Part 6 Marriage of Choice in the Light of Islamic Teachings in Urdu Spiritual Stories by Shekh Javed Ashraf books and stories PDF | 6 - اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پسند کی شادی

Featured Books
Categories
Share

6 - اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پسند کی شادی


2۔ وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا
۱۔ یہ آیت بھی جمہور کے موقف پر محکم نہیں ہے
اس میں اولیاء کو نکاح کرانے کا کہا جارہا ہے
اولیاء کی وساطت سے نکاح کو حنفیہ بھی مستحب کہتے ہیں
سوال یہ ہے کہ عاقلہ وبالغہ اگر اپنا نکاح خود کر لے تو وہ منعقد ہو گا یا نہیں؟
اس آیت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے لہذا استدلال مکمل نہ ہوا
۲۔ یہ آیت منسوخ ہے
علامہ بدرالدین عینیؒ (م۔ 855ھ)لکھتے ہیں:-
یہ آیت کریمہ منسوخ ہے اور ناسخ یہ آیت ہے
وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُم
اور نیز اس میں خطاب عام ہے جو اولیاء کو بھی شامل ہوسکتاہے اور غیر اولیاء (اولوالامر) کو بھی شامل ہوسکتاہے تو استدلال تام نہ ہوا
3۔ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَجَھُنَّ
اس آیت سے بھی جمہور فقہاء کا استدلال نامکمل ہے
اس آیت میں واضح خطاب ان شوہروں کو ہو رہا ہے جو اپنی بیویوں کو طلاق کے بعد ان کی مرضی سے نکاح کرنے سے روکتے تھے
امام بدر الدین عینیؒ لکھتے ہیں :-
لایتم الاستدلال بہ لان ظاہرالکلام ان الخطاب لازواج الذین یطلقون نساء ھم ثم یعضلونھا بعد انقضاء العدۃتاثماولحمیۃ الجاھلیۃ لایترکونھن یتزوجھن من شئن من الازواج
’’اس آیت کریمہ سے استدلال تام نہیں ہے اس لیے کے کلام کا ظاہریہ ہے کہ اس آیت میں ان خاوندوں کو خطاب ہے جو اپنی عورتوں کو طلاق دے دیتے، پھر عدت گزرنے کے بعد جاہلیت کے تعصب کی وجہ سے انہیں روکے رکھتے تھے وہ انہیں چھوڑ تے نہیں تھے کہ وہ اپنی حسب منشاء شوہروں سے شادی کر لیں‘‘
علامہ عینیؒ کے اس محققانہ کلام سے واضح ہوا کہ اس آیت کریمہ میں اولیاء کو خطاب نہیں ہے بلکہ ان عورتوں کے سابقہ شوہروں کو ہے جو طلاق دینے کے بعد دوسری جگہ ان عورتوں کی شادی میں رکاوٹ بنتے تھے
نیز اس آیت وَاِذَا طَلَّقْتُم میں کہا جا رہا ہے جب تم طلاق دو، شرط میں ان کے پہلے خاوند مراد ہیں تو جزا ء فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ میں بھی وہی خاوند مراد ہوں گے اور اس کا قرینہ کے اس آیت میں خاوند ہی مراد ہیں
آیت کریمہ کے یہ الفاظ وَاِذَا طَلَّقْتُم ’’اور جب تم طلاق دو ‘‘طلاق خاوند دیتے ہیں نہ کہ اولیاء اس لیے یہ خطاب سابقہ شوہروں کو ہے
4۔ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآء
اس آیت سے تو صرف اتنا معلوم ہو رہا ہے کہ مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے
امام ابن کثیرؒ (م۔ 774 ھ)اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :-
’’مرد، عورت کا حاکم اور رئیس ہے اور ہر طرح سے اس کا محافظ و معاون ہے
اس لیے کہ مرد، عورتوں سے افضل ہیں یہی وجہ ہے کہ نبوت ہمیشہ مردوں میں رہی بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی مرد بن سکتا ہے
حضورﷺ نے فرمایا وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جو اپنا والی عورت کو بنائے
اسی طرح ہر قسم کا منصب قضا بھی مردوں کے لائق ہے
اور دوسری وجہ افضلیت کی یہ ہے مرد، عورتوں پر مال خرچ کرتے ہیں جو قرآن وسنت سے ان کے ذمہ ہے مثلاً نان و نفقہ، مہر وغیرہ اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا
پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے اور با اعتبار نفع کے بھی اس کا بڑا درجہ ہے اسی لحاظ سے مرد کو عورت کا سردار بنایا گیا ہے‘‘
امام ابن کثیرؒ کی بیان کردہ تفسیر سے معلوم ہوا کہ اس آیت سے مردوں کی فضیلت ثابت ہو رہی ہے
جس کا مقتضی یہ ہے کہ عورتوں کو اپنے معاملات میں مردوں سے رہنمائی لینی چاہیے جس میں شادی وغیرہ کا مسئلہ بھی شامل ہے کہ مردوں کی سرداری اور قیادت میں عورتوں کو قدم بڑھانا چاہیے اس پر سب کا اتفاق ہے
جس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان بحث ہے کہ اولیاء کی اجازت کے بغیر عورت اپنا نکاح خود کرسکتی ہے یا نہیں، اور اگر کر لیتی ہے تو وہ منعقد ہوگا یا نہیں اس کا اس آیت میں کوئی ذکر نہیں ہے جبکہ وہ آیات جن میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہو رہی ہے ان کا مقتضٰی یہ ہے کہ اس قسم کا نکاح منعقد ہو جائے گا
5۔ قَالَ اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ اِحْدَی ابْنَتَیَّ ھٰتَیْنِ
اس آیت سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اولیاء کو پیغام نکاح دینا چاہیے جس کے استحبابی درجہ میں احناف بھی قائل ہیں اور جو اختلافی مسئلہ ہے اس کا اس آیت میں ذکر نہیں ہے کہ اگر عورتیں خود ایسے اقدامات کر لیں تو وہ صحیح ہوں گے یا نہیں؟
جبکہ حنفیہ کے پیش کردہ دلائل میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہو رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اپنا نکاح کرسکتی ہیں
6۔ لاَنِکَاحَ اِلاَِّ بِوَ لِیّ ٍ
7۔ ایما امراۃ نکحت بغیر اذن ولیہا فنکاحہا باطل باطل باطل
علامہ ابن نجیمؒ نے ان دونوں حدیثوں کے متعدد جوابات دیے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں

۱۔ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں
۲۔ ان دونوں حدیثوں کی صحت میں اختلاف ہے اور یہ اس حدیث صحیح کا معارض نہیں بن سکتیں جس کی صحت میں اتفاق ہے اور وہ حدیث صحیح یہ ہے
الْأَیِّمُ اَحَقُّ بِنَفسِھَا مِن وَلیِّھَا
بے نکاحی عورت اپنی ذات کی ولی سے زیادہ حقدار ہے
3۔ ایما امراۃ نکحت الخیہ حدیث باندی، صغیرہ اور مجنونہ کے بارے میں ہے کہ ان کا نکاح ولی کے بغیر منعقد نہ ہوگا یا اس عورت کے بارے میں ہے جو اپنا نکاح ’’غیر کفو‘ ‘میں کر لے
نیز یہ حدیث جمہور فقہاء کے خلاف حجت ہے
اس لیے کہ اگر کسی عورت نے ولی کی اجازت سے نکاح کیا تو اس حدیث کے مطابق وہ صحیح ہے حالانکہ جمہور فقہاء اس کے قائل نہیں ہیں
کیوں کہ ان کے نزدیک ولی کی ’’تعبیر‘‘ ضروری ہے
4۔ لاَنِکَاحَ اِلاَِّ بِوَ لِیّ ٍیہ حدیث نفی کمال پر محمول ہے کہ اس قسم کا نکاح کامل نہیں ہوگا
5۔ عورت اپنے نفس کی خود ولیہ ہے لہذا اگر وہ اپنا نکاح کرتی ہے تو وہ ولی کے بغیر نہ ہوا اس توجیہ کا فائدہ یہ ہوا کہ اس سے ان نکاحوں کی نفی ہو جائے گی جن میں عورتوں کی اپنے اوپر ولایت نہیں
مثلاً باندی اور مجنوبہ کی اپنے اوپر ولایت نہیں ہے تو ان کے کیے ہوئے نکاح منعقد نہیں ہوں گے
احناف اور جمہور فقہاء کے تفصیلی موقف کو جاننے کے بعد دو قسم کی آرا ء سامنے آئی ہیں
1۔ حنفیہ کے ہاں عاقلہ و بالغہ عورت اپنا نکاح کرنے میں خود مختار ہے اگر اس نے ولی کی اجازت کے بغیر ’’کفو‘‘ میں اپنا نکاح کر لیا تو یہ منعقد ہو جائے گا
گو بہتر یہی ہے کہ معاملات نکاح اولیاء کی وساطت سے ادا ہوں
2۔ جمہور فقہاء کے نزدیک عورت اپنا نکاح خود نہیں کر سکتی اگر ایسا کیا تو وہ نکاح سرے سے منعقد نہیں ہو گا
اب عصری رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر عاقلہ و بالغہ عورت اپنے’’ کفو ‘‘میں شادی کرتی ہے تو فقہائے احناف کے ہاں وہ نکاح درست ہوگا اور جمہور فقہاء کے نزدیک اس قسم کا نکاح صحیح نہ ہو گا
تاہم جو لوگ گھروں سے بھاگ کر اولیاء کی اجازت کے بغیر شادی و بیاہ کرتے ہیں ان کا یہ فعل خلاف سنت اور قابل مذمت ہے اوراس قسم کا نکاح شریعت اسلامیہ میں پسندیدہ نہیں ہے
کیونکہ اولیاء اپنی اولاد کا بہتر اور اچھا ہی سوچتے ہیں
جہاں شریعت یہ کہتی ہے کہ مرد و عورت اپنی محبت و پسند سے نکاح کرسکتے ہیں وہاں اس بات کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے کہ شادی اور نکاح کا معاملہ اپنے بزرگوں اور اولیاء کے ہاتھوں طے کرایا جائے اور عقد سے متاثر ہونے والے اہم افراد (اولیاء) کی رضا مندی کے بغیر نہ کیا جائے تاکہ نکاح کے بنیادی مقاصد پس پشت نہ چلے جائیں اور لڑائی جھگڑوں اور تلخیوں کا طوفان برپا نہ ہو جائے
اس لیے کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نکاح صرف دو افراد کے ملن کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں دو خاندانوں کے آپس میں تعلقات قائم ہوتے ہیں
اگر خاندان کے بزرگوں اور بڑوں سے صرف نظر کرتے ہوئے نکاح کیا جائے گا تو اس میں ان کی دعائیں اور دلی تمنائیں شامل نہیں ہوں گی اور بسا اوقات اولیاء اپنے نظر انداز کیے جانے کو اس قدر محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی شفقتوں اور سرپرستی اولاد کو محروم کر دیتے ہیں
جس سے زوجین کو قد م بقدم مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے
احناف اور جمہور فقہاء کے اس موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ محد ث دہلویؒ نے جو تطبیق کی صورت نکالی ہے وہ نہایت اہمیت کی حامل ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:-
’’نکاح میں صرف فیصلہ کرنے کا اختیار عورتوں کو دے دیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ ان کی عقل ناقص اور سوچ ادھوری ہوتی ہے
کئی مرتبہ ان کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کے لئے کون سا قدم اٹھانا بہتر ہے اور عام طور پر ان خاندانی خصوصیات کا لحاظ بھی نہیں کرتی جو خاندانوں میں اہم ہوتی ہیں
چنانچہ وہ کبھی غیر کفو میں نکاح کر لیتی ہیں جو اُن کے خاندان کے لئے باعث شرمندگی بنتا ہے
اس لئے ضروری ہے کہ یہ تمام معاملات اولیاء کے ہاتھوں سرانجام ہوتا کہ ہر قسم کی خرابی اور فساد سے بچا جاسکے اور عام طور پر فطرت کی طرف سے لوگوں میں رائج طریقہ یہی ہے کہ مرد عورتوں کے ذمہ دار ہوں اور ان کے ہاتھ میں ہی معاملات کو کھولنا اور لپیٹنا ہو
اُن کے ذمہ مصارف ہوں اور عورتوں کے نکاح میں اولیاء کا ہونا مردوں کی شان بڑھاتا ہے اور عورتوں کا خود نکاح کرنا بے شرمی کی بات ہے جس کا سبب حیاء کی کمی ہے اور اس میں اولیاء کی حق تلفی ہوتی ہے جو ان کی بے قدری کا باعث ہے اور اہم بات یہ ہے کہ نکاح کی تشہیر بھی ضروری ہے تاکہ نکاح اور بدکاری میں فرق ہو جائے اور شہرت کا بہترین طریقہ ہے کہ اولیاء کو نکاح میں شامل کیا جائے ‘‘
آخر میں شاہ صاحب نے ایک اور اہم بات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے:-

’اقول: لایجوز ایضاان یحکم الاولیاء فقط لانھم لایعرفون ماتعرف المراۃ من نفسھا ولان حار العقد وقارہ راجعان الیھا
’’میں کہتا ہوں یہ بھی جائز نہیں کہ صرف اولیاء کو ہی حاکم بنا کر عورتوں کے نکاح کا پورا اختیار دے دیا جائے اس لئے کہ وہ نہیں جانتے اس بات کو جسے عورت اپنی ذات کے بارے میں جانتی ہے اور اس لئے کہ عقد کا گرم وسرد معاملہ عورت کی طرف لوٹنے والا ہے‘‘
شاہ صاحبؒ کی یہ رائے نہایت معتدل ہے کہ شادی و بیاہ کے مسئلہ میں مکمل اختیار نہ صرف اولیاء عورت کو دیا جائے کہ وہ اپنی پسند اور نا پسندکو مد نظر رکھتے ہوئے عورتوں کے جذبات سے کھیلیں اور نہ ہی عورت کو مکمل اختیار حاصل ہو کہ وہ اپنی من مانی اور مرضی کے مطابق شادی کرنے کے لئے اپنے اولیاء سے مشاورت کی بھی ضرورت محسوس نہ کرے بلکہ فریقین کو چاہیے کہ وہ اس نہایت اہم عائلی مسئلہ کو شریعت اسلامیہ کے دیے گئے احکامات کی روشنی میں طے کریں کہ جانبین کے حقوق متاثر نہ ہوں جو کہ یقینا اُن کے لئے باعث برکت و اطمینان ہو گا"
اسلام ایک عالمگیر مذہب اور دین فطرت ہے جو انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو صاف اور پاکیزہ دیکھنا چاہتا ہے ہر وہ بے راہ روی کا راستہ اور موڑ جو انسان کے لئے نقصان دہ ہے اس سے منع کرتا ہے اور سیدھے راستہ پر چلنے کی ہدایت کرتا ہے
عورتوں کی طرف رغبت اور قلبی میلان و رجحان لوگوں کی فطرت میں شامل ہے
اسلام نے غلط اور آوارگی والے راستوں کے متبادل مرد و عورت کے درمیان تعلق کا ایک جائز طریقہ نکاح کی صورت میں دیا
جس کا مقصود اصلی مرد و عورت کا ایک دوسرے سے جنسی آسودگی حاصل کرنا ہے اور اپنے دامن عفت کو بے حیائی اور برائی کے بدنما داغوں سے بچانا ہے جو نہ صرف حفاظت نسب کا سبب ہے بلکہ بقاء نسلِ انسانی کا بھی ذریعہ ہے
اس کے علاوہ جنسی تعلقات کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ سب ناجائز اور حرام ہیں
اس رشتہ کے قیام کے لئے اسلام مرد و عورت دونوں کو پسند و ناپسند کا اختیار دیتا ہے تاکہ شادی کے بعد نا پسندیدگی کی تلخیاں پرسکون زندگی میں انتشار و اضطراب کی باعث نہ بنیں اور اولیاء کو اس مسئلہ میں عورتوں پر سختی کرنے سے منع کیا ہے اور مردوں و عورتوں کو بھی یہ تلقین کی ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کو اعتماد میں لے کر ان کی مشاورت و معاونت سے فیصلہ کریں اور ان کی وساطت سے قدم اٹھائیں تاکہ ان کی بھی دل آزاری نہ ہو اور معاشرتی زندگی صحیح خطوط پر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔۔۔