Baksh unkahi mohabbat in Urdu Love Stories by NooreHayat books and stories PDF | انکہی محبت

Featured Books
Categories
Share

انکہی محبت

✍️ نورِ حیات

حصہ اول: الماس… خاموش محبت کا آئینہ

کالج کی پہلی صبح تھی۔
نئی عمارت، نئے چہرے، اور بے شمار آنکھیں ایک دوسرے کو پرکھ رہی تھیں۔
اسی ہجوم میں ایک سادہ سی، خاموش سی، مگر بے حد پرکشش لڑکی اور خوبصورت— الماس — آہستہ قدموں سے کلاس کی طرف بڑھ رہی تھی۔

اس کی شخصیت میں کوئی نخرہ نہیں تھا، صرف سکون تھا۔
وہ نہ دوستی کی طلب گار تھی، نہ توجہ کی۔
مگر اس کی خاموشی میں ایک کشش تھی — جیسے دل بے سبب کھینچنے لگے۔

الماس کی سب سے قریبی، بلکہ واحد دوست تھی شاہانہ۔
 خوبصورت، خودپسند، اور سب سے بیزار طبعت
وہ اکثر الماس کے سادہ پن کا مذاق اڑاتی،
مگر الماس ہمیشہ مسکرا کر بات ٹال دیتی۔

اسی کلاس میں ایک لڑکا تھا — اللہبخش خان۔
درمیانے قد کا، پر اعتماد، ہنستا مسکراتا، اور بات بات پر سب کو ہنسانے والا۔
 لڑکیوں کی توجہ کا مرکز۔

شاہانہ کو اللہبخش پسند تھا اور اللہبخش کو شاہانہ، اور یہ بات الماس بخوبی جانتی تھی۔
الماس ہر روز شاہانہ کے ذریعے اس کا نام سنتی رہتی، مگر کبھی کچھ نہ کہا — نہ اعتراض، نہ اظہار۔

پھر ایک دن…
الماس سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے کسی سے ٹکرا گئی ہاتھوں سے کتابیں گر گئیں۔
ایک لڑکا جھکا، کتابیں اٹھائیں، نرمی سے کہا:
"I’m really sorry…"
وہی آواز، وہی لہجہ…
الماس نے نظر اٹھائی — اللہبخش خان۔

بس، وہ لمحہ — ایک نظر، ایک لمس — کافی تھا۔
محبت چھپ کر دل میں اتر گئی۔
یہ وہ پہلا لمحہ تھا جب الماس نے اللہبخش خان کو دیکھا۔
ایک نظر… اور بس دل میں کہیں ٹھہر گیا۔
اب وہ روز اسے دیکھتی، خاموشی سے۔
جیسے اس کی موجودگی ہی اس کے دن کی رونق ہو۔

مگر جو اس کا تھا ہی نہیں، اس کے قریب کیسے آتا؟
اللہبخش تو شاہانہ کے سحر میں تھا — 

وہ جانتی تھی کہ اللہبخش کی آنکھیں کس طرف چھپ کر دیکھتی ہیں،
پھر بھی! 
الماس دھیرے دھیرے اللہبخش کے عشق میں قید ہو گئی…
پہلی بار زندگی میں دل کسی کے لیے دھڑکا —
مگر وہ دل خود ہی کے حصے میں نہ آیا۔

پھر ایک دن، اللہبخش غائب ہو گیا۔

نہ کالج میں آیا، نہ امتحان میں، نہ کسی کو خبر، نہ نشان۔
وہ کئی نہیں تھا 
یہ وہ زمانہ تھا جب موبائل فون نہیں ہوتے تھے نا ہی social media اکاؤنٹ 
لین لائن فون کا دور تھا نمبر بھی ملنا مشکل ہوتا تھا 
الماس کی نظریں کلاس کے دروازوں سے لگی رہتی—
ہر دن، ہر لمحہ، صرف ایک امید پر…

وہ آئے گا… شاید آج… شاید کل…

مگر یہ کوئی ناول یا فلم نہ تھی…
یہ حقیقی زندگی تھی…
جہاں ہیرو ہمیشہ واپس نہیں آتے 
وہ کئی نہیں تھا 
پھر بھی انتظار تھا 
---

حصہ دوم: پندرہ سال بعد…

زندگی اب بدل چکی تھی۔
الماس ایک باوقار ٹیچر تھی، تنہا مگر مطمئن۔
محبت ایک بند کتاب کی مانند دل میں رکھی تھی — جسے کبھی کھولا نہیں گیا۔

ایک دن رخسار کی کال آئی:
"کالج کا گیٹ ٹوگیدر ہے۔ سب آ رہے ہیں… اللہبخش بھی!"

دل دھڑکا… سانس رکی…
پندرہ سال بعد… ایک ملاقات؟
کیا یہ ممکن تھا؟

تقریب والے دن، الماس ہال میں داخل ہوئی —

پندرہ سال بعد…
الماس ایک بار پھر کالج کے دروازے پر کھڑی تھی —
مگر اب نہ وہ الماس ویسی رہی تھی، نہ دنیا۔

سب ہنس رہے تھے، تصویریں لے رہے تھے،
اور ایک گوشے میں کھڑا وہ… اللہبخش خان۔

وہی آنکھیں… مگر اب خالی،
وہی مسکراہٹ… مگر اب تھکی ہوئی۔

الماس نے نظریں جھکا لیں —
کیونکہ اب اسے دیکھنے کا کوئی حق باقی نہ تھا۔

شام ڈھلی، محفل ختم ہوئی…
مگر ایک سوال دل میں چپک کر رہ گیا:

"شاہانہ کہاں ہے؟"

"اللہبخش نے شادی کس سے کی؟ وہ خوش کیوں نہیں لگاتا؟" 
    
پھر رخسار کی دعوت پر ایک اور تقریب میں ملاقات ہوئی۔
وہاں اللہبخش بھی رخسار کے اسرار پر آیا تھا 
اللہبخش قریب آیا:
"السلام علیکم الماس… کیسی ہو؟"
"وعلیکم السلام… ٹھیک ہوں۔"
"شادی نہیں کی؟"
"نہیں…"
"کیوں؟"
"کسی کا انتظار تھا…"
"کس کا؟"
"خود کا۔"
کچھ دیر خاموش رہی 
اللہبخش نے کہا:
" کیا سوچ رہی ہو"
الماس نے کہا:
" تم نے کسی اور سے شادی کر لی شاہانہ کو چھوڑ کر"
اللہبخش نے سوچتے ہوئے کہا:
"شاہانہ نے جو کیا، اس کے بعد کسی پر یقین نہیں رہا
اس پھر خاندان والوں کی بات مان کر شادی کر لی"
 (الماس نے دل میں سوچا کتنا آسان ہوتا ہے مردوں کے لئے کسی کو بھول جانا کس اور کے ساتھ زندگی گزارنا)

"میں نے تمہیں یاد رکھا، الماس"
اچانک بخش خان نے کہا 
تو الماس چوک گئی 

مگر ہمت نہیں کر سکا۔
شاہانہ نے تمہارے بارے میں بہت کچھ کہا تھا…
مجھے لگا تم بھی میرے جذبات سے کھیل رہی ہو 

الماس کی آنکھوں میں آنسو تھے:
دونوں سہلیوں کی قربانی ضائع ہو چکی تھی 
بخش کسی اور کا تھا 
بس شاہانہ نے خود کو اسی زمانہ میں آزاد کر کے نئی زندگی شروع کر دی تھی اور الماس آج بھی اسی قید میں تھی 

وہ کہنا چاہتی تھی 
" میں نے تم سے عشق کیا ہے بخش 
میں نے برسوں تمہارا انتظار کیا۔
نہ تم آئے، نہ کوئی پیغام۔" 
مگر اب کچھ نہیں تھا کہنے کو ۔۔۔۔۔





---

حصہ سوم: بخشش
آج رخسار کہ بھائی کا ولیمہ تھا اور بہت سارے کلاسمیٹس اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ انوائٹڈ تھے 
بخش خان اس کی بیوی اور دو بچے 
رخسار نے بخش کی بیوی سے الماس کا تعارف کر وایا 
پتہ نہیں کیوں بخش کی بيوی الماس کو عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے کہ رہی ہو الماس میرے شوہر کو بھول جاؤ دور رہنا اُس سے 
الماس کو بخش کی بیوی کی نظروں سے الجھن ہونے لگی
فنکشن کے درمیان سے بخش کی فیملی گھر جا چکی تھی بخش نہیں گیا تھا 

تقریب ختم ہو چکی تھی۔ سب رخصت ہو رہے تھے۔
الماس نے آسمان کی طرف دیکھا —
چاند پورے جوبن پر تھا، اور دل ہلکا سا محسوس ہو رہا تھا۔

بعض محبتیں مکمل نہیں ہوتیں، لیکن وہ مکمل انسان بنا دیتی ہیں۔

اور یہی الماس کی محبت تھی — "بخش" — ایک ایسی یاد، جو کبھی مٹی نہیں۔
بخش الماس کے قریب آیا 
"آسمان کو کیوں غور رہی ہو؟" 
اس نے ہنستے ہوئے پوچھا 

"چاند اکیلا ہے لیکن مکمل ہے بخش خان"
الماس نے کہا 
بخش خان نے اسباب میں سر ہلا یا 
"مممممم "

وہ لمحہ بہت طویل تھا…
دو انسان… دو دل… اور درمیان میں پندرہ سال کی خاموشی۔

الماس نے روتے ہوئے کہا:
"Baksh Khan…
تم میرے نہیں ہو سکتے…
مگر میں آج خود کو تم سے بخشنے آئی ہوں۔
محبت کی قید سے… تمہاری یاد سے…
آج میں آزاد ہونا چاہتی ہوں…"

اللہبخش نے نظریں جھکا لیں:
"کاش… تم وقت پر بول لیتے، الماس…"

الماس مسکرا دی —
آنکھوں میں آنسو، دل میں سکون۔

خاموش محبت کو الفاظ مل گئے تھے،
مگر وقت اب بھی خاموش تھا…
صرف دل ہی جانتا تھا —
یہ محبت، شاید پوری نہ ہوئی،
مگر مکمل ضرور تھی۔
محبت کبھی ختم نہیں ہوتی ، بس وقت کے ساتھ بخش دی جاتی ہے 

وہ چل دی، لیکن اس کے قدموں کے نشان میں اک سکون تھا۔
آج الماس نے محبت کو پا کر نہیں، چھوڑ کر مکمل کیا تھا۔




---

ختم شدہ

🌹حتمی رائے:

"بخش" ایک ایسی کہانی ہے جو دل میں ٹھہر جاتی ہے، جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ محبت صرف پانے کا نام نہیں، بخش دینے کا بھی عمل ہے۔ الماس نے جس خاموشی، وقار اور درد سے محبت کو جیا، وہ ہر اس دل کا عکس ہے جس نے کسی کو بغیر اظہار چاہا ہو۔

 "کیا آپ نے کبھی کسی کو بخشا ہے، بغیر کچھ کہے؟"