Father's whistle in Urdu Motivational Stories by Insha noor books and stories PDF | پاپا کی سیٹی

Featured Books
Categories
Share

پاپا کی سیٹی

پاپا کی سیٹی

یہ کہانی میں نے اُس لمحے شروع کی تھی،

جب ایک ورکشاپ کے باہر ایک لڑکا پرانا بیٹ ہاتھ میں لیے

دیوار پر سایا تلاش کر رہا تھا۔

"پاپا کی سیٹی" صرف ایک کرکٹ کھلاڑی کی واپسی کی کہانی نہیں ہے —

یہ اُن ہزاروں لڑکوں کی خاموش چیخ ہے

جو خواب تو دیکھتے ہیں،

مگر ان کے سر پر کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔

مجھے ہمیشہ لگتا ہے کہ محبت صرف وہ نہیں جو کہہ دی جائے —

اصل محبت وہ ہوتی ہے جو

سیٹی کی آواز میں لپٹی ہو،

کسی بلاگ کی تحریر میں چھپی ہو،

یا اُس لڑکی کی آنکھوں میں ہو

جو تمہیں تم سے بہتر دیکھتی ہے۔

میں نے یہ کہانی اُن والدین کے لیے لکھی ہے

جو بیٹے کی جیت کسی میڈل میں نہیں، اُس کے پسینے میں دیکھتے ہیں۔

اُن لڑکیوں کے لیے

جو کسی کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اُس کے ٹوٹے خوابوں تک واپس لے آتی ہیں۔

اور اُن تمام شکست خوردہ دلوں کے لیے

جنھیں زندگی نے مٹی میں پھینک دیا،

مگر اُنھوں نے وہیں سے پودا اُگا لیا۔

اگر یہ کہانی آپ کو کہیں چھو جائے،

تو یاد رکھیے گا:

کہانیاں بدلتی ہیں،

بس کسی کو سیٹی بجانی ہوتی ہے،

اور کسی کو وہ سننی آتی ہے۔

محبت،

انشا نور

پاپا کی سیٹی

قسط 1 — سیٹی کا شور اور خوابوں کا شور

"امی... بس آج کا میچ کھیلنے دیں، پلیز!"

آیان ہاتھ میں بیٹ لیے، دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا تھا۔ دائیں گال پر چھوٹا سا زخم تھا — شاید کل کی سلائیڈنگ کا نشان۔

"پلیز؟"

امی نے اسے گھور کر دیکھا، آٹے والے ہاتھوں سے دوپٹہ سر پر ٹھیک کیا۔

"پلیز؟ تمہارا پلیز روز نیا ہوتا ہے، آیان! اور تمہاری پڑھائی؟ وہ کبھی پرانی نہیں ہوتی؟"

"امی، یہ پریکٹس میچ ہے۔ اصل والا سلیکشن اگلے ہفتے ہے۔ اور کوچ نے کہا ہے، میری شاٹ میں دم ہے۔"

امی نے آٹا چھوڑ کر تھالی میں ہاتھ دھوئے، اور سیدھی اُس کی طرف آئیں۔

"تمہارے دم میں دم ہو گا بیٹا، مگر دماغ میں نہیں۔"

انہوں نے اُس کے گال پر ہلکی سی چپت ماری۔

"سارا دن گلیوں میں دوڑنا، نہ کتاب، نہ قلم۔ 10th کے رزلٹ کو تین ہفتے ہو گئے، تم نے رجسٹریشن فارم تک نہیں بھرا!"

"امی، میں تو کرکٹر بنوں گا... مجھے میٹرک کی کیا ضرورت؟"

امی کا دل جیسے رک سا گیا۔

"کرکٹر؟ تم؟ آیان، کرکٹ خواب ہے، زندگی نہیں۔ اور خواب دیکھنے سے پہلے جاگنا سیکھو۔"

آیان کا چہرہ لٹک گیا۔

"بس! آپ لوگ سمجھتے ہی نہیں ہو۔"

"اور تم سمجھنا چاہتے ہی نہیں ہو۔"

اندر سے پاپا کی سیٹی کی آواز آئی۔ وہی مخصوص، تیز، ایک بار — بلانے کا انداز۔

آیان نے گردن موڑی، اور آہستہ کہا:

"وہ دیکھیں، میرے حق میں سیٹی بھی آ گئی ہے۔"

امی نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ دروازہ کھولا۔

"سیٹی نہیں بجی، الارم بجا ہے... خطرے کا۔ اب دوڑو، پاپا تمہیں کھینچ کے لے آئیں گے!"

امی نے دروازے کی طرف دیکھا، اور پھر آیان کی طرف۔

"اب آ گیا نا سپاہی کا بلاوا؟"

"امی بس ایک بار... آپ ہی کہہ دیں نا پاپا کو۔"

"میں؟ مجھے خود اُن سے ڈر لگتا ہے کبھی کبھار۔"

امی نے کڑوی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، اور پھر سر ہلاتے ہوئے بولیں،

"چلو، جلدی۔ اچھا بچہ بنو... جیسے ہر بار بنتے ہو۔"

---

اندر داخل ہوتے ہی، آیان نے چہرے پر وہی معصوم سا ماسک پہن لیا تھا — جو ہر بچے کے پاس ہوتا ہے جب وہ کسی طاقتور سے بچنا چاہتا ہو۔

پاپا اخبار میں چہرہ چھپائے بیٹھے تھے، سیٹی میز پر رکھی تھی۔

"آیان، بیٹھو!"

پاپا کی آواز میں گونج تھی۔ وہ نہ اونچی تھی، نہ نرم۔ بس... فیصلہ سناتی ہوئی۔

آیان فوراً سیدھا ہو کر صوفے پر بیٹھ گیا، جیسے اسکول کے پرنسپل کے سامنے کھڑا ہو۔

"کیا بات ہے؟ پھر گلی میں شور مچایا تم نے؟"

"نہیں پاپا، ہرگز نہیں! بلکہ دوستوں کو خود روکا تھا۔"

"ہوں..."

پاپا نے ایک نظر اوپر اٹھائی، اور پھر اخبار دوبارہ پھیلا لی۔

"کل کس مضمون میں کم نمبر آئے تھے؟"

"میٹھ... میتھ... بس تھوڑا سا کم ہوا، 40 آئے تھے۔"

"پورے 75 میں سے 40 تھوڑے ہوتے ہیں؟"

"جی، اگلی بار بہتر ہو جائے گا۔"

پاپا نے ہلکا سا سر ہلایا۔

"اچھا... اب کیا مانگنے آئے ہو؟"

آیان نے ایک سیکنڈ کے لیے اپنی گردن امی کی طرف گھمائی — وہ کچن کے دروازے پر کھڑی تھیں، ہاتھ میں پتیلی، اور آنکھوں میں وہی پرانی التجا۔

"امی... پلیز..." آیان نے آنکھوں سے کہا۔

امی نے ہلکی سی سانس لی۔ "وہ... پریکٹس میچ ہے آج۔ کوچ نے بلایا ہے، شام تک واپس آ جائے گا۔"

پاپا نے بغیر تاثر کے اخبار نیچے رکھا، اور آیان کی طرف دیکھا۔

"اور تمہیں لگتا ہے کہ کرکٹ تمہیں آگے لے جائے گی؟"

آیان نے سر ہلایا، دھیرے سے مسکرا کر:

"جی پاپا، انشاء اللہ۔ اگر آپ اجازت دیں تو۔"

پاپا نے خاموشی سے سیٹی اٹھائی، اور اسے دوبارہ جیب میں ڈال لیا۔

"جاؤ۔ لیکن وعدہ کرو، ہفتے میں تین دن صرف پڑھائی۔"

"جی پاپا، وعدہ! دو نہیں، تین دن!"

(دل میں: بس آج کی چھٹی مل گئی، خدا کا شکر ہے۔)

پاپا نے ایک گہری نظر ڈالی، پھر آنکھیں بند کر لیں۔

امی نے مسکرا کر سر ہلایا، جیسے دل ہی دل میں کہہ رہی ہوں:

"یہی بچے ہوتے ہیں... پہلے ڈرتے ہیں، پھر جیت جاتے ہیں۔"

—--------------------------------------

قسط 2 — وہ جو ہوا میں اُڑتا تھا

میدان دھوپ سے چمک رہا تھا، جیسے سورج نے کسی خاص دن کے لیے روشنی تھوڑی اور بڑھا دی ہو۔ آیان جب گراؤنڈ کے اندر داخل ہوا تو اس کے قدموں میں ایک نرمی تھی، مگر رفتار میں وہی شرارتی سا اعتماد۔ پاؤں میں پرانی اسپائکس، جو پچھلے سال والے اسکول ٹورنامنٹ میں ٹوٹی تھیں، مگر آیان نے خود انہیں ٹھیک کیا تھا — جیسے کوئی بچہ اپنے کھلونے کو جوڑ کر دوبارہ قابلِ فخر بناتا ہے۔

اس کی قمیض تھوڑی بڑی تھی، شلوار تنگ، اور بال بےترتیب — لیکن جو چیز سب سے واضح تھی، وہ اس کی آنکھوں میں وہ چمک تھی جو صرف اُن بچوں میں ہوتی ہے جنہیں خواب دیکھنے کے لیے اجازت نہیں ملی، مگر وہ چپکے سے دیکھ بھی لیتے ہیں، اور چھپ کر جی بھی لیتے ہیں۔

“آیان! اوپنر تم ہو آج!” کوچ نے دور سے آواز لگائی۔

اس نے بیٹ کندھے پر رکھا اور سر ہلاتے ہوئے میدان کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے قدموں میں اب تیزی تھی، جیسے کسی اور دنیا کی طرف جا رہا ہو — ایک ایسی دنیا، جہاں نہ پاپا کی سیٹی تھی، نہ اسکول کی مارکس شیٹ، اور نہ امی کے طعنے۔ بس وہ، اور اس کا بیٹ، اور ایک خواب جو نہ سنجیدہ تھا، نہ مکمل — صرف جیتنے کی خواہش جیسا۔

پہلی گیند پھینکی گئی۔ فاسٹ بال تھی، رفتار ایسی جیسے سامنے والا اپنے غصے کو گیند میں لپیٹ کر پھینک رہا ہو۔ آیان نے ایک پل کو سانس روکی، پھر بیٹ گھمایا — اور گیند ہوا میں بلند ہوتی ہوئی اسکور بورڈ کے پیچھے جا گری۔ چھکا۔ سناٹا پہلے، شور بعد میں۔

گراؤنڈ میں بیٹھے لڑکوں میں سے کسی نے کہا، “اوئے آیان! تم تو اصلی والا بابر لگ رہا ہے یار!”

اس نے بیٹ آسمان کی طرف اٹھایا اور ہلکی سی جھک کر سجدے جیسا اشارہ کیا، جیسے کسی کا شکریہ ادا کر رہا ہو — شاید کوچ کا، شاید پاپا کا... یا شاید بس خود سے، اُس اندرونی آواز کا جو ہر بار اسے کہتی تھی: "تو کچھ بن سکتا ہے، اگر دنیا مانے یا نہ مانے۔"

اگلی گیند پر اُس کا شاٹ اسٹائلش نہیں تھا، مگر مؤثر تھا۔ کوئی ٹکنیکل پروفیشنل اسے دیکھتا تو شاید انگلی اٹھا کر تبصرہ کرتا، مگر کوچ نے محض سر ہلا کر کہا، “یہ لڑکا جذبے سے کھیلتا ہے۔”

آیان کی شاٹس میں خامی بھی تھی، لیکن یقین کامل بھی۔ اُس نے گیند کو زمین پر دوڑایا، ہوا میں اُڑایا، کبھی زور سے، کبھی نرمی سے۔ اور ہر بار، جب گیند باؤنڈری کے پار جاتی، اُس کی آنکھوں میں ایک نئی روشنی جگمگا اُٹھتی۔

پانی کا وقفہ ہوا تو کوچ نے دور سے بوتل اچھالی، آیان نے کیچ کیا — بغیر نیچے دیکھے۔

“اگر اسی جذبے سے پڑھائی بھی کرے تو شاید پاپا کی سیٹی تیرے لیے الارم نہ رہے، میوزک بن جائے!” کوچ نے ہنستے ہوئے کہا۔

آیان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، لیکن اندر کہیں کوئی سیٹی واقعی بجی تھی — دھیمی، مدھم، جیسے ذہن کے کسی کونے سے پاپا نے یاد دلایا ہو کہ “وقت ختم ہو رہا ہے۔”

مگر وہ لمحہ، وہ میدان، وہ گیند — آیان کے لیے سب کچھ تھے۔ وہ جانتا تھا، اس کے خواب بہت بڑے تھے اور وسائل بہت چھوٹے، لیکن جب وہ کھیلتا تھا، تو جیسے وہ سب فرق مٹ جاتے تھے۔ میدان میں وہ صرف ایک لڑکا نہیں تھا، وہ ہوا میں اُڑتا ہوا پرندہ تھا — جسے کسی نے پنجروں میں بند رکھنے کی کوشش کی، مگر وہ اُڑنا سیکھ گیا۔

—----------------------------

قسط 3 — سیٹی بجی، مگر آواز نہ آئی

دروازہ کھلا تو مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ آیان کی شرٹ پسینے سے بھیگی ہوئی تھی، بالوں میں مٹی تھی، اور چہرے پر ایک تھکن آمیز فتح۔ وہ اندر داخل ہوا، جوتے دروازے کے ساتھ رکھے، اور آہستہ قدموں سے صحن عبور کیا جیسے فرش پر کوئی خفیہ پیغام لکھا ہو جو وہ پڑھنا نہیں، چپ چاپ گزرنا چاہتا ہو۔

کچن سے ہنڈیا کی مہک آ رہی تھی — امی کھانا بنا رہی تھیں، چولہا ہلکی آواز سے جل رہا تھا۔ مگر وہیں ساتھ، بیٹھک میں، پاپا کی موجودگی کا احساس تھا۔ جیسے دیوار کے پیچھے کوئی بہت بڑا پتھر ہو، جو نظر نہیں آتا مگر وزن محسوس ہوتا ہے۔

“آ گئے ہو؟”

پاپا کی آواز آئی — سادہ، سپاٹ، بغیر تاثر کے۔

آیان رک گیا۔ سانس روکی، پھر ہلکے قدموں سے اندر داخل ہوا۔

پاپا میز کے ساتھ بیٹھے تھے، اُن کے سامنے اخبار تہہ کیا ہوا پڑا تھا، اور سیٹی میز پر۔ وہی سیٹی جو آیان کے بچپن سے اب تک اُس کی زندگی کی گھڑی تھی — جس کی آواز سنتے ہی وہ جیسے خود کو روک لیتا، خواہ میدان ہو یا خواب۔

“کیا وقت ہوا ہے؟”

پاپا نے آنکھیں اٹھا کر نہیں دیکھا۔ بس سوال پھینکا — جیسے کوئی معمول کا پرچہ ہو۔

“چھ بجنے والے ہیں۔” آیان نے آہستہ سے کہا، اور اپنی نظریں سیٹی سے ہٹائیں۔

پاپا نے خاموشی سے سیٹی کو ہاتھ میں اٹھایا، گھمایا، پھر اسے دوبارہ میز پر رکھ دیا۔

“تمہارا کھیل اچھا ہے؟”

اب کی بار آواز میں کچھ تھا — شاید تجسس، شاید طنز، یا شاید صرف ایک باپ کی ہار مانتی ہوئی امید۔

آیان نے سر ہلایا۔ “جی، کوچ نے کہا کہ میں باقیوں سے بہتر ہوں۔”

“اور باقیوں کی پڑھائی؟ تم سے بہتر ہے؟”

پاپا کی نظریں اب اس کے چہرے پر تھیں — سیدھی، خالی، جیسے اس میں کچھ پڑھنا چاہتے ہوں۔

آیان کے پاس جواب نہیں تھا۔ اس نے صرف نیچے دیکھا، اور سر ہلایا — وہی بےبس ہلانا جو بچے تب کرتے ہیں جب دل میں بغاوت ہو، مگر آنکھوں میں ڈر بھی۔

پاپا نے کرسی سے ٹیک لی۔ “کل تمہارے ماموں آ رہے ہیں۔ وہ تمہیں کسی ورکشاپ میں رکھوانا چاہتے ہیں۔ کہہ رہے تھے، ہاتھ کا ہنر سیکھ لو۔ پڑھائی میں تو دل نہیں لگتا، کھیل سے گھر نہیں چلتا۔”

آیان نے پل بھر کو سب کچھ سنا، جیسے کسی اور کی زندگی کی خبر ہو۔

“میں کرکٹ چھوڑ دوں؟”

یہ سوال اس نے اتنی دھیمی آواز میں کیا کہ شاید پاپا بھی نہ سن پاتے، مگر سن لیا۔

پاپا نے نظریں ہٹائیں، اخبار کھولا، اور کہا:

“فیصلہ تمہارا ہے۔ خواب سب دیکھتے ہیں، لیکن کچھ لوگ خوابوں میں گھر بناتے ہیں، اور کچھ… خواب بیچ کر گھر چلاتے ہیں۔”

امی کچن سے آئی تھیں، ہاتھ میں تھالی تھی۔ انہوں نے آیان کی طرف دیکھا — اور وہ ماں تھی، وہ جان گئی تھی کہ اُس کے بیٹے کی آنکھوں میں خواب ابھی زندہ تھے، لیکن اُن کی سانسیں رک گئی تھیں۔

“کھانا لگاؤں؟” انہوں نے نرم لہجے میں پوچھا۔

آیان نے سر ہلایا، لیکن اندر کچھ ٹوٹ رہا تھا — یا شاید بن رہا تھا، وہ خود نہیں جانتا تھا۔

مگر اُس رات، سونے سے پہلے، اس نے پہلی بار سیٹی کو چھوا — چپکے سے، اور بڑی محبت سے۔

پہلے وہ سیٹی صرف ڈراتی تھی…

اب وہ یاد دلا رہی تھی — کہ کچھ خواب سیٹی کی آواز سے نہیں جاگتے، بلکہ اُسی آواز سے بچ بچا کر پورے ہوتے ہیں۔

—---------------------------

قسط 4 — دھوئیں میں لپٹے خواب

صبح دھندلی تھی۔ سورج نے ابھی مکمل اجالا نہیں بکھیرا تھا، جیسے اُسے بھی یقین نہ ہو کہ آج کا دن واقعی شروع ہونا چاہیے یا نہیں۔

آیان سیڑھیوں سے نیچے اترا تو امی چولہے کے پاس بیٹھی تھیں۔ اُنہوں نے ایک پرانا تَوَہ گرم کر رکھا تھا، اور ہاتھوں میں پراٹھے کی گولیاں بناتے ہوئے بار بار دروازے کی طرف دیکھتی جاتی تھیں — جیسے وقت کو روکنا چاہتی ہوں۔

پاپا باہر کھڑے تھے، موٹر سائیکل تیار، آئینے کو ایک خاص انداز میں صاف کرتے جا رہے تھے — جیسے اس میں آج کچھ نیا دیکھنے کی کوشش ہو۔

آیان دھیرے دھیرے دروازے کی طرف بڑھا۔ اُس کی شرٹ استری شدہ تھی، بال سلیقے سے جمے ہوئے، اور جوتے پچھلے سال عید والے تھے، جو اب تھوڑے چھوٹے ہو گئے تھے — جیسے خواب جو وقت سے پہلے بڑے ہو جائیں۔

امی نے پراٹھا پلیٹ میں رکھ کر اس کی طرف بڑھایا، “کچھ کھا لو، خالی پیٹ مت جانا۔”

“دل نہیں ہے،” آیان نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔

“پھر بھی۔ جب انسان وہ کرے جو دل نہیں چاہتا، تو معدہ ہی اس کا دوست بنتا ہے۔”

امی کی آنکھوں میں کچھ تھا — ماں کا سا کچھ، اور دوست کا سا سب کچھ۔

---

پاپا نے پیچھے مڑ کر موٹر سائیکل اسٹارٹ کی، اور سیدھی سی بات کہی،

“جلدی بیٹھو، لیٹ ہوئے تو تمہارے ماموں پھر بات سنائیں گے۔”

آیان نے ایک لمحہ امی کی طرف دیکھا، پھر سر جھکا کر بیگ کاندھے پر ڈالا، اور خاموشی سے موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا۔

راستے میں دونوں خاموش رہے۔

موٹر سائیکل کی گڑگڑاہٹ کے سوا کچھ بھی واضح نہ تھا — نہ دل کی باتیں، نہ ذہن کے سوال۔

سڑک کے کنارے لوگ دوکانیں کھول رہے تھے، کچھ بچے اسکول جا رہے تھے، کچھ مزدور کاندھے پر اوزار لادے وقت سے پہلے بڑے ہو چکے تھے۔

اور آیان اُن سب کے بیچ، ایک ایسا لڑکا تھا جو اندر سے صرف ایک بیٹ تھامے بیٹھا تھا — لیکن باہر سے اسے رینچ تھمایا جا رہا تھا۔

---

ماموں کی ورکشاپ پر پہنچ کر پاپا نے گاڑی روکی۔

“جاؤ، ماموں انتظار کر رہے ہیں۔”

آیان نے موٹر سائیکل سے اتر کر ارد گرد دیکھا۔ دھوئیں، شور، لوہے کی بو، جلی ہوئی چکنائی، گریس سے سیاہ ہوئے در و دیوار — یہ وہ میدان نہ تھا جہاں وہ اڑتا تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں خواب رینگتے تھے۔

ماموں نے گرمجوشی سے ہاتھ تھاما، “شاباش میرے شیر! آج سے تم ہنر مند بنو گے، کرکٹر نہیں، کاریگر!”

آیان نے مسکرا کر سر ہلایا۔ صرف مسکرا کر۔

پھر شام تک وہیں رہا۔ پیچ کس، رینچ، گریس، شور… اور درمیان میں دو تین بار ایسا لمحہ آیا جب وہ اچانک کسی شور میں اپنے کوچ کی آواز سننے لگا،

“اُوئے آیان، اگلا میچ فائنل ہے — تیار ہو نا؟”

مگر پھر کسی لوہے کے گرنے کی آواز نے اُس خواب کو توڑ دیا۔

---

شام کو واپسی پر پاپا کچھ زیادہ باتونی ہو گئے تھے،

“کام میں محنت ہو تو رزق میں برکت ہوتی ہے۔”

“محنتی ہاتھ کبھی خالی نہیں رہتے۔”

آیان سنتا رہا، ہاں میں ہاں ملاتا رہا، اور بس یہی سوچتا رہا کہ...

“میرے ہاتھ محنتی ضرور ہو جائیں گے، لیکن کیا میرے دل کے خواب بھی مشینی ہو جائیں گے؟”

رات کو جب سب سو گئے، وہ چپکے سے اٹھا۔ اپنے بیگ میں رکھا بیٹ نکالا، اور آنگن میں بیٹھ گیا۔

سیٹی کی آواز آج نہیں آئی تھی، لیکن شاید وہ خود ہی سننا نہیں چاہتا تھا۔

یا شاید آج اس کی خاموشی ہی سیٹی تھی —

اندر بجتی ہوئی، صرف آیان کے لیے۔

—--------------------------------

قسط 5 — دل کے دونوں دروازے

رات شاید گزر چکی تھی، لیکن آیان کے لیے وقت جیسے رُک گیا تھا۔

ورکشاپ سے آنے کے بعد وہ نہ کچھ کھا سکا، نہ سو سکا۔ امی نے تین بار پوچھا، "طبیعت ٹھیک ہے نا؟"

اور تینوں بار اُس نے وہی جھوٹا سا جواب دیا:

"جی امی، تھکن ہے بس۔"

لیکن تھکن جسم کی نہیں تھی۔

یہ وہ تھکن تھی جو تب ہوتی ہے جب دل کو قائل کرنا پڑے کہ خواب اب نصیب کا حصہ نہیں رہے۔

وہ کمرے میں دیر تک لیٹا رہا۔ پھر اُٹھا، اور آہستہ سے صحن میں آیا۔ دروازے کی کنڈی کھولی، پاپا باہر چھت پر تھے — خاموش، تنہا، اور شاید وہی کچھ سوچتے ہوئے جو آیان کئی دنوں سے سوچ رہا تھا۔

آیان نے لمبا سانس لیا۔ ایک پل آنکھیں بند کیں، جیسے دل کو ہمت دی ہو۔

"پاپا..."

آواز دبلی، نرم، اور کچھ خالی سی تھی۔

پاپا نے گردن موڑی۔ وہ اندھیرے میں بیٹھے تھے، روشنی صرف چاند کی تھی — جو دونوں کے چہروں پر آدھی آدھی پڑ رہی تھی، جیسے قدرت بھی ان کے بیچ انصاف کرنا چاہتی ہو۔

"ہاں؟"

آیان چند قدم آگے آیا۔ "ایک بات کرنی ہے۔"

پاپا نے خاموشی سے سنا۔ کوئی تاثر نہیں، کوئی اشارہ نہیں۔

"میں ورکشاپ کا کام کرتا رہوں گا پاپا۔ مجھے اعتراض نہیں۔"

ایک لمحے کی خاموشی۔

"لیکن میں... میں کرکٹ بھی جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ صرف تھوڑا سا۔ شام کو... جب کام ختم ہو جائے۔"

یہ "تھوڑا سا" لفظ اُس کی زبان سے ایسے نکلا جیسے کسی نے دل چیر کے نکالا ہو۔

پاپا خاموش رہے۔ آیان کی آواز ہلکی کانپ رہی تھی، لیکن وہ کھڑا رہا — جیسے خود کو گرنے سے روکنے کی آخری کوشش ہو۔

"میں جانتا ہوں کہ ہم امیر نہیں ہیں۔"

اب کی بار اُس کی آواز میں آنسو تھے — نہیں، شاید وہ آنکھوں میں تھے، آواز میں صرف نمی تھی۔

"ہمارے پاس بڑے خواب دیکھنے کی اجازت نہیں ہے، میں جانتا ہوں۔

مگر پاپا...

اگر کوئی خواب صرف وقت مانگے، پیسے نہیں...

تو کیا وہ بھی مہنگا ہوتا ہے؟"

پاپا نے آہستہ سے آنکھیں بند کیں۔ وہ لمحہ طویل ہو گیا۔

پھر وہ بولے — دھیرے سے، جیسے خود سے کہہ رہے ہوں، آیان سے نہیں:

"تمہاری ماں روز آدھی روٹی بچا کر رکھتی ہے، یہ کہہ کر کہ آیان بھوکا آتا ہے۔

میں نے کبھی اسے نہیں روکا۔

لیکن بیٹا... زندگی کبھی سیٹی کی آواز سے نہیں بدلی۔

زندگی وہ ہوتی ہے جو سیٹی بجنے سے پہلے واپس آ جائے۔"

آیان خاموش رہا۔ اُس نے گردن جھکائی، مگر نظریں جھکنے نہیں دیں۔

پاپا نے اس کی طرف دیکھا، اور وہ نظروں کا لمحہ... جیسے دونوں کچھ کہہ رہے تھے، بغیر الفاظ کے۔

پھر اچانک پاپا نے سر ہلایا۔

"ٹھیک ہے۔ شام کو کھیل سکتے ہو۔

لیکن ایک شرط ہے — جب کام ختم ہو، اور تھکن برداشت کر سکو۔

ورنہ چھوڑ دینا... جیسے سب چھوڑ دیتے ہیں۔"

آیان کے ہونٹ ہلے، شاید شکریہ کہنا چاہا، مگر آواز نہیں نکلی۔

وہ صرف پلٹا، اور تیزی سے اندر چلا گیا — کہیں ایسا نہ ہو کہ آنسو پاپا کو نظر آ جائیں۔

پاپا نے دوبارہ آنکھیں آسمان کی طرف کیں۔

چاند اب تھوڑا سا صاف ہو گیا تھا — جیسے کچھ بادل ہٹ گئے ہوں۔

انہوں نے جیب سے سیٹی نکالی، اسے ہتھیلی میں رکھا...

پھر پہلی بار اُس پر مسکرا کر دیکھا —

"اگر تُو تھک جائے گا نا آیان...

تو یہ سیٹی تجھے واپس بُلا لے گی۔"

—-----------------------------

قسط 6 — موقع یا مجبوری؟

وہ بدھ کی شام تھی، جب آیان ورکشاپ سے نکلا تو اُس کے ہاتھ کالے، کپڑے چکنائی سے بھرے ہوئے، اور بازو میں درد تھا۔ ماموں نے جاتے جاتے کہا،

"شاباش، آج تیل بھی خود بدلا، ٹائر بھی خود لگایا... چل اب مرد بن رہا ہے تو کھیل کود چھوڑ، یہ ہنر کام آئے گا۔"

آیان نے کچھ نہیں کہا۔ صرف سر ہلایا اور بیگ اٹھا کر سیدھا کوچ کی طرف بھاگا۔

گراؤنڈ پر پہنچتے ہی اُس کی سانس پھول رہی تھی، جوتوں کے تسمے ڈھیلے تھے، اور دل بس یہی کہہ رہا تھا:

"بس تھوڑا اور… تھوڑا اور… شاید آج بھی کچھ سیکھ لوں۔"

کوچ نے اُسے دیکھا تو بھنویں چڑھ گئیں،

"یہ کیا حالت ہے آیان؟ ہاتھ دیکھے ہیں؟ جسم میں جان ہے بھی یا نہیں؟"

آیان نے ہنستے ہوئے سر جھٹکا، "کھیلے بغیر جان نہیں آتی سر۔"

کوچ نے کچھ نہ کہا، بس ہاتھ کے اشارے سے نیٹ کی طرف بھیج دیا۔

وہ دوڑا… گیند آئی… اس نے بیٹ گھمایا، لیکن اس بار شاٹ وہ نہیں تھی۔

وہ شاٹ جس پر دوست تالیاں بجاتے تھے،

جس پر کوچ سر ہلاتا تھا،

جس پر وہ خود آسمان کی طرف دیکھتا تھا…

وہ شاٹ، جیسے اُس کے جسم نے چھوڑ دی ہو۔

گیند سیدھی وکٹ سے جا لگی۔

پہلا آؤٹ۔

دوسری بار، وہی…

تھکاوٹ اُس کے کندھوں میں تھی، اور خواہش اُس کے بازوؤں میں۔

مگر دونوں کا آپس میں سمجھوتا نہیں ہو رہا تھا۔

کوچ خاموشی سے دیکھ رہا تھا، لیکن آیان کی آنکھوں میں کچھ اور تھا —

نہ مایوسی، نہ غصہ، بلکہ صرف ایک ہار… جو اُس نے خود کو دینی شروع کر دی تھی۔

پریکٹس ختم ہوئی تو کوچ نے اُسے بلایا،

"بیٹھو، بات کرنی ہے۔"

آیان خاموشی سے زمین پر بیٹھ گیا۔ ہاتھ گندے تھے، چہرہ مٹی سے اَٹا ہوا۔

"اگلے ہفتے لاہور سے ٹیلنٹ اسکاؤٹس آ رہے ہیں۔ انڈر 17 ٹیم کے لیے لڑکے چُننے ہیں۔"

آیان نے چونک کر دیکھا۔ جیسے کسی نے دل کی دھڑکن روک دی ہو۔

"سلیکشن میں تمہارا نام دے سکتا ہوں… اگر تم واقعی سنجیدہ ہو۔ لیکن آیان، یہ ٹائم تمہارے بس کا نہیں۔"

"کیوں سر؟"

"کیونکہ ٹیلنٹ بہت ہے تم میں۔ لیکن جسم جواب دے رہا ہے۔ تم تھک چکے ہو، نظر آ رہا ہے۔"

آیان کچھ کہہ نہ سکا۔ زمین پر انگلی سے دائرہ بناتا رہا۔

پھر آہستہ سے بولا، "سر، میں موقع ضائع نہیں کر سکتا۔ یہ میری آخری امید ہے۔"

"امید تب تک زندہ رہتی ہے، جب تک سانس ساتھ دے آیان۔ خواب دیکھنے سے پہلے خود کو زندہ رکھنا سیکھو۔"

آیان نے سر جھکا لیا۔

اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ دو دنیاؤں میں بٹا ہوا ہے —

ایک وہ جہاں پیسے، پسینہ، ذمہ داری ہے…

اور ایک وہ جہاں صرف بیٹ، گیند، اور آسمان پر چھکوں کی آواز ہے۔

اُس رات، واپس گھر آ کر اُس نے بیٹ نکالا، اور اُسے سیٹی کے برابر رکھ دیا۔

امی نے دیکھا تو پریشان ہوئیں، “آج کیا ہوا؟”

مگر آیان نے کچھ نہیں کہا، صرف اتنا بولا،

"پاپا سے بات کرنی ہے۔ کل… آخری بار۔"

—--------------------------------

قسط 7 — آخری موقع

صبح خاموش تھی، مگر آیان کے دل میں شور بہت تھا۔

وہ چار بجے اٹھ گیا تھا۔ امی کے ہاتھ سے بنی شلوار قمیض پہن کر آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تو خود کو پہچاننے میں دیر لگی۔

بالکل ویسا لگ رہا تھا جیسے وہ کبھی بننا چاہتا تھا — صاف ستھرا، پُرعزم، لیکن اندر کہیں بہت نازک۔

پاپا ناشتہ کر رہے تھے۔ اخروٹ کی لکڑی کی بنی میز پر پراٹھا اور انڈا رکھا تھا، لیکن ان کے چہرے پر وہی پرانی سختی کی تہہ چڑھی ہوئی تھی۔

ایسی تہہ جو برسوں میں بنتی ہے — غربت، محنت اور بند دروازوں سے۔

آیان آہستہ آہستہ اُن کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔

اس نے کچھ نہیں کہا… بس، سیٹی اُن کے سامنے رکھ دی۔

پاپا نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ سیٹی جیسے اُس گھر کی عدالت بن چکی تھی — جس کے بجنے یا نہ بجنے پر فیصلے ہوتے تھے۔

"کیا ہے یہ؟"

پاپا کی آواز میں سردی تھی۔

"اجازت،" آیان نے بس ایک لفظ کہا۔

"آج ٹرائل ہے۔ کوچ نے کہا… یہ آخری موقع ہو سکتا ہے۔"

پاپا نے خاموشی سے پراٹھے کا نوالہ چبایا۔

نہ اثبات، نہ انکار۔ صرف وہی نظر… وہی سخت آنکھیں جو ہر بار آیان کے خوابوں کو ناپ تول کر دیکھتی تھیں۔

امی کچن کے دروازے پر کھڑی تھیں۔ اُن کے چہرے پر ایک بےقراری تھی — جیسے وہ بولنا چاہتی ہوں، مگر بولنے سے سب کچھ ٹوٹنے کا خدشہ ہو۔

آیان نے نظریں جھکا لیں۔

"اگر آج اجازت نہیں ملی… تو پھر میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا۔"

پاپا نے سیٹی اٹھائی۔

آیان کا دل ایک لمحے کو بیٹھ گیا۔

لیکن اگلے لمحے…

پاپا نے سیٹی میز پر رکھ دی — اور اپنی جیب سے ایک پرانی گھڑی نکالی۔

"یہ میری پہلی نوکری کی گھڑی ہے۔

تب میں وقت کے پیچھے دوڑا کرتا تھا۔

آج تُو وقت کو اپنے پیچھے دوڑا لے… اگر ہمت ہے تو۔"

آیان کی آنکھیں بھر آئیں۔

پاپا نے کہا:

"جا… آخری بار۔ لیکن یاد رکھ، واپس اُسی زمین پر آنا، جہاں تیری جڑیں ہیں۔ آسمان کی ہوا زیادہ دیر تک کسی کو قبول نہیں کرتی۔"

آیان نے خاموشی سے گھڑی ہاتھ میں لی، اور صرف سر جھکا کر نکل گیا۔

---

ٹرائل گراؤنڈ بھرا ہوا تھا۔ پورے شہر سے لڑکے آئے تھے — نئے جوتے، مہنگے کٹس، اسپانسرز کے لوگ، اور کیمرے۔

آیان کے پاس کچھ نہیں تھا، سوائے اُس بیٹ کے جو پاپا نے اُس کے آٹھویں جماعت میں دلایا تھا۔

پھٹا ہوا گلاف، لیکن بیٹ میں ایک عجیب سی جان… جیسے وہ آیان کا آخری ہتھیار ہو۔

کوچ نے دور سے اُسے دیکھا، سر ہلایا،

“یاد رکھو آیان… یہاں ہارنے کا مطلب صرف آؤٹ نہیں… موقع کھو دینا ہے۔”

آیان نے کوئی جواب نہیں دیا۔

بس اپنی ہتھیلی پر پاپا کی گھڑی کو چوما — اور میدان میں اُتر گیا۔

پہلی گیند…

پھر دوسری…

پھر تیسری…

تماشائی نہیں بولے، لیکن ہوا رک گئی تھی۔

کیمرے اُس کی طرف مڑ گئے تھے۔

آیان کھیل رہا تھا…

نہیں، آیان اُڑ رہا تھا۔

ہر شاٹ، ہر دوڑ، ہر کیچ — اُس کے اندر سالوں کی سیٹیوں، خوابوں اور ورکشاپ کی تھکن سے جُڑا ہوا تھا۔

اور جب اُس نے آخری گیند پر چھکا مارا…

تو کچھ لمحوں کے لیے اُس نے آنکھیں بند کر کے خود سے کہا:

"پاپا… میں وقت کو ہرا آیا۔"

—--------------------------------

قسط 8 — جیت وہی ہوتی ہے، جو دل سے ملے

گرمی کی وہ سہ پہر عام دنوں جیسی نہیں تھی۔

امی ہاتھ میں دوپٹہ لیے مسلسل دروازے کی طرف دیکھ رہی تھیں، اور پاپا باہر والے تھڑے پر خاموش بیٹھے تھے، جہاں وہ اکثر چائے پی کر اخبار پڑھا کرتے تھے — مگر آج ہاتھ خالی تھے۔

صرف آنکھیں تھیں، جو بار بار دروازے کی طرف جاتی تھیں…

اور وہ سیٹی، جو پاپا نے جیب سے نکال کر سامنے رکھی ہوئی تھی، جیسے آج کوئی اور فیصلہ اس کے ذریعے ہونا تھا۔

پھر اچانک، گلی کے کونے سے وہ نظر آیا — آیان۔

وہ بھاگتا ہوا نہیں آ رہا تھا، نہ ہی اچھلتا ہوا۔

وہ خاموشی سے چل رہا تھا، جیسے اُس کی جیت کوئی اعلان نہ تھی… بلکہ شکر کا سجدہ ہو۔

امی دروازے سے لپکیں، “کیا ہوا؟”

آیان نے آہستہ سے بیگ اتارا، اور اُس میں سے ایک لفافہ نکالا۔

خط تھا — پاکستان انڈر 17 ٹیم کی سلیکشن لیٹر۔

الفاظ سیدھے تھے، سادہ، لیکن آیان کے لیے وہی تھے جیسے کعبے سے کوئی سند آئی ہو۔

پاپا نے لفافہ لیا۔ پڑھا نہیں… صرف آنکھوں کے سامنے رکھا، اور دیر تک اُسے دیکھتے رہے۔

پھر دھیرے سے اُٹھے، اور سیٹی کو ہاتھ میں لیا۔

ایک لمحے کو ایسا لگا جیسے وہ اُسے بجانے والے ہیں…

مگر نہیں۔

پہلی بار…

پاپا نے سیٹی آیان کی طرف بڑھا دی۔

"اب یہ تیرے ہاتھ میں ہے۔"

آواز کمزور تھی، لیکن اُس میں ایک ہار تھی… جو باپ صرف اسی وقت مانتا ہے جب بیٹا سچ میں جیتا ہو۔

آیان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

اُس نے سیٹی ہاتھ میں لی، اور پاپا کے قدموں کے قریب بیٹھ گیا۔

"پاپا… یہ صرف ٹیم میں شامل ہونے کا خط نہیں ہے، یہ آپ کا یقین ہے۔ جو شاید دیر سے آیا، مگر آیا۔"

پاپا نے ہلکا سا مسکرایا،

"یقین ہمیشہ وقت پر آتا ہے بیٹا، بس اکثر وہ وقت ہمارا نہیں ہوتا۔"

امی نے دونوں کو دیکھتے ہوئے آنکھیں صاف کیں، اور آہستہ سے کچن کی طرف چل دیں،

"آج آیان کی پسند کا پلاؤ بناؤں گی… زندگی میں پہلی بار سیٹی خاموش ہوئی ہے، اور چولہا خوش۔"

---

اُس رات آیان چھت پر لیٹا، اور آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔

اب اس کے پاس خواب بھی تھے، رستہ بھی…

اور سب سے بڑھ کر — پاپا کی خاموشی میں چھپی ہوئی دعا۔

وہ جانتا تھا، یہ صرف آغاز ہے۔

ابھی بہت کچھ باقی ہے —

شاید غربت بھی، مشکلیں بھی، تنقیدیں بھی…

لیکن اب وہ سیٹی جو پہلے اُسے روکنے کے لیے بجتی تھی،

اب اُس کے اندر… حوصلے کی آواز بن چکی تھی۔

—-------------------------------

قسط 9 — نئی زمین، نیا آسمان

سرینگر انٹرنیشنل اسٹیڈیم، کولمبو۔

بادل نیلے تھے، اور ہوا میں نمکین خوشبو تھی — جیسے سمندر خود آیان کو خوش آمدید کہہ رہا ہو۔

گراؤنڈ بڑا تھا۔

تماشائی کم تھے، لیکن کیمرے زیادہ۔ ہر زاویے سے تصویر لی جا رہی تھی — لیکن آیان کی نظر صرف اُس پچ پر تھی، جو دور سے اُسے لاہور کے اسکول کے گراؤنڈ جیسی لگ رہی تھی، لیکن دراصل بہت الگ تھی۔

وہ ڈریسنگ روم میں بیٹھا تھا، نئی جرسی پہنے، کاندھے پر "PAK" لکھا ہوا، اور دل میں عجیب سا خلا۔

نہ امی کی آواز، نہ پاپا کی سیٹی…

بس ایک انجانی خاموشی۔

"نروس لگ رہے ہو؟"

ساتھ بیٹھے وقاص نے پوچھا، جو وکٹ کیپر تھا اور لاہور ہی سے آیا تھا۔

"تھوڑا نہیں… بہت۔"

آیان نے سچ کہا۔

"یہ جرسی پہننا تو خواب تھا…

لیکن اب لگتا ہے جیسے یہ خواب بھی بوجھ ہے۔"

وقاص نے قہقہہ لگایا، "تو پھر وہی کرو جو تم کرتے تھے…

سیٹی سنو… اور کھیلنے چلے جاؤ!"

آیان کے ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ آئی۔

"سیٹی..."

وہ لفظ جیسے دل میں بجا۔

---

میچ کا آغاز ہوا۔ پاکستان ٹیم نے ٹاس جیتا — بیٹنگ پہلے۔

کوچ نے ہاتھ میں لسٹ پکڑی، اور آیان کا نام دوسرے اوپنر کے ساتھ لیا۔

"آیان… تم جا رہے ہو۔ وقت ہے، خود کو ظاہر کرنے کا۔"

وہ اُٹھا، دستانے پہنے، بیٹ اٹھایا — اور پہلی بار، جرسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔

پاپا… یہ تمہارے نام۔

پچ پر پہنچ کر اس نے گھاس کو دیکھا، وکٹ کو تھوکا، اور دل میں وہ لمحہ یاد کیا — جب پاپا نے گھڑی دی تھی…

"وقت کو اپنے پیچھے دوڑا لے…"

پہلی گیند۔ سری لنکن بالر، لمبا، دباؤ والا، بال کی رفتار خوفناک۔

لیکن آیان نے بیٹ ایسے سنبھالا جیسے برسوں کا کھلاڑی ہو۔

گیند آئی…

آیان نے قدم نکالا…

اور بیٹ گھمایا۔

گیند باؤنڈری کی طرف تیزی سے نکلی، اور چار رنز!

پاکستانی کیمپ میں تالیاں۔ کمنٹری باکس میں تعریف۔

کوچ نے مٹھیاں بند کیں،

"یہ ہے میرا لڑکا… ورکشاپ سے اٹھا، میدان تک آیا!"

آیان نے آسمان کی طرف دیکھا…

کوئی سیٹی تو نہیں بجی…

لیکن دل نے کہا،

"اب تُو خود اپنی سیٹی ہے۔"

---

پورا میچ آیان نے 52 رنز بنائے، ایک کیچ لیا، اور آخری اوور میں شاندار ڈائیو سے رن آؤٹ کیا۔

جیت پاکستان کی ہوئی،

لیکن اُس رات صرف ایک لڑکا نہیں جیتا —

ایک باپ کی خاموش دعا، ایک ماں کا آدھا پراٹھا،

اور ایک ٹوٹے ہوئے بیٹ کی جان بھی جیت گئی۔

—---------------------------------------

قسط 10 — جب نگاہیں ٹھہر جائیں

اگلے دن کولمبو کے ایک مہنگے ہوٹل میں میڈیا کانفرنس تھی۔

پاکستان ٹیم کی فتح کے بعد اسپانسر کمپنی نے ایک پرائیویٹ فنکشن رکھا تھا — رسمی باتیں، کیمرے، کچھ فوٹو سیشن، اور ڈنر۔

آیان کو پہلی بار کسی نے کوٹ پہنایا، بال سیٹ کیے، اور ہدایات دیں:

"مسکرانا، صاف بات کرنا، اور کسی بھی سوال پر گھبرانا مت۔"

وہ اس ماحول میں نیا تھا — چمکتی روشنی، انگریزی کے بھاری لہجے، اور کھانوں کے ایسے نام جن کا مطلب اُسے ابھی تک سمجھ نہیں آتا تھا۔

تبھی اچانک، ایک آواز آئی:

"Excuse me… You’re Ayaan, right?"

وہ مڑا۔

سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی — قد درمیانہ، بال سیدھے، جینز اور سفید شرٹ پہنے ہوئے، اور ہاتھ میں کیمرہ۔

وہ عام لڑکی نہیں لگ رہی تھی… اُس کے انداز میں وہ شعور تھا، جو کسی معمولی مہمان کی نہیں، کسی میزبان کی پہچان ہوتا ہے۔

"جی؟" آیان نے آہستہ سے کہا۔

"Hi, I’m Mag. My father owns the sportswear company that sponsors your team. So technically..."

وہ مسکرائی، "…we pay for your shoes."

آیان ہکا بکا اُسے دیکھتا رہا۔

پھر ایک پل کو کچھ سوچا، اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا،

"پھر تو میں نے آپ کی چیزوں پر بہت دوڑ لگائی ہے۔ شاید رِپیر کا بل بھی آپ ہی کے نام آتا ہو۔"

Mag نے ہنس کر سر ہلایا،

"Not bad, Mr. Batsman. You speak less, but when you do… it matters."

آیان نے نظر جھکائی، مگر دل میں کچھ ہلکا سا بجا —

شاید وہی سیٹی، جو اب اندر سے آتی تھی۔

"میں نے آپ کا میچ دیکھا،" Mag نے سنجیدہ ہو کر کہا،

"جیتنے والے سب تھے، لیکن جو حقیقی تھا… وہ صرف آپ تھے۔

You don’t play to show off… you play like it’s your only chance to breathe."

آیان کا گلا خشک ہو گیا۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ باتیں کر نہیں رہی، اُس کے اندر کی آوازیں سُن رہی ہو۔

"شکریہ…"

بس یہی ایک لفظ اُس کے لبوں سے نکلا۔

"اور ہاں،" Mag نے جاتے جاتے رُک کر کہا،

"آج جو پہنا ہے نا… کوٹ۔ وہ تم پر سوٹ نہیں کرتا۔

تمہاری اصل پہچان وہ شرٹ ہے… جس پر مٹی لگی ہو، پسینہ ہو…

اور ایک نظر… جو ہر بال کو خواب کی طرح دیکھتی ہے۔"

وہ مڑی، اور کیمرہ کندھے پر ڈال کر ہال کی طرف چل دی۔

آیان وہیں کھڑا رہ گیا۔

کچھ پل بعد وقاص نے آ کر کندھے پر ہاتھ رکھا،

"کون تھی؟ بڑی لمبی بات ہو گئی۔"

آیان نے نظریں ہال کی طرف دوڑائیں، جہاں Mag اب کسی سے بات کر رہی تھی۔

"بس ایک لڑکی تھی…

جس نے میری خاموشی میں کچھ سن لیا۔"

—----------------------------------

قسط 11 — جب خواب گرتے ہیں

کولمبو کے گراؤنڈ میں آج تیسرے دن کا میچ تھا۔

میدان گیلا تھا، بادلوں کی گرج مسلسل جاری، اور کوچ بار بار لائن پر چل کر اُسے کہتے:

"احتیاط سے، وکٹ سلپ ہو سکتی ہے۔"

آیان کے لیے یہ میچ خاص تھا —

اب وہ فائنل 11 کا مستقل حصہ بن چکا تھا۔

Mag نے دو دن پہلے اسے ایک چھوٹا سا نوٹ دیا تھا:

> "Don’t just play like it’s your last match…

Play like it’s your legacy."

اس نے وہ نوٹ دستانے میں رکھا تھا۔

آج اُس کی پرفارمنس زبردست تھی۔

38 رنز بن چکے تھے، بالرز تھک رہے تھے…

پھر آئی وہ گیند۔

ایک فُل لینتھ یارکر۔ آیان نے بیٹ گھمایا، گیند وکٹ کے قریب سے نکلی، اور نان اسٹرائیکر نے دوڑنے کا اشارہ دیا۔

آیان دوڑا۔

ایک... دو...

اور پھر…

پاؤں پھسلا۔

گراؤنڈ گیلا تھا۔

اس کا پاؤں مڑا… اور ایک آواز آئی — ایسی آواز جو باہر کسی نے نہیں سنی، لیکن آیان کے اندر سب کچھ توڑ گئی۔

وہ زمین پر گرا… چہرہ مٹی میں… آنکھیں بند… اور دل میں ایک ہی دعا:

"یا اللہ، بس خواب مت توڑنا…"

---

ایمبولینس۔ شور۔ کوچ کی بھاگتی آوازیں۔

وقاص رو رہا تھا، Mag ہال سے باہر نکلی، اور صرف یہ جملہ سننے کو ملا:

"His right leg is broken."

---

ہسپتال، کولمبو

آیان ہوش میں آیا تو سب سفید تھا — دیواریں، بستر، کپڑے… اور اُس کے سامنے پاپا۔

جی ہاں…

پاپا، جو ویزا لگوا کر پہلی فلائٹ سے آ گئے تھے،

جنہوں نے سیٹی ساتھ لائی تھی…

لیکن بجا نہیں رہے تھے۔

آیان نے ان کی طرف دیکھا، اور آنکھیں بھیگ گئیں۔

"پاپا…"

"ہاں بیٹا؟"

"اب کیا ہوگا؟"

پاپا نے آہستہ سے اُس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا،

"اب تُو سانس لے… باقی خواب کی فکر میں کروں گا۔"

---

اسی لمحے Mag اندر آئی، ہاتھ میں ایک چھوٹا سا سفید بکسہ تھا۔

"میں کچھ لائی ہوں…"

اس نے وہ بکسہ آیان کی طرف بڑھایا۔

اندر سے وہی نوٹ نکلا —

مگر نیچے ایک اور لائن لکھی تھی:

> "If your body rests, let your spirit rise."

پاپا نے سیٹی آیان کے تکیے کے ساتھ رکھ دی،

اور باہر چلے گئے۔

اب صرف Mag، آیان، اور وہ خاموشی رہ گئی تھی…

جس میں درد تھا، لیکن شکست نہیں۔

—-----------------------------------------

قسط 12 — واپسی، مگر کیسی؟

دو ہفتے ہو چکے تھے۔

ہڈی جُڑ گئی تھی، مگر خواب ابھی بھی بکھرے تھے۔

ڈاکٹرز نے کہہ دیا تھا:

> “Recovery will take 6–8 months. Maybe a year.

No match, no nets, no training. Just wait... and heal.”

ایسا لگا جیسے زندگی نے پاز کا بٹن دبا دیا ہو۔

اس دن، آیان کھڑکی کے پاس بیٹھا باہر دیکھ رہا تھا —

کولمبو کی بارش، وھیل چیئر پر خاموشی،

اور سامنے میز پر وہ نوٹ جو Mag نے دیا تھا۔

پاپا پاس بیٹھے تھے، سیٹی اُن کے ہاتھ میں تھی۔

امی بےآواز دعا مانگ رہی تھیں، تسبیح کے دانے بار بار پھسل رہے تھے۔

"ہمیں واپسی کی فلائٹ بک کروانی ہوگی آیان،"

پاپا نے آہستہ سے کہا۔

آیان نے کچھ نہیں کہا۔

پھر دھیرے سے بولا:

"کیا وہی محلہ ہو گا؟ وہی ورکشاپ، وہی راستہ؟"

پاپا نے سیٹی میز پر رکھی،

"ہاں…

مگر اب تیرا چلنا پہلے جیسا نہیں ہوگا،

اب تیری ہر قدم کے ساتھ ایک آواز ہو گی —

تجربے کی، تکلیف کی، اور... جیتنے کی۔"

---

لاہور ایئرپورٹ، دو دن بعد

ائیرپورٹ پر خاموشی تھی۔

نہ وہ بینرز، نہ میڈیا کی بھیڑ، نہ سیلفیوں کی قطار۔

بس ایک اسٹاف آفیسر اور ایمبولینس۔

آیان کو وہیل چیئر پر بٹھا کر باہر نکالا گیا،

اور اچانک… دور سے آواز آئی:

"آیان بھائی! آپ ہیرو ہیں!"

ایک چھوٹا لڑکا، کرکٹ بال ہاتھ میں لیے، گلی سے دوڑتا ہوا آیا۔

آیان نے دھیرے سے مسکرایا۔

پہلی بار…

مسکراہٹ میں شکست کا دکھ نہیں، سیکھنے کی روشنی تھی۔

---

گھر

امی دروازے پر کھڑی تھیں، آنکھوں میں پانی۔

پاپا نے سہارا دے کر اندر لایا۔

سب کچھ ویسا ہی تھا۔

گلی وہی، چھت وہی، سیٹی وہی…

مگر آیان؟

اب وہ وہ نہیں رہا تھا۔

اب وہ خاموشی میں پکا ہوا خواب تھا۔

اب اُس کے پاس صرف کھیلنے کی خواہش نہیں، کھیل کو سمجھنے کا ہنر تھا۔

---

رات کو آیان چھت پر لیٹا تھا۔

ہاتھ میں وہ نوٹ، سر کے پاس پاپا کی سیٹی، اور دل میں وہ لمحہ جب Mag نے کہا تھا:

> “If your body rests… let your spirit rise.”

تبھی امی آئیں، اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔

"واپس آ گئے ہو، آیان…؟"

آیان نے آنکھیں بند کر کے آہستہ سے کہا،

"نہیں امی…

ابھی تو دوبارہ شروع ہونے جا رہا ہوں۔"

—------------------------------------

قسط 13 — جب دروازے بند ہوں

تین ہفتے گزر چکے تھے۔

گھر کے صحن میں وھیل چیئر، سامنے میز پر پرانے میچ کی تصاویر، اور آیان کا ہاتھ لیپ ٹاپ پر…

جہاں وہ بار بار کرکٹ بورڈ کی ویب سائٹ پر “Contact Us” کا بٹن دبا رہا تھا۔

ہر بار ایک ہی پیغام:

“Thank you for reaching out. We will get back to you shortly.”

مگر وہ "shortly" کبھی نہیں آیا۔

امی خاموشی سے کھانا لاتی تھیں،

پاپا اخبار پڑھنے کی اداکاری کرتے، مگر ہر نظر آیان پر ہوتی۔

وقاص نے فون کیا،

"بھائی، سنّاٹا ہے بورڈ میں… نیا ٹیلنٹ آیا ہے، پرانے لڑکوں پر بجٹ نہیں لگاتے۔"

آیان نے فون بند کیا، اور ایک لمبی سانس لی۔

“کیا خواب بھی ایکسپائری ڈیٹ کے ساتھ آتے ہیں؟”

اُسی شام، اُس نے دو ای میلز اور بھیجیں:

ایک ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ٹیم کو

ایک سابق کوچ کو

اور پھر موبائل رکھ کر چھت پر چلا گیا۔

وہاں، سیٹی تھی… مگر خاموش۔

آسمان تھا… مگر خالی۔

تبھی پاپا آ گئے۔

"کیا ہوا؟"

آیان نے نظر نہیں اُٹھائی،

"دروازے بند ہیں، پاپا…

کہیں سے جواب نہیں آ رہا۔"

پاپا بیٹھ گئے۔ ہاتھ میں وہی سیٹی تھی۔

"تو کیا اب دروازے توڑنے ہیں؟"

آیان نے چونک کر دیکھا۔

"بیٹا، جس دروازے کو بجانے سے آواز نہ آئے، اُس کی کنڈی پیچھے سے لگی ہوتی ہے۔

اور جو دروازے پیچھے سے بند ہوں…

انھیں صرف اندر والا ہی کھولتا ہے —

اور وہ ہے، تیرا یقین۔"

---

اگلی صبح آیان نے موبائل پھر اٹھایا۔

نہ جواب تھا، نہ کال۔

مگر اس بار اُس نے ایک نئی فائل کھولی —

"Cricket Comeback Plan" کا نام رکھا۔

نقشہ نہیں تھا، صرف جذبہ تھا۔

—------------------------------------

قسط 14 – واپسی

"اب ٹیک لگاؤ، سانس لو… میں ڈاکٹر بلا کے آتی ہوں۔"

امی کے چہرے پر ایک انجانی تھکن تھی۔ وہی چہرہ جو ساری زندگی صرف بیٹے کی دعا مانگتا رہا، آج خود ایک خاموش دعا بن چکا تھا۔

آیان نے ان کے ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تو اُن کی انگلیاں تھوڑی ٹھنڈی لگیں… اور ایک جھٹکے سے وہ دنیا اندھیرے میں چلی گئی۔

سب کچھ بہت تیزی سے ہوا۔

ایمبولینس کے اندر چیخیں نہیں تھیں۔ صرف شور تھا —

سانسوں کی مشین، ڈاکٹر کی کڑک آواز، اور پاپا کا وہی چہرہ، جو سیٹی کے بغیر بےمعنی لگ رہا تھا۔

امی کو دل کا دورہ پڑا تھا۔

ہسپتال کے کمرے میں وینٹیلیٹر کی آواز ہر چیز پر بھاری تھی۔

پاپا صوفے پر چپ بیٹھے تھے۔

آیان کے سامنے چیک لسٹ رکھی تھی:

انجیکشن — 2400 روپے

پیس میکر — 1 لاکھ 15 ہزار

اور روزانہ کا بیڈ چارج، ڈاکٹر فیس، ٹیسٹ… ہر چیز ہزاروں میں۔

اُس کی انگلیوں میں موبائل کانپ رہا تھا۔

کرکٹ بورڈ کو تیسری ای میل کر چکا تھا۔

سابق کوچ، اسپانسر کمپنی، PR ٹیم — سب کو کالز کی تھیں۔

جواب؟

کوئی نہیں۔

کسی نے فون نہیں اٹھایا۔

کسی نے واٹس ایپ "Seen" کے بعد جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔

پاپا نے آہستہ سے کہا،

"بیٹا، جو پیسے بچ گئے تھے… وہ بھی کل کی دواؤں میں لگ گئے ہیں۔"

آیان نے گردن جھکائی۔

“اب کچھ نہیں بچا پاپا؟”

"نہیں، صرف وقت ہے… جو بھی بچ جائے۔"

---

تین دن بعد، امی کو ہوش آیا،

لیکن ڈاکٹر نے صاف کہا:

"دو ماہ مکمل بیڈ ریسٹ۔ ہر مہینے کارڈیو چیک اپ۔ اگر دوا میں ناغہ ہوا تو خطرہ بڑھ جائے گا۔"

اس دن، آیان نے پہلی بار وہیل چیئر سے خود اٹھنے کی کوشش کی۔

پاپا فوراً لپکے، "ارے، آرام سے…"

"نہیں پاپا۔ بس، آرام بہت ہو گیا۔ اب کام کرنا ہے۔"

پاپا نے حیرت سے دیکھا،

"کام؟ تیرا مطلب…؟"

"ہم واپس چلیں گے، پاپا۔

ورکشاپ۔ میں سیکھ چکا ہوں، ابھی ہلکے کام کر سکتا ہوں۔

امی کے لیے دوا خریدنی ہے… اور سیٹی صرف خوابوں کے لیے نہیں، اب روٹی کے لیے بھی بجے گی۔"

---

اگلے دن صبح

پھٹی پرانی شرٹ، نیلا رنگ اور پچھلے میچ میں لگی کیچ کی نشانیاں —

آیان نے پرانا یونیفارم پہنا اور پاپا کے ساتھ پرانی ورکشاپ میں داخل ہوا۔

گرد، تیل، شور… اور کچھ نئی مشینیں۔

ماموں نے چونک کر دیکھا،

"اوئے آیان! تم؟ اب واپس؟"

آیان نے صرف اتنا کہا،

"کبھی کبھی واپسی بھی جیت ہوتی ہے… اگر ہاتھ خالی، دل بھرا ہو۔"

ماموں نے کندھے پر ہاتھ رکھا،

"کام تھوڑا تھوڑا کرنا… حوصلہ بڑا رکھنا۔"

---

شام کو

امی کمرے میں لیٹی تھیں، اور آیان نے دوا کا لفافہ ان کے ہاتھ پر رکھا۔

"آج کی دوا وقت پر۔ پاپا نے کہا تھا، وقت کو اپنے پیچھے دوڑانا ہے… آج وہ وقت دوا میں آیا ہے، چھکے میں نہیں۔"

امی کی آنکھوں سے دو قطرے نکلے،

"بیٹا، تو ہارا نہیں نا؟"

آیان نے سیٹی تکیے کے ساتھ رکھی،

"نہیں امی… بس اب میں وہ خواب نہیں دیکھتا جو مجھ پر بوجھ بن جائے۔

اب میں بس وہی جیتوں گا… جو آپ کی سانسوں میں چھپی ہے۔"

---

رات کو چھت پر، آسمان خاموش تھا۔

سیٹی اُس کے پاس تھی،

لیکن وہ نہیں بجی —

کیوں کہ آیان اب خود سیٹی بن چکا تھا۔

—---------------------------

قسط 15 – وہ جو واپس آئی

شام کے پانچ بج رہے تھے۔

آیان ورکشاپ کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا کسی چھوٹے لڑکے کو اسپن بالنگ سمجھا رہا تھا۔

پاؤں میں ابھی بھی تھوڑی کمزوری تھی، لیکن درد اب مستقل ہو چکا تھا۔

جیسا جسم کا حصہ ہو۔

ماموں نے پیچھے سے آواز دی،

"اوئے آیان… کوئی تیرے لیے گاڑی میں آیا ہے۔ غیر ملکی لگ رہی ہے۔"

آیان نے حیرت سے گردن موڑی۔

سامنے ایک سفید SUV کھڑی تھی — اور اُس میں سے وہی اتری…

Mag۔

Mag… جینز اور ہلکی نیلی کُرتی پہنے، ہاتھ میں ایک فائل، چہرہ وہی خاموش مگر باوقار،

اور آنکھوں میں ایک خاص دھڑکن،

جیسے وہ سب کچھ جانتی ہو… اور کچھ بھی نہ کہنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔

"تم…؟"

آیان کے لبوں سے صرف یہی نکلا۔

"مجھے سب پتہ ہے، آیان۔

امی کی طبیعت، تمہارا حال، ہسپتال کی تفصیلات، اور… تمہاری خاموشی۔

تم نے سب کو خاموشی سے سہہ لیا —

تو اب ایک بار مجھے بھی بولنے دو۔"

آیان نے ایک قدم پیچھے لیا،

"نہیں… پلیز۔ ہم… ہم خود سنبھال لیں گے۔"

Mag نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔

"یہ مدد نہیں ہے، آیان… یہ حساب ہے۔

تم نے مجھے وہ دن دیا تھا، جب پوری ٹیم میں صرف تم نے مجھے انسان کی طرح دیکھا تھا۔

آج وہی پل لوٹا رہی ہوں۔"

آیان کی آواز تھرّا گئی،

"تم سمجھتی ہو میں صدقہ لوں گا؟"

Mag کی نظروں میں پہلی بار ہلکی نمی آئی،

"میں صدقہ نہیں دے رہی، آیان۔

میں وہ کر رہی ہوں، جو ایک انسان دوسرے کے لیے کرتا ہے —

جب دنیا پیچھے ہٹ جاتی ہے۔

اور اگر تمہیں لگتا ہے کہ میں کسی مفاد کے لیے آئی ہوں… تو یہ مت بھولو،

میں تب آئی جب تمہارے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا۔"

آیان کی زبان بند ہو گئی۔

---

ایک گھنٹے بعد، Mag امی کو ہسپتال لے جا رہی تھی۔

پرائیویٹ وارڈ، اسپیشلسٹ کارڈیولوجسٹ، اور پورا ٹریٹمنٹ پلان۔

امی نے آہستہ سے پوچھا،

"بیٹا، یہ کون ہے؟"

Mag نے نرمی سے ان کا ہاتھ تھاما،

"ایک بیٹی… جو بس وقت پر آ گئی۔"

---

باہر بینچ پر آیان اور Mag آمنے سامنے بیٹھے تھے۔

چند لمحے خاموش گزرے۔

پھر Mag نے رخ اس کی طرف موڑا،

"تمہارے اندر بہت روشنی ہے، آیان…

تمہیں خود اندازہ نہیں، تم کتنے مضبوط ہو۔

اور میں یہاں ہمدردی کے لیے نہیں آئی۔

میں صرف… تمہیں یاد دلانے آئی ہوں

کہ تمہارا سفر ختم نہیں ہوا۔

یہ صرف ایک وقفہ ہے۔"

آیان نے نیچے دیکھا،

"اگر یہ سفر دوبارہ نہ شروع ہو سکا تو؟"

Mag نے اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا،

نہ کسی وعدے کے لیے،

نہ کسی جذبے کے لیے…

بس ایک خاموش حوصلے کے لیے۔

"پھر ہم کوئی اور راستہ نکال لیں گے۔

زندگی صرف وہ نہیں جو چھین لی جائے،

بلکہ وہ بھی ہے…

جو ہم بنا لیتے ہیں۔"

---

اس رات آیان پہلی بار جلد سو گیا۔

نہ کسی بےچینی میں،

نہ کسی امید کے انتظار میں —

بس اس احساس کے ساتھ کہ

کبھی کبھی، کچھ لوگ صرف ہمارے لیے نہیں آتے… وہ ہماری کہانی کو مکمل کرنے آتے ہیں۔

—----------------------------------------

قسط 16 – ساتھ

ہسپتال کا کمرہ اب آہستہ آہستہ زندگی کی طرف لوٹ رہا تھا۔

امی کے چہرے پر رنگ واپس آ رہے تھے،

پاپا شام کو اخبار لانے لگے تھے،

اور آیان…

وہ اب صبح صبح واک پر جانے کی کوشش کرنے لگا تھا۔

لیکن ایک بات واضح تھی —

کرکٹ کا دروازہ اب بند لگ رہا تھا۔

اسی شام میگ لان میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کر رہی تھی۔

آیان کچن سے پانی لے کر آیا اور دروازے پر رکا۔

"پھر تم یہاں کچھ نہ کچھ 'چارج' کر رہی ہو؟"

وہ مسکرایا۔

میگ نے نظریں نہیں اُٹھائیں،

"میں کرکٹ بورڈ کو ای میل کر رہی ہوں۔"

آیان کا چہرہ فوراً سنجیدہ ہو گیا،

"کیا؟ میگ… یہ ضروری نہیں ہے۔"

میگ نے رک کر اُس کی طرف دیکھا،

"تمہاری زندگی کا وہ باب بند ہے، کیونکہ تم نے اُس دروازے پر دوبارہ دستک نہیں دی۔

اب وہ دستک میں دوں گی۔"

"مگر تم کیوں؟"

آیان کی آواز میں بےچینی تھی۔

"کیونکہ تم نے کبھی مانگا نہیں،

اور مجھے لگتا ہے، جو شخص صرف اپنی ماں کے لیے واپس آیا ہو،

وہ ملک کے لیے بھی بہت کچھ دے سکتا ہے۔"

---

اگلے دن

میگ خود کرکٹ بورڈ کے دفتر گئی۔

کانفرنس روم، فائلیں، تصویریں، اور ایک روایتی سا ریسپشنسٹ۔

"جی، آپ؟"

"میرا نام ماریہ گل ہے۔

میگ۔

میرے والد بورڈ کے اسپانسرز میں شامل ہیں۔

اور میں ایک پلئیر کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں، جس کا نام آیان اکرم ہے۔"

"میڈم، وہ فزیکلی فٹ نہیں رہے۔ ہم پہلے ہی نوجوان ٹیلنٹ پر فوکس کر رہے ہیں۔"

میگ نے سنجیدگی سے فائل کھولی،

جس میں آیان کی پرفارمنس رپورٹ، میڈیکل ریکوری کی تفصیل، اور ایک مختصر ویڈیو تھی —

جس میں وہ ورکشاپ میں بچوں کو کرکٹ سکھا رہا تھا۔

"یہ لڑکا صرف بیٹ نہیں سنبھالتا،

یہ خوابوں کو تھام کر چلتا ہے۔

اگر آج آپ اُسے موقع نہیں دیں گے،

تو کل آپ اپنی ٹیم سے ایک سچا، وفادار، اور مکمل طور پر واپس آنے والا کھلاڑی کھو دیں گے۔"

ریسپشنسٹ نے فائل لے لی۔

میگ باہر نکلی۔

---

شام کو

آیان لان میں بیٹھا تھا۔

میگ چپ چاپ آ کر اُس کے پاس بیٹھ گئی۔

"گئی تھی؟" آیان نے سوال کیا۔

"ہاں۔"

"اور…؟"

"وہی معمولی سا رویہ۔

لیکن میں نے جو کہنا تھا، کہہ دیا۔"

"میگ…" آیان نے آہستہ سے کہا،

"اگر دوبارہ جواب نہ آیا تو؟"

میگ نے ہنستے ہوئے کہا،

"تو ہم خود ایک نیا دروازہ بنا لیں گے۔

ضروری نہیں ہر خواب بورڈ کی مہر سے پورا ہو…

کبھی کبھی خواب صرف ساتھ سے بھی جاگ اٹھتے ہیں۔"

آیان نے پہلی بار اُسے ایک سچے دوست کی طرح دیکھا۔

"میگ… تم میرے لیے کیا ہو؟"

وہ مسکرائی،

"ایک سوال جس کا جواب وقت دے گا…

ابھی کے لیے، میں وہ ہوں جو تمہیں دوبارہ بیٹ تھمانا چاہتی ہے۔

دوستی کے ساتھ۔"

---

اگلے دن

کرکٹ بورڈ کی طرف سے ایک کال آئی —

"آیان اکرم، آپ کو فٹنس کی بنیاد پر دوبارہ ٹرائل کے لیے بلایا جا رہا ہے۔"

وہ لمحہ خاموش تھا…

صرف نگاہیں بولیں۔

اور اس بار آیان نے نظریں آسمان کی طرف نہیں،

سامنے بیٹھی اپنی دوست میگ کی طرف اٹھائیں…

جس نے صرف دروازہ کھٹکھٹایا نہیں،

بلکہ روشنی جلائی تھی۔

—---------------------------------

قسط 17 – بند دروازہ

ٹرائل کا دن تھا۔

صبح 6 بجے ہی آیان پچ پر آ گیا تھا۔

پورا گراؤنڈ ہلکی دھند میں لپٹا ہوا تھا۔

وہی ہوا، وہی خوشبو، وہی بیٹ…

لیکن ہاتھ میں تھوڑا سا کپکپاہٹ،

جسم میں تھوڑی سی تھکن…

اور دل میں صرف ایک آواز:

"یہ آخری موقع ہے۔"

میگ دور سے اُسے دیکھ رہی تھی۔

کچھ کہے بغیر، صرف آنکھوں سے دعائیں بھیج رہی تھی۔

---

ٹرائل شروع ہوا۔

آیان نے بیٹنگ شروع کی۔

پہلا بال، دوسرا بال، چھکا، کٹ، پل، فرنٹ فٹ پر وہی اعتماد…

جیسے کچھ بھی نہیں بدلا۔

پھر فیلڈنگ، بولنگ، ایک مکمل فٹنیس شو۔

کوچز نے نوٹس لیے۔

چند نے سر ہلایا، چند نے خاموشی اختیار کی۔

لیکن کوئی چہرہ آیان کے قریب نہیں آیا۔

---

شام کو بورڈ کا فیصلہ آیا۔

فہرست میں کئی نئے نام تھے —

اور ایک نام وہاں نہیں تھا…

"آیان اکرم"

---

آیان نے وہ لسٹ میگ کو تھمائی اور خود چھت پر چلا گیا۔

چند لمحوں بعد میگ بھی اس کے پیچھے آئی۔

آسمان پر کچھ بھی نہیں تھا —

نہ چاند، نہ ستارے، بس خاموشی۔

"تم نے سب کچھ دے دیا، آیان… میں نے دیکھا تھا۔"

"پھر بھی…؟"

"پھر بھی، ہاں۔

کیونکہ کبھی کبھی تمہارے اچھے ہونے سے نظام بہتر نہیں ہو جاتا۔"

آیان نے آنکھیں بند کیں۔

"تو اب کیا؟"

میگ نے آہستہ سے کہا:

"اب… اب تم وہ کرو جو تمہیں کوئی نہ کرنے دے —

کھڑے رہو۔

اُن سب کے لیے جو تمہیں دیکھ رہے ہیں،

اُن بچوں کے لیے جو تم سے سیکھ رہے ہیں،

اُن خوابوں کے لیے…

جنھیں اب تم نے بوجھ نہیں، وراثت سمجھا ہے۔"

---

اگلے دن، آیان دوبارہ ورکشاپ میں تھا۔

مگر آج اُس کے ساتھ آٹھ بچے تھے،

جنھیں وہ نیٹس پر لے جا رہا تھا۔

پرانا بیٹ، پرانا گراؤنڈ، نئی توانائی۔

میگ دروازے کے پاس کھڑی مسکرا رہی تھی۔

"تم ابھی بھی ہار مانے بغیر سب کو جتوانا چاہتے ہو؟"

آیان نے نیچے بچوں کی طرف دیکھا۔

"میں اب صرف خود نہیں کھیلتا…

اب جو بھی جیتے گا،

میری جیت ہوگی۔"

—-------------------------------------

قسط 18 – کہانی جو لکھی جا رہی ہے

شام کا وقت تھا۔

آیان بچوں کے ساتھ نیٹس پر محنت کر رہا تھا —

کسی کو بیٹنگ سمجھاتا، کسی کو گرپ ٹھیک کرواتا،

اور سب کے بیچ خود ایسے کھویا ہوتا جیسے اپنا ماضی نہیں،

ان کا مستقبل بنا رہا ہو۔

میگ تھوڑے فاصلے پر بیٹھی لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کر رہی تھی۔

پہلے دن سے وہ اس زاویے سے آیان کو دیکھتی آ رہی تھی،

جس زاویے سے آیان نے کبھی خود کو نہیں دیکھا تھا۔

رات کو جب آیان چھت پر آیا،

میگ نے موبائل اُس کی طرف بڑھایا۔

"دیکھنا چاہتے ہو، تم کیسے لگتے ہو دوسروں کی نظر میں؟"

آیان نے ہچکچاتے ہوئے موبائل لیا۔

---

اسکرین پر Shan Cricket کے بلاگ کا پہلا صفحہ کھلا تھا۔

عنوان:

"وہ جو دوبارہ اٹھا – آیان اکرم کی خاموش جنگ"

نیچے تصویر —

آیان بچوں کے بیچ کھڑا، ہاتھ میں بیٹ، چہرے پر پسینہ اور آنکھوں میں وہ روشنی جو صرف شکست کے بعد بچی ہوئی ہمت میں ہوتی ہے۔

پہلا پیرہ:

> "آیان اکرم — وہ نام جو کبھی انڈر 17 میں سب سے نمایاں تھا،

آج ایک ورکشاپ کے پیچھے گلی میں کرکٹ سکھا رہا ہے۔

اس کی کہانی میں گلیمر نہیں،

مگر ایک ایسی روشنی ہے جو ہر اس لڑکے کو دکھا سکتی ہے کہ

'اگر تم گر جاؤ…

تو اُٹھنا سیکھ لو، کیونکہ نظام تمہیں نہیں اُٹھائے گا۔'"

آیان خاموشی سے پڑھتا رہا۔

"تم نے… یہ سب…؟"

آواز رُک گئی۔

میگ نے ہلکی سی مسکراہٹ دی،

"ابھی صرف پہلا حصہ ہے۔

اگلے بلاگ میں تمہاری پرانی ویڈیوز، سلیکشن کا درد،

اور پھر وہ لمحہ جب تم واپس ورکشاپ آئے — سب ہوگا۔"

"کیوں کر رہی ہو یہ سب؟"

"کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ

لوگ تمہیں صرف ایک ناکام کھلاڑی نہ سمجھیں…

بلکہ ایک زندہ کہانی سمجھیں۔

جو آج بھی سانس لے رہی ہے۔"

---

اگلے دن

Shan Cricket کے سوشل میڈیا پر بلاگ پوسٹ ہوا۔

پہلے ایک گھنٹے میں 800 شیئرز،

پھر سینکڑوں کمنٹس:

"ایسا لڑکا کوچ بنے گا تو اصل ٹیلنٹ اُبھرے گا!"

"اسے کرکٹ بورڈ نے واپس کیوں نہیں لیا؟"

"آیان بھائی… آپ کو سلام!"

وقاص نے کال کی،

"بھائی… تُو مشہور ہو گیا ہے۔"

آیان خاموش بیٹھا رہا،

پھر آہستہ سے کہا:

"یہ سب… میں نہیں،

کسی اور کی آنکھ نے دیکھا ہے۔"

---

رات کو چھت پر

آیان نے میگ کو ایک نظر دیکھا۔

"تم صرف لکھتی ہو… یا خوابوں کو بھی لکھ دیتی ہو؟"

میگ نے چہرہ موڑ کر کہا:

"خواب صرف لکھنے سے پورے نہیں ہوتے، آیان۔

لیکن جب کوئی اُنھیں سنجیدگی سے سن لے،

تو وہ جاگنے لگتے ہیں۔"

میگ نے جیسے ہی آیان پر پہلا بلاگ شائع کیا، ردِ عمل اُس کی توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ Shan Cricket کے سوشل میڈیا پیجز پر ہزاروں لوگ اُس بلاگ کو شیئر کر رہے تھے، اور کمنٹس میں صرف ایک ہی جذبہ نمایاں تھا — حیرت، اور عزت۔

یہ سب دیکھ کر میگ نے ایک فیصلہ کیا۔ اب یہ ایک بلاگ نہیں رہے گا، بلکہ ایک مکمل سیریز ہوگی — "Grind Behind the Game"

جس میں وہ صرف آیان ہی نہیں، بلکہ اُن تمام بےنام کھلاڑیوں کی کہانیاں دنیا تک لے کر آئے گی، جنھوں نے خواب تو دیکھے، لیکن جنھیں سسٹم نے نظر انداز کیا۔

دوسرے ہفتے کا بلاگ آیان کی پرانی انڈر 17 پرفارمنس پر تھا۔ میگ نے آرکائیو سے اُس کے چھکے، فائنل میچ کی وڈیوز، اور کوچز کے تبصرے نکالے۔ ویڈیو کلپ کے ساتھ ایک سادہ سا جملہ لکھا:

"یہ وہ پلئیر ہے، جسے آج ورکشاپ میں پنکچر کی خوشبو کے بیچ بیٹ پکڑنا پڑا۔"

اُس دن آیان دن بھر ورکشاپ میں رہا، اور جب رات کو موبائل چارجنگ پر لگایا تو نوٹیفیکیشنز کا طوفان تھا۔ انسٹاگرام پر سینکڑوں نئے فالوورز، یوٹیوب پر ویڈیوز کے نیچے شکرگزاری کے کمنٹس، اور ایک میسج… ایک پرانا کرکٹر، جو اب کسی مقامی ٹیم کا کوچ تھا:

"آیان، تم میرے ہیرو ہو۔ اگر تم اجازت دو تو اپنی ٹیم کے بچوں کے لیے تمہاری کوچنگ چاہیے۔"

یہ وہ لمحہ تھا جب آیان کو پہلی بار محسوس ہوا کہ شاید اس کے ہارنے میں بھی جیت چھپی تھی۔ وہ اب کھلاڑی نہیں رہا تھا، وہ ایک مثال بن رہا تھا۔

میگ اب ہر دوسرے دن Shan Cricket کے لیے بلاگ پوسٹ کرتی۔ کبھی آیان کی ورکشاپ کی تصویریں، کبھی اُس کی بچوں کے ساتھ نیٹس پر مسکراتی جھلک، اور کبھی اُس کے خاموش، خاک آلود ہاتھوں کی کلوز اپ… جنھوں نے خواب تھامے تھے اور مٹی سے صاف کیے تھے۔

آیان پہلے پہل ان بلاگز سے بےچینی محسوس کرتا رہا۔ اسے لگتا تھا یہ ساری توجہ صرف وقتی ہے۔ مگر آہستہ آہستہ، ہر لفظ، ہر کمنٹ، ہر شیئر اُسے ایک نئی روشنی میں نہا دیتا۔ وہ اب خود کو کمتر نہیں سمجھتا تھا۔ اب اُسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ صرف بیٹ پکڑنے والا نہیں، وہ اُن سینکڑوں لڑکوں کی آواز ہے جو گراؤنڈ سے باہر ہو گئے، مگر خوابوں سے نہیں۔

ایک دن، جب وہ نیٹ میں ایک چھوٹے بچے کو بیٹنگ سمجھا رہا تھا، میگ خاموشی سے دور کھڑی ویڈیو بنا رہی تھی۔ آیان نے دیکھا، اور ایک لمحے کو مسکرایا۔ وہ جانتا تھا، یہ ویڈیو صرف کھیل کی نہیں، کہانی کی بن رہی ہے۔ ایک ایسی کہانی جو شاید وہ خود بھی کبھی نہ لکھ پاتا، اگر کوئی اُسے اس نظر سے نہ دیکھتا۔

اور شاید پہلی بار، آیان نے شکر ادا کیا… شکست کا، چوٹ کا، بند دروازوں کا۔

کیونکہ اگر وہ سب نہ ہوتا، تو یہ سب کبھی نہ ہوتا۔

—-------------------------------------

گرمیوں کی ہلکی سہ پہر تھی۔

ورکشاپ کے باہر بچوں کی آوازیں تھیں، اور آیان پسینے میں بھیگے کپڑوں کے ساتھ ٹھنڈا پانی پی رہا تھا۔

سامنے سے سفید گاڑی آ کر رکی —

جیسے وقت نے ایک بار پھر بریک لگا دی ہو۔

گاڑی سے میگ کے والد اترے۔ ان کے ساتھ اُس کی ماں بھی تھی، جن کی آنکھوں میں ایک اجنبی ملک کی جھجک اور اپنی بیٹی کی تشویش جھلک رہی تھی۔

آیان نے ہاتھ جوڑ کر سلام کیا۔

میگ نے دھیرے سے ایک مسکراہٹ دی،

جس میں اعتماد بھی تھا، اور خاموش اعلان بھی۔

"یہ وہ جگہ ہے جہاں میں نے پہلی بار زندگی کو سادگی میں پلتا دیکھا۔"

میگ کی آواز میں فخر تھا۔

"یہ آیان ہے، بابا۔"

میگ کے والد نے ورکشاپ، نیٹس، اور آیان کی سادگی کو ایک بار غور سے دیکھا۔

پھر آیان کی طرف بڑھ کر ہاتھ بڑھایا۔

"میگ نے تمہارے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے،

مگر جو آج اپنی آنکھوں سے دیکھا…

وہ تحریر سے کہیں زیادہ تھا۔"

وہ چند لمحے آیان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھے۔

اُسی شام، میگ کے والدین نے آیان کے گھر آ کر ملاقات کی۔

امی نے چائے بنائی، پاپا نے روایتی جھجک سے مگر محبت سے بات کی۔

"ہم رشتوں میں ذات نہیں دیکھتے، بیٹا…

بس کردار دیکھتے ہیں۔

اور وہ، تمہارے چہرے سے جھلکتا ہے۔"

میگ خاموشی سے سن رہی تھی۔

نہ کوئی نگاہی وعدہ، نہ کوئی جذبے کی جلد بازی —

بس وہی دھیمی، گہری دوستی…

جس نے اس رشتے کو بنیاد دی تھی۔

امی نے روایتی انداز میں میگ کو اپنی بہو کے روپ میں دیکھ کر دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔

"بیٹی ایسی ہو تو گھر میں برکت اُترتی ہے۔"

کسی نے باقاعدہ بات نہیں کی۔

کسی نے رسمی جملے نہیں کہے۔

لیکن اگلے دن، پاپا نے آیان کے ہاتھ پر نرمی سے تھپکی دی:

"تو اب ہم لڑکی والے بن گئے ہیں، بیٹا؟"

آیان نے سر جھکا کر صرف اتنا کہا:

"اب جو زندگی آئی ہے، وہ خواب سے زیادہ حقیقت لگتی ہے۔

اور میگ… وہ صرف میرے ساتھ نہیں،

میری کہانی کے ساتھ کھڑی رہی۔"

چند ہفتوں بعد سادہ سی تقریب رکھی گئی۔

نہ کوئی ہال، نہ کوئی گلیمر —

صرف گھر کے صحن میں سفید کپڑے کی چھت،

کچھ قریبی رشتے دار،

اور آیان و میگ…

دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے جیسے یقین کر رہے ہوں کہ

کچھ رشتے لکھے نہیں جاتے…

چپکے سے زندگی میں اُتر آتے ہیں۔

—-------------------------------------

قسط 19 – وعدے اور امکانات

وہ دن آخر آ ہی گیا،

جس کے لیے سب نے تین سال انتظار کیا تھا۔

نکاح کا سادہ سا انتظام تھا —

امی نے خود میگ کے دوپٹے کی کڑھائی سنبھالی تھی،

اور آیان کے کرتا پاجامے پر پاپا نے چپ چاپ ہاتھ پھیرا تھا جیسے کہہ رہے ہوں،

"آج میرے بیٹے نے سب کچھ خود سے جیتا ہے۔"

صحن میں سفید چادر تنی ہوئی تھی،

گل دانوں میں تازہ گلاب رکھے گئے تھے،

اور دعوت کے طور پر وہی چائے، سموسے، اور میٹھا جو ہر خوشی کی پہچان ہے۔

نکاح کے وقت قاری صاحب کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی:

"قبول ہے؟"

آیان نے نظریں نیچی کیے، پُر سکون لہجے میں کہا:

"قبول ہے۔"

میگ دوسری طرف بیٹھی، ہلکے سے مسکرائی۔

وہ مسکراہٹ تین سالوں کی گواہی تھی —

محبت کی نہیں، وفاداری کی۔

نکاح مکمل ہوا تو رشتہ داروں کے درمیان مبارک بادوں کی گونج تھی،

امی کی آنکھوں میں آنسو اور خوشی دونوں،

پاپا خاموشی سے سب کو پانی پلا رہے تھے۔

اسی لمحے دروازے پر ڈاکیا آیا۔

"آیان اکرم کے نام ایک رجسٹرڈ پوسٹ ہے۔"

آیان نے حیرت سے لفافہ کھولا۔

لفافے میں ایک سنجیدہ سا سفید کاغذ تھا —

اوپر Pakistan Cricket Board کا لوگو۔

وہ لمحہ جیسے وقت تھم گیا ہو۔

میگ اس کے قریب آئی،

"کیا ہے؟"

آیان نے خط پڑھا —

آہستہ آہستہ، جیسے لفظوں سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہو…

لیکن ہر لائن اُسے ایک اور دُنیا کی طرف لے جا رہی تھی۔

> "Dear Ayan Akram,

We are pleased to inform you that you have been selected as part of the Pakistan National Cricket Team’s mentoring squad, with further training and potential playing selection based on upcoming performance trials."

— PCB Selection Committee

آیان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

میگ نے ہاتھ تھام لیا،

"یہ… یہی تھا نا تمہارا خواب؟"

آیان نے سر جھکایا۔

"نہیں۔

اب خواب صرف یہ نہیں رہا…

اب خواب وہ بھی ہے جو ابھی میری بیوی بنی ہے۔

اب میں دونوں کو ساتھ لے کر چلوں گا۔"

امی نے وہ خط لیا،

پاپا نے اس پر نظر ڈالی،

اور دونوں نے سر ہلایا جیسے دل ہی دل میں کہا ہو:

"ہم نے جو بیٹا پالا تھا…

وہ صرف کھلاڑی نہیں،

اب انسان بن چکا ہے۔"

---

نکاح کی رات، چھت پر دونوں ساتھ بیٹھے تھے۔

چاند ہلکا سا نکلا ہوا تھا۔

آیان خاموشی سے آسمان دیکھ رہا تھا،

اور میگ اُس کی طرف۔

"تین سال لگے، آیان…"

میگ نے دھیرے سے کہا۔

"ہاں… لیکن شاید اسی لیے یہ لمحہ اتنا مکمل ہے۔

اگر تم جلدی آ جاتیں تو میں آج کا آیان نہ ہوتا۔

اور اگر خط پہلے آ جاتا،

تو شاید تم میرے ساتھ نہ ہوتیں۔"

میگ نے ہنستے ہوئے کہا:

"اب جو بھی آئے گا…

ہم دونوں کے ساتھ آئے گا۔"

چاند، جو بہت دیر سے خاموشی سے دیکھ رہا تھا…

اب جیسے ہلکی روشنی میں اُن پر جھک گیا۔

کیونکہ کچھ کہانیاں صرف ختم نہیں ہوتیں —

وہ نکاح کے بعد شروع ہوتی ہیں۔

—--------------------------------

کرکٹ گراؤنڈ میں روشنی چمک رہی تھی۔

پاکستان نے ایک سنسنی خیز میچ جیتا تھا،

اور آیان اکرم کو مین آف دی میچ قرار دیا گیا تھا۔

کیمرہ اُس کے چہرے پر تھا، اور اینکر نے مائیک اس کی طرف بڑھایا۔

اینکر (مسکراتے ہوئے):

آیان، آج آپ نے پورے پاکستان کو حیران کر دیا۔

پچاس رنز، وہ بھی صرف 28 گیندوں پر!

آپ کی واپسی… ایک خواب لگتی ہے۔

کیا محسوس ہو رہا ہے؟

آیان (ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ):

"It doesn’t feel real. To be honest, I wasn’t just playing for the scoreboard today... I was playing for my father’s whistle... and for someone who believed in me when no one else did."

اینکر (حیرت سے):

یہ 'سیٹی' کون سی تھی؟ اور وہ کون تھا جو یقین کرتا تھا؟

آیان (سانس لیتے ہوئے، اور پھر نرم لہجے میں):

"My father... he wasn't a coach, not a cricketer, just a workshop man.

But every time I played well in the street, he would whistle —

a loud, sharp sound — and I would feel like I had conquered the world."

اینکر آہستہ آہستہ خاموش ہو جاتا ہے۔ آیان آگے بولتا ہے:

"Years later, when everything fell apart — injury, rejection, silence —

I couldn’t hear the crowd, or my teammates...

But in my heart, I still heard that whistle.

And I got up."

اینکر (نم آنکھوں سے):

اور وہ دوسرا شخص؟ جس نے یقین رکھا؟

آیان (ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ، نظریں کیمرے کی طرف):

"She’s my wife now. Meg.

She didn't just stand by me —

she made the world see me again.

Through her words, her writing, her stubborn belief.

She fought for me when I had no strength left to fight."

"This wasn’t just a comeback.

This was proof…

that sometimes, love and faith from two people —

a father with a whistle,

and a girl with a pen —

can bring a dead dream back to life."

کیمرہ اُس کے چہرے پر زوم کرتا ہے۔

اینکر خاموش ہے،

تماشائیوں کی طرف سے تالیاں بجنے لگتی ہیں۔

میگ اسکرین پر پردے کے پیچھے کھڑی ہے، آنکھوں میں نمی، مگر چہرے پر فخر۔

آیان، آہستہ سے کیمرے کی طرف دیکھتا ہے، اور آخری جملہ کہتا ہے:

"This was never just about cricket.

It was about never forgetting… who held you up when the world let you down."

—--------------------------------

اختتامی پیغام — از انشا نور

جب میں نے "پاپا کی سیٹی" لکھنا شروع کی تھی…

تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کہانی کہاں جائے گی۔

بس ایک لڑکا ذہن میں تھا، جس کے ہاتھ میں بیٹ تھا،

اور دل میں سوال — "کیا میرے لیے بھی کچھ ہے؟"

میں نے اُس لڑکے کے ساتھ سفر کیا،

کبھی اُس کے پاپا کی سیٹی میں خود کی ابّا کی آواز سنی،

کبھی میگ کے لفظوں میں اپنی کسی دوست کی خاموشی کو پہچانا،

اور کبھی آیان کے گرنے میں… اپنا آپ۔

یہ کہانی کسی ہیرو کی نہیں تھی۔

یہ کہانی اُن سب کی تھی

جو "اچھے نمبر" نہیں لا پاتے،

جو "وقت پہ کچھ بن نہیں پاتے"،

جو گر جاتے ہیں… مگر چُپ چاپ اٹھتے ہیں۔

اگر آیان آپ کو اپنا بھائی لگا،

یا میگ کسی بھروسے والی دوست کی طرح محسوس ہوئی،

تو یقین جانیے —

آپ نے صرف کہانی نہیں پڑھی،

آپ نے اسے جیا ہے۔

زندگی اکثر بڑے اعلان کے ساتھ نہیں بدلتی۔

بس کسی دن،

کسی چھوٹے سے لمحے میں

کوئی سیٹی سنائی دیتی ہے

اور سب کچھ بدل جاتا ہے۔

بس دعا یہی ہے —

کہ آپ کو بھی وقت پر وہ سیٹی مل جائے۔

اگر کہانی ادھوری لگی ہو…

تو دل سے شکر گزار ہوں،

کیونکہ اچھی کہانیاں مکمل ہو بھی جائیں —

تو اُن کی کچھ باتیں دل میں رہ ہی جاتی ہیں۔

انشا نور

---