تھا، آج اسے بہت کچھ واپس دے چکی تھی—بلکہ اس سے بہتر۔صحن میں زاہد کا خاندان بھی آ چکا تھا۔ ان کے ساتھ ایک خاموش، باوقار عورت کھڑی تھی—سادیہ کی نند، جو اب زاہد کی بیوی تھی۔ ان کے چہرے پر سکون تھا، اور ان کے بچوں میں بھی وقار اور محبت دکھائی دیتی تھی۔ زاہد اب پرانی تنگ گلیوں سے نکل کر بڑے گھر میں آ چکا تھا، زندگی نے اُسے ٹھوکر دے کر سمجھا دیا تھا کہ اصل کامیابی سکون میں ہے، فریب میں نہیں۔خاتمے پر پیغامیہ کہانی محض کرداروں کی نہیں تھی، یہ ان سچائیوں کا آئینہ تھی جو ہمارے آس پاس روز بروز جنم لیتی ہیں۔ "عینی" صرف ایک لڑکی نہیں تھی، وہ ان بیٹیوں کی نمائندہ تھی جنہیں خاموشی، صبر، اور کردار کی بلندی کے باوجود صرف اس لیے کمتر سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ خود کو ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو روندتی نہیں۔زاہد، وہ بھائی تھا جس نے وقتی جذبات میں آ کر ماں باپ کی بات نہ مانی، اور پھر پچھتایا۔ اس کی توبہ نے یہ سکھایا کہ ہم جتنی بھی کامیابیاں سمیٹ لیں، اگر وہ اپنے بڑوں کے دل توڑ کر حاصل کی جائیں تو وہ سکون نہیں دیتیں، صرف خالی پن چھوڑتی ہیں۔شائستہ اور سارہ جیسے کردار، معاشرے میں اکثر اپنے فریب کو چالاکی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ، سازش اور حقداروں کا حق مارنا کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن جب وقت کا پہیہ پلٹتا ہے، تو مکافاتِ عمل خاموشی سے آ کر دل و دماغ کو ہلا دیتا ہے — جیسے سارہ کے لیے آیا، اور شائستہ کے لیے ابھی باقی رہا۔مصطفیٰ اور عینی کی محبت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ رشتوں کی خوبصورتی دولت سے نہیں، کردار سے بنتی ہے۔ ایک نرم لہجہ، ایک سچا جذبہ اور باہمی عزت وہ دولت ہے جسے وقت چھین نہیں سکتا۔اس کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ: اللہ دیر کرتا ہے، اندھیر نہیں۔ ہر مظلوم کے لیے انصاف کا وقت ضرور آتا ہے، اور ہر ظالم کے لیے جواب دہی بھی۔ صبر، شکر، اور بڑوں کی رضا… یہی اصل کامیابی کی کنجی ہے۔– اختتام –